دیوانہ
عفت بھٹی
دھونکنی کی طرح چلتی سانسیں بے قابو ہو رہی تھیں دل تھا کہ گویا پنکھے لگے ہوئے ہوں۔وہ ریتیلے ٹیلے پہ بھاگ رہا تھا میری زمین ۔یہ بھی لے لو یہ بھی ۔بس میری بچی لوٹا دو ۔میری جنت لوٹا دو۔وہ ریت مٹھیوں میں بھر کے اپنے سر پہ ڈال رہا تھا .میری معصوم بچی دھاڑیں مار کر روتے ہوئے وہ زمین پہ لوٹ رہا تھا۔
قادرے کیا جواب دیا بخشے نے۔؟ملک سلیم نے مونچھوں کو بل دیتے قادرے سے مخاطب ہوا جو ابھی ابھی حویلی میں داخل ہوا تھا۔ملک صاب ڈاڈھا اتھرا اے کہتا زمین ماں ہوتی اور ماں کا سودا بھلا کوئی کرتا ہے یہ پرکھوں سے ہمیں پالتی آرہی ہے اس کو بیچ کر ہم نےکہاں جانا ۔قادرے نے ملک کی ٹانگیں دباتے کہا۔ملک سلیم کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور غصے میں چلائی گئی ٹانگ لگنے سے قادرا دور جا گرا ہائے او ربا اس نے کراہتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی۔اب میں اس کا علاج آپ ای کروں گا۔ تن فن کرتا ملک باہر نکل گیا ۔قادرا مراثی اپنی کمر سہلا رہا تھا۔
ابا اور زور سے اور زور سے۔ قل قل کرکے ہنستی گل آم کے درخت سے بندھے جھولے کو اور اونچا دینے کے لیے چلا رہی تھی۔بس پتر میں تھک گیا علی بخش نے جھولا روک دیا چل جندڑی تیری ماں راہ تک رہی ہو گی۔منہ بسورتی گل کو کندھے پہ بٹھا کر علی بخش گھر روانہ ہوا۔
گل جنت کہاں ہو ۔او پتری علی بخش آنکھوں پہ پٹی باندھے ہاتھ پھیلائے ادھر ادھر ٹٹول رہا تھا۔ہی ہی ہی ڈھونڈ کے دکھاؤ ابا تب مانوں وہ ہنسی ۔پتری ترا بابا بوڑھا ہو گیا ہے اب۔ہاہاہا ابا کس نے کہا یہ آپ تو میرےجوانوں سے جوان بابا ہو وہ کندھے سے لٹک گئی پندرہ سالہ گل جنت کی ہنسی نے علی بخش کو سہما دیا ۔دور سے ملک کو آتا دیکھ کر اس نے گل کو گھر جانے کا اشارہ کیا۔ملک کی نظریں تو گل میں ترازو ہو گئیں۔ستائش ہوس۔جانے کیا کیا تھا ۔
ہاں بھئی بخشے کیسا ہے تو ۔۔؟ مانا تری زمین سونا اگلتی ہے برابر کی فصل ہوتی ہماری ۔اتنے سالوں سے تری منتیں کر رہے اب تو مان جا ۔ملک صاحب میری زمین لے کر کیا کرو گے میں نہ پہلے بیچنا چاہتا تھا نہ اب علی بخش نے دو ٹوک کہا۔ہمم ملک نے ہنکارہ بھرا ۔اب تو بیچنی پڑے گی وہ بڑ بڑایا۔اور آگے بڑھ گیا۔
سویرے سویرے کون آگیا زرینہ نے لسی کی مدھانی روکی اور بجتے دروازے کی۔طرف دیکھا گل پتر دیکھنا کون ہے باہر ۔اماں باہر دو بندے مٹھائی کے تھال لے کے کھڑے ہیں۔گل نے حیرانگی سے باہر جھانکا ۔آہمم ملک کی کھنکھار نے اسے متوجہ کیا ۔وہ گھبرا کر ایک طرف ہٹی۔ہائے مکھنی دا پیڑا۔۔۔اس نے آہ بھری۔علی بخش اور زرینہ کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔علی بخش میں مراد پتر کا رشتہ لایا ہوں گل کے لیے۔ملک نے خوان والوں کو اشارہ کیا کہ سب چارپائی پہ رکھ دیں۔ملک صاحب میری گل ابھی بہت چھوٹی ہے اور مراد تو پا۔۔گ۔۔ل۔۔علی بخش نے بات منھ میں دبا لی۔ملک کا رنگ اڑ گیا پے در پے شکست نے اس کے اندر کا حیوان جگا دیا۔بس اس نے ہاتھ اٹھا کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا ۔اب اور کچھ مت کہنا میں مالک ہوں اس گاؤں کا تو میری نرمی سے ناجائز فائدہ اٹھا رہا۔اب اور نہیں بہت ہو گیا اگلے مہینے کی پہلی تاریخ کو مراد کی بارات لے کر آرہا ہوں بس۔ایک ہفتے بعد ۔وارننگ کے بعد ملک اپنے حواریوں سمیت باہر نکل گیا۔
علی بخش نے سر ہاتھوں میں تھام لیا اور زرینہ تو گویا بت بن گئ تھی۔گل کے ابا اس کے منھ سے سرسراتی آواز نکلی ہم کہیں چلے جائیں ۔کوئی فئیدہ نئیں بھلی لوکے علی بخش نے آنسو ضبط کیے۔پر میری گل ۔ماں کا کلیجہ منھ کو آنے لگا ۔اس سوال کا جواب علی بخش کے پاس بھی نہ تھا۔رات گہری ہو گئی تھی ۔سارے دن کے تھکے ہارے دیہاتی سو رہے تھے۔ایسے میں علی بخش ایک نوجوان سے سرگوشیاں کر رہا تھا۔ارشد پتر تو بس گل کو لے جا آپا کو کہنا ہم آجائیں گے دو دن تک فکر نہ کرے۔ماما فکر نہ کریں ۔چل میری گڑیا۔ارشد گل کا پھپھی ذاد اور دودھ شریک بھائی تھا۔علی بخش کو بس یہی راہ نظر آئی کہ وہ گل کو یہاں سے بھیج دے۔ارشد اور گل تاریکی میں غائب ہو گئے۔
اوئے گڈی روک اے ہیر رانجھا کون نے۔ملک نے اندھیرے میں آنکھیں پھاڑتے ہوئے کہا ۔ہیڈ لائٹ کی روشنی پڑی تو گل ڈر کے ارشد کے بازو سے لپٹ گئی بھائیا۔۔اوہ تو یہ گل ہے ۔ملک نے بگڑے تیور سے دیکھا۔یار کے ساتھ بھاگ رہی تھی پکڑ لو ان کو ۔وہ چلایا۔اس نے پستول نکالی اور فائر کھول دیا ارشد شہتیر کی طرح گرا اور ساکت ہوگیا۔گل ملک کے شکنجے میں تڑپ رہی تھی ۔ملک نے فاتحانہ نظریں اس پہ ڈالیں اور جیپ میں ڈال لیا۔صبح سارا گاؤں گل اور ارشد کی لاش پہ تھو تھو کر رہا تھا زرینہ تو ایسی ساکت ہوئی کہ ہمیشہ کے لیے آنکھ موند گئی۔علی بخش پاگل ہو گیا اور آج بھی حویلی کے باہر بس یہی جملہ دہراتا ہے ساری زمین لے لو میری گل جنت لوٹا دو۔