تُو نے دیکھی نہیں عشق کے قلندر کی دھمال
وجد میں گم قلندری فقیروں کا رقص” دھمال”
وسیب کے ثقافتی رنگوں میں ” دھمال” سے رنگ مزید نکھرے ہیں
تحریر : محمد اسلم انصاری
(0307-6544391)
maslamly79@yahoo.com
غالباً رقص کو اعضاء کی شاعری پہلی بار مرحوم جوش ملیح آبادی نے کہا تھا ۔اصولِ نغمہ یا فطری امنگ اور جوشِ مسرت میں تھرکنے اور ناچنے کے عمل یا کیفت میں جھومنا ا ور ناچناکو رقص کہلا تاہے۔ رقص لطیف انسانی جذبات اور ہاتھوں اور پیروں کی متوازن حرکات کی ہم آہنگی کا نام ہے رقص پاکستان کی ثقافت میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔آج سے کئی ہزار سال قبل اس خطے میں آباد موہن جودڑو کے شہر ی رقص کے بہت شوقین تھے جس کا ثبوت کھدائی میں برآمد ہونے والا رقاصہ کا کانسی کا مجسمہ ہے۔رقص کے مختلف لو ک انداز یہاں صدیوں سے رائج ہیں۔پاکستان کے ہرخطے میں رہنے والوں کے اپنے مختلف لوک رقص ہیں جو خوشی کے اظہارسے بھرپور ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر حاضرین لطف اندوز ہوتے ہیں۔جن میں بھنگڑا،لڈی،سمی،لیوا،چاپ ،جھومر ،اٹن،خٹک ڈانس،چترالی ڈانس،ہوجمالواور دھمال قابل ذکرہیں
دھمال اصطلاحاً قلندری فقیروں کا رقص کے نام سے معرو ف ہے۔ ۔ عرف عام میں درباروں اور مزاروں پر کیا جانے والا رقص جسے کچھ لوگ بے ہنگم رقص بھی کہتے ہیں، کو دھمال کہا جاتا ہے ۔دھمال کے حوالے سے اہل علم کی مختلف آراء ہیں ۔ جن میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ لفظ دھمال سنسکرت کے الفاظ دھرم اورآل سے ماخوذ ہے ۔دوسری رائے جو کہ علامہ شنہشاہ نقوی نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کی ہے کہ لفظِ دھمال "دہمیل” سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معنی "دس میل ” "لفظِ دہ میل” بھی اپنا ایک محبانہ پس منظر رکھتا ہے وہ یہ کہ حضرت سخی شہباز قلندر ؒ ، حضر ت امام سجادؓ سے بے پناہ محبت و عقیدت رکھتے تھے اسی وجہ سے روزانہ دس میل پیدل سفر کرکے حضرت امام سجادؓ کے مزار اقدس پر جا کرحاضر ی دیتے تھے۔شایدیہی وجہ ہے کہ حضرت سخی شہباز قلندر ؒ کے عقیدت مند” دہ میل”کے عقیدتی سفر کو ذہن میں رکھ کر ایک جگہ کھڑے کھڑے زمیں پر پاؤں مارتے ہوئے تصوراتی دس میل کا سفرطے کر رہے ہوتے ہیں اور یہی عقید ت مند و ں کا والہلانہ عقید ت کا اظہار بھی ہے۔ اسی طرح یہ رائے حقیقت کے قریب تر لگتی ہے جو بعدمیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موجود ہ ‘”دھمال "‘ کی شکل اختیار کر گیا۔دھمال عشق و محبت اور جنونِ وفاکا والہلانہ اظہار کا ذریعہ بھی سمجھاجاتاہے اور کسی شاعرنے لفظِ دھمال کو اپنی شاعری میں عشق و محبت کے استعارے کے طور کچھ یوں رقم کیاہے۔
تُو نے دیکھی نہیں عشق کے قلندر کی دھمال پاؤں پتھر پہ بھی پڑ جائے تو دھول اُڑتی ہے
دھمال کا ذکر آتے ہی صوبہ سند ھ کی روحانی درگا ہ عالیہ حضر ت عثمان المروندی المعروف سخی لعل شہبازقلندر ؒ کا منظر طائرانہ انداز میں ہمارے خیالوں میں گردش کرنا شروع کردیتا ہے کیونکہ سب سے زیادہ دھمال کا اہتمام حضرت سخی لعل قلندرؒ کے مزار اقدس کیا جاتا ہے۔
سالانہ عرس پر ماہِ شعبان کے پہلے ہفتے سے دور دراز علاقوں سے عقیدت مند اور لمبی لمبی لِٹوں والے مستوار قلندری فقیر قافلوں کی صورت میں قلندری لباس( سرخ کا رنگ لباس) زیب تن کرکے، ہاتھوں میں سرخ جھنڈے لہراتے ہوئے ، بڑی دھوم دھام کے ساتھ مزار پر حاضر ہوکر ڈھول اور نقارہ کی تھاپ پر مستانہ وار رقص یعنی "دھمال” ڈالتے ہیں۔اس موقعہ پر غیرممالک سے بھی مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے آپؒ کے عقیدت منداپنی عقیدت کے پھول نچھاور کرنے آتے ہیں۔
دھمال کے حوالے سے جی این بھٹ نے ” سرِ بازار می رقصم ” کے عنوان میں لکھتے ہیں :” آپ ؒ کے مزار پر تر ک صوفیا کرام کی طرح صوفیانہ رقص کا خا ص اہتمام کیا جاتا ہے جو دھمال کہلاتا ہے ۔ ترکی میں صوفیا ایک خا ص ردھم پر دف کے ساتھ دائر ے میں گھومتے ہیں اور مولانا روم ؒ کے اشعار پر محو رقص ہوتے ہیں ۔ دائرے میں ہو تا یہ رقص ان صوفیا پر ایک وجد اور خاص کیفیت طاری کر دیتا ہے ۔جس میں انسان کا روحانی وجود مادی وجود سے کٹ کر زمین و زماں کی ، وقت اور شعور کی رکاوٹوں کو عبور کرتا ہوا اپنے مرکز حقیقی یعنی ذات الہٰی کی طرف پرواز کرتا ہے اور یہی انسان کی روحانی معراج ہے ۔کہ جب وہ اپنے وجود کی نفی کرتے ہوئے لامکاں کی وسعتوں میں کھو جاتا ہے اور اپنے حقیقی مر کز کی طرف رجوع کر تاہے ۔ ترکی میں یہ رقص درویش کہلاتا ہے۔اس طرح برصغیر میں صوفیا کے ہاں دھمال کا رواج ہے۔ دھمال میں دف کی جگہ نقارہ بجایا جاتا ہے دھمال کے وقت نقارے کی آواز ایک خاص سُر پیدا کرتی ہے جس سے صوفی یا سالک وجد میں آجاتا ہے اور حلقہ باندھ کر محو رقص ہوتا ہے ۔ صوفیا میں نیند غالب آنے لگتی ہے تو وہ اس غفلت کو دور کرنے کے لئے نقارہ پر چوٹ لگاتے ہیں اور دھمال ڈال کر غفلت کو دور کرتے ہیں ۔ جوش اور جذبہ قلندری رنگ کے ساتھ مل کر جب وجد و کیف میں آتا ہے تو زمین سے آسمان تک کیف و مستی کی کیفیت چھا جاتی ہے اور مست الست صوفی دھمال کے رنگ میں ڈوب کر فنا کی کیفت میں چلا جاتا ہے ۔ اس وقت زمین و زمان اور مکین و مکان سب اس کے سامنے ہیچ ہو جاتے ہیں اور بقول اقبال ” ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر ” والی بات سامنے آتی ہے اور قلندر وقت کے احتیاج سے نکل وقت کی غلامی سے آزاد ہو کر وقت کو اپنا تابع کردیتا ہے۔دف یا نقارے کی آواز روح کے سکوت اور سالک کی غفلت کو توڑتی ہے روح کو بیدار کر تی ہے اور مست الحال صوفی جب دم مست قلندر کی لَے پر مدہوش ہوکر روحانی قوت کو بیدار پاتا ہے تو خوشی کے مارے دھمال ڈالنے لگتاہے۔ ۔ دھمال کی کیفیت میں اس کا جسم اپنے مادی وجود سے لاتعلق اور روح کی ازلی و ابدی طاقت اپنے رب کی معرفت حاصل کرنے کے شراب الست میں مدہوش ہو جاتی ہے۔حضرت لعل شہباز قلندر لکھتے ہیں ” سرود وسماع ” محبوب حقیقی تک لے جانے کا ذریعہ ہوتا ہے۔رقص کے حوالے سے حضرت سخی لعل شہباز قلندر کی فارسی زبان میں ایک مشہور غزل جو زبان زد عام ہے جس میں رقص کی وجد کی روحانی کیفیت بیان کی گئی ہے، قارئین کی نظر کی جاتی ہے۔
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدا ر می رقصم مگر نازم کہ بایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم
تو آں قاتل کہ از بہر تماشا خون من ریزی من آں بسمل کہ زیر ِ ِ خنجرِ خونخوار می رقصم
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہ جانبازاں یہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم
خوشا رند ی کہ پا مالش کنم صدپارسائی را زہے تقویٰ کہ من باجبہ و دستار می رقصم
اگرچہ قطر ۂ شبنم نیوئید برِ سرِ خار منم آں قطرہ شبنم بنوکِ خار می رقصم
تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم بہر طرزے کہ رقصانی منم اے یار می رقصم
سراپا بر سراپائے خود م از بیخودی قربان بگرد مرکز خود صورتِ پرکار می رقصم
مراطعنہ مزن اے مدعی طرزِ ادائیم بیں منم رندے خرابائی سرِ بازا ر می رقصم
کہ عشقِ دوست ہر ساعت دروں نارمی رقصم گاہے بر خاک می غلتم، گاہے بر خار می رقصم
منم عثمانِ ہارونی کہ یارے شیخ ِ منصورم ملامت می کند خلقے و من بتر دار می رقصم
ترجمہ” *مجھے نہیں معلوم کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں ناچ رہاہوں ، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہو ں کہ اپنے یار کے سامنے ناچتا ہوں ۔*تو وہ قاتل ہے کہ تماشے کے لئے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خونخوار خنجر کے نیچے ناچتا ہوں۔ *اے محبوت ! اور تماشادیکھ کہ جانبازوں کی بھیڑ میں ، سینکڑوں رسوائیوں کے سامان کے سر بازار ناچتا ہوں۔ *واہ! مے نوشی کہ جس کے لئے میں نے سینکڑوں پارسائیوں کو پامال کر دیا، خوب! تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ ناچتا ہوں۔*اگر چہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں پڑتا لیکن میں شبنم کا وہ قطر ہ ہوں کہ کانٹے کی نوک پر ناچتا ہوں۔*تو ہر وقت جب بھی مجھے نغمہ سناتا ہے ، میں ہر بار ناچتا ہوں اور جس طرز پر بھی تو رقص کراتا ہے ، اے یا ر میں ناچتا ہوں۔*سر سے پاؤں تک جو میر ا حال ہے اس بیخودی پر میں قربان جاؤں ، کہ پرکار کی طرح اپنے ہی گرد ناچتا ہوں۔*اے ظاہر دیکھنے والے مدعی ! مجھے طعنہ مت دے میں تو شراب خانے کا مے نوش ہوں کہ سرِ بازار ناچتا ہوں۔*عشق کا دوست تو ہر گھڑی آگ میں ناچتاہے ، کبھی تو میں خاک میں مل جاتا ہوں ، کبھی کانٹے پر ناچتا ہوں۔ میں عثمان ہارونی شیخ حسین بن منصور حلاج کا دوست ہوں ، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں سولی پر ناچتا ہوں ”
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مستوار قلندری فقیروں کے دائرۂ دھمال میں حیدر ی ملنگ بھی شامل ہونے لگے۔ اس سے دائرہ دھمال کو میزید وسعت نصیب ہوئی ۔ وسیب کے حسین ثقافتی رنگوں میں دھمال کو شامل کرنے سے نہ صرف ثقافت کے خوبصورت رنگوں میں اضافہ ہو اہے بلکہ اس سے مزید دھمال کو بامِ عروج بخشا گیاہے۔شاعر جاویدعابد شفیعی ؔ اپنی طویل نظم میں دھمال کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں
بھر کے حسین رنگ ثقافت کے رنگ میں بخشا عروج اور بھی ہم نے دھما ل کو
وسیب میں شادی و بیاہ کے تقریبا ت میں جہاں دیگر لوک رقص کا اہتمام کیا جاتا ہے وہاں بالخصوص چوکی کی محفل کا اختتام دھمال ڈال کر کیاجاتا ہے۔ وسیب کے لوگ پیر کی درگا ہ پر شدمانہ اور عقید ت کے اظہار کا جھومر اور دھمال ڈال کرتے ہیں ۔زائرین ڈھول اور نقارہ کی تھاپ پر دھمال ڈالا۔ دوسری طرف ذکر اذکار کی محفلیں بھی سجائی گئیں۔ عزیز شاہدکی شاعری سے ویسے تو اس وسیب کی مٹی کی خوش بو آتی ہے اپنی دھرتی اور دھرتی کے لوگ یاد آتے ہیں ساتھ ہی اپنی شاعری میں لفظ دھمال کا خوبصورت استعمال کر تے کچھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں:
نینوں نیرنگال نہ ترٹے
دل دی درد دھمال نہ ترٹے
ترٹ پوون اسمان اسان تیں
تیڈے سر دا وال نہ ترٹے
بشیروا ثق میلہ چنن پیر کی روداد میں لکھتے ہیں صحرائے چولستان کے سالانہ میلہ چنن پیر کی درگاہ پر منعقد کیا جاتا ہے ۔ اس میلے کی خصویت یہ ہے کہ وسیب کی بہت سی روایات کا امین ہے ۔ اس میلے میں شرکت کرنے والے جھومر ڈانس کرتے ہیں جس میں مردو خواتین ،بچے اوربڑی تعداد خواجہ سراء بھی شامل ہوتے ہیں ۔اس میلے کے دوران چولستان جیسا دشت انسانوں کے پُر مسرت اور دھمال ڈالتے اجسام سے بھر جاتا ہے ،بالکل ایسے ہی جیسے موسم بہار میں بارشوں کے بعد صحرا میں کھلے رنگ برنگے پھول دعوتِ نظارہ دیتے ہیں۔متعدد علماء کرام دھمال اور رقص کے حرام قرادیتے ہیں۔ لیکن ھمال نہ صرف عوامی اور ثقافتی تقریبات کا لازمی حصہ ہے بلکہ تعلیمی اداروں ، بزرگوں کے مزاروں اورآستانوں دھمال کا سلسلہ جاری ہے ۔
محترم ۔۔ نمی دانم کہ آخر دم دیدار می رقصم ۔۔ یہ غزل حضرت لعل شہباز قلندر رحمہ اللہ کی نہیں ہے۔ بلکہ یہ غزل حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمہ اللہ کی ہے
نمی دانم کہ آخر چوں دم دیدار می رقصم