غزل
پرانے قصے ،پرانی باتیں ،نئے زمانے میں پاس رکھنا
نقوش الفت سنبھال رکھنا ،قلم کو حر کا عکاس رکھنا
کبھی نہ روشن خیال بن کر حقیقتوں سے کنارہ کرنا
ستارے گردش میں آبھی جائیں تو خونی رشتوں کی آس رکھنا
جدیدیت کے پری وشوں کے ملیں گے تم کو نوابی پیکر
وفا کے پیمان جن سے باندھو انہیں قرین قیاس رکھنا
قدم قدم پہ لہو ملے گا جہاں حوادث کی زد میں ہوگا
جو حادثوں میں بھی کام آئے بدن پہ ایسا لبا س رکھنا
خزاں رسیدہ سے موسموں کو کریں جو شاداب نغمگی سے
ہمیشہ انکا لحاظ کرنا انہیں کی دل میں ہی میں پیاس رکھنا
جو اونچے درجے کے لوگ ہونگے وہ میٹھے بولوں سے مار دیں گے
ریا کے نشتر سے بچتے رہنا سخن کی سچ پر اساس رکھنا
وفا کی امید تو نہیں ہے اگر کہیں سے یہ مل بھی جائے
عطاخوشی کو بھی راز رکھنا ،سکوں کا حلیہ اداس رکھنا
شاعر ۔ پروفیسر عطاء محمد عطاء کوٹ سلطان