عفت بھٹی
سارہ احمد ولد رحمن احمد حاضر ہو ۔اس پکار کے ساتھ سارہ رعونت سے چلتی ہوئی عدالت کے کٹہرے میں آ کھڑی ہوئی۔اس نے کمال اطمنانیت سے دوسری جانب کھڑے بلال کو دیکھا اور نظریں جج صاحب پہ جما دیں۔بلال نے بے چینی سے پہلو بدلا۔جج صاحب نے ناک کی پھنگ پہ رکھےچشمے کے اوپر سے سارہ کے مطمئن چہرے پہ نظر ڈالی ۔اور پھر سامنے رکھے کاغذ کو دیکھا جس پہ مقدمے کا فیصلہ درج تھا ۔ایک لمحے کو ان کا دل پسیجا وہ بے چینی محسوس کرنے لگے ۔اور پھر پراسیکیوٹر کو پاس آنے کا اشارہ کیا اس کے کان میں کھسر پھسر کی۔کھنکھار کر گلہ صاف کیا ۔تمام بیانات اور شواہد کی روشنی میں عدالت اس نتیجے پہ پہنچی ہے دونوں بچے ایمن اور عارب بلال خان کےحوالے کر دیے جائیں۔عدالت سارہ احمد کو وارننگ دیتی ہے کہ آئندہ بچوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش پہ اس کو کڑی سزا دی جائیگی۔عدالت برخاست کی جاتی ہے۔بلال خان کے چہرے پہ خوشی اور جیت کے رنگ بکھر گئے۔دونوں بچے باپ سے لپٹ گئے ۔اور عدالت سے باہر نکل گئے۔سارہ کا چہرہ فق ہو چکا وہ زمین پہ بیٹھتی چلی گئی ۔یہ کیا ہوا وہ عین وقت پہ جیت کے قریب پہنچ کے بازی ہار گئی۔ پاپا آپ نے اچھا نہیں کیا اس نے چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا اور سسک پڑی۔
جسٹس رحمن احمد تھکے قدموں سے اندر داخل ہوئے اب وہ ایک منصف نہیں ایک باپ تھے سارہ کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور سارہ کی پیٹھ تھپکی ۔چلو بیٹا گھر چلیں ۔پاپا کیوں کیا آپ نے ایسا ۔۔؟ آپ نے دیکھا بلال کو وہ کتنا خوش تھا مجھے ہرا کے ۔مگر نہیں ۔اس نے نہیں آپ نے ہرایا مجھے ۔چھوڑ دیں مجھے ۔اس نے ہذیانی انداز میں رحمن احمد کے ہاتھ جھٹکے ۔اور کھڑی ہو گئی ہاتھوں کی پشت سے آنسو صاف کیے اور تیزی سے چلتی ہوئی باہر نکل گئی۔رحمن احمد نے آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کیا اور ٹھنڈی آہ بھرتے اٹھے اور شکستہ قدموں سے باہر چل دیے۔
نہ ضد کے نہ وفا کے ہوتے ہیں
سارے جھگڑے انا کے ہوتے ہیں
سارہ احمد ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ۔جسٹس رحمن احمد کی اکلوتی اولاد ان کی آنکھ کا تارا ۔وہ دو برس کی تھی جب صفیہ کا انتقال ہوا ۔رحمن احمد نے اسے ماں اور باپ دونوں بن کر پالا اپنی مصروفیت کے باوجود وہ اسے وقت دیتے کہ اس میں کوئی احساس محرومی نہ رہے۔مگر تمام توجہ کے باوجود سارہ شروع سے ہی بہت جذباتی اور ضدی لڑکی ثابت ہوئی اپنے ہم منصبوں میں خوش رہنے والی اپنی منوانے والی جو کسی کو خاطر میں نہ لاتی اس پر قدرت نے حسن کے خزانے فیاضانہ کھول دیے تھے میدہ میں گھلی شہاب رنگت۔بڑی بڑی نیم وا آنکھیں چھوٹا سا دہانہ جس میں گلاب کی پنکھڑی سے لب ۔ان سب کے ساتھ اس کی بے نیازی جو غضب ڈھاتی تو کئی دل تھام کر رہ جاتے۔
اسی کیوپڈ کے تیر کا نشانہ بلال خان بھی بنا ۔مگر اپنی حیثیت سے آگاہ تھا اور اس حقیقت سے بھی کہ زمین آسمان کبھی ملا نہیں کرتے ۔اس نے اپنی توجہ پڑھائی پہ مرکوز کر دی نتیجہ یہ نکلا کہ جب رزلٹ اناؤنس ہوا تو ہمیشہ کی طرح سارہ احمد کا نام سننے والی سماعتوں نے بلال خان کا نام سنا اور سارہ نے حیرت و اچھنبے سے سٹیج پہ جاتے اس دراز قد نوجوان کو اسٹیج پہ جاتے دیکھا جو اسی سمسٹر میں مائگریٹ ہو کر آیا تھا اور اکثر و بیشتر کلاس اور لائبریری میں پایا جاتا تھا۔اس کی پوزیشن ہاتھ سے کیا گئی گھر میں ہنگامہ برپا ہو گیا ۔انا بی کی ہزار منتوں کے باوجود اس نے دو دن سے کچھ نہ کھایا تھا۔انا بی بھی روہانسی ہو رہی تھیں اور تنگ آکر رحمن احمد کو فون کیا جو ایک کانفرنس کے سلسلے میں اسلام آباد گئے ہوئے تھے۔ارے میاں ہم تھک گئے آ کر خود سنبھالو بٹیا کو وہ سب سنا کر فون رکھ کے پلٹیں تو کمر پہ ہاتھ رکھے کڑے تیوروں سے گھورتی سارہ کو کھڑے پایا۔ہو گئیں شکایتیں؟چلیں اب کھانا لگائیں مل کے کھائیں گے۔انا بی نے محبت سے اسے لپٹا لیا ۔اگلے دن بہت خوش گواری سے اس بلال کو پوزیشن لینے پہ مبارکباد دی اور دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔بلال نے حیرت سے اسے دیکھا اور قدرے جھجکتے ہوئے اس کا کبوتر سا نازک سفید ہاتھ تھام لیا۔
ان دو سالوں میں بلال اور سارہ کے علاوہ کچھ نہ تھا بات دوستی سے محبت تک آ پہنچی بلال کی تو گویا سانسیں سارہ احمد کے نام سے چلتیں تھیں ۔یہاں تک کے گاؤں سے ماں کی بیماری کا خط آیا تو اسے احساس ہوا کہ اسے ماں سے ملے لگ بھگ سال ہو گیا ہے۔وہ گاؤں جانے کو تیار ہو گیا سارہ کو بتایا تو وہ خاموش ہو گئی۔اور لاکھ بلانے پہ بھی روٹھی رہی ۔بلال نے ایک دن کے لیے اپنا جانا مؤخر کر دیا وہ سارہ کو خفا چھوڑ کر جانا نہیں چاہتا تھا اور اس دفعہ اس کا ارادہ تھا کہ ماں کو ساتھ لے آئے تاکہ وہ سارہ کے رشتے کی بات کر سکے۔مگر خدا کی کرنی سارہ تو مان گئی مگر اس کے گاؤں پہنچنے سے قبل ماں روٹھ گئی۔ایک ماہ بعد وہ واپس آیا تو بے حد شکستہ تھا سارہ نے ماں کی وفات کی خبر سن کر بھی اس سے رابطہ نہ کیا۔وہ ہاسٹل کے کمرے میں اوندھے منھ تکیے میں سر دیے پڑا تھا کہ سارہ اس کے روم میٹ جمیل کے ساتھ اندر آئی وہ گڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔رسمی تعزیت کے بعد اس نے جمیل کو جانے کا کہا اور بلال کو پاپا سے ملنے کا کہا۔اور چلی آئی۔آج ان کا یونیورسٹی میں آخری دن تھا وہ سب کنٹین میں بیٹھے تھے۔مستقبل کے سہانے خوابوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے بچھڑنے کا دکھ ۔عملی زندگی میں کچھ کر دکھانے کا عزم سو سب نے نمبروں کا تبادلہ کیا اور ایک دوسرے کو الوداع کہا۔بلال خاموش درخت سے ٹیک لگائے کھڑا تھا اس کا ذہن سوچ کی آماجگاہ بنا ہوا تھا کل ہی گاؤں سے اس کے ماموں آئے تھے اور اسے اس کی ماں کا وعدہ یاد کرایا اس کی منگنی بچپن سے اس کی ماموں زاد سے کر دی گئ تھی ۔اور اب وہ شادی کرنا چاہتے تھے۔یہاں اس کا انکار بے معانی رہا بات عزت اور انا کی تھی وہ صاف لفظوں میں کہہ گئے تھے یا شادی ہو گی یا وہ اپنے ہاتھ سے زرمینہ کا گلہ گھونٹ دیں گے انکار کے بعد اٹھنے والی انگلی برداشت نہیں کریں گے۔اب بلال خان کیسے یہ معصوم خون اپنے سر لیتا۔اس نے سارہ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا۔اب اس کے جواب کا منتظر تھا پھر اسے گاؤں جانا تھا۔پھر وہ آگئی سرمئی ٹراؤزر شرٹ میں وہ ہمیشہ کی طرح خوبصورت دکھائی دے رہی تھی۔۔سنو بلال تم زرمینہ کو بیاہ لاؤ مگر میں اپنا حق نہیں چھوڑوں گی تمھیں مجھ سے بھی نکاح کرنا ہوگا اور زرمینہ سےہونے والے بچے میرے نام لکھنے ہونگے ۔اس نے نہایت سکون سے ہمیشہ کی طرح اپنا فیصلہ سنایا۔بلال گویا جی اٹھا اس نے بے اختیار سارہ کے ہاتھ تھام لیے وہ سر تا پا اس کا ممنون تھا ۔سارہ نے رحمن احمد کو کس طرح منایا یہ ایک الگ داستان ہے ۔بحر طور تین منزلہ کوٹھی میں اوپری منزل پہ زرمینہ رہتی تھی اور نیچے سارہ احمد کی راجدھانی تھی۔زرمینہ بہت سادہ سی کمسن لڑکی تھی اور سب سے محبت کرنے والی وہ سارہ کو باجی کہتی اور سمجھتی تھی اب وہ امید سے تھی سارہ اس کا بہت خیال رکھتی اس کو خود دوا۔ کھانا سامنے بٹھا کےکھلاتی ۔بلال بہت خوش تھا اور سارہ کا ممنون بھی مگر ایک احساس جسے وہ زبان پہ نہیں لا سکا وہ یہ تھا کہ سارہ قربت کے لمحوں میں بھی اسے اجنبی لگتی جیسے بادل نخواستہ ساتھ دے رہی ہو ۔اس نے سارہ کی محبت کے حوالے سے جو خواب دیکھے تھے ان پہ برف جم گئی تھی۔اس نے اپنا بزنس شروع کیا تو مصروفیت بڑھ گئی۔زرمینہ نے دو جڑواں بچوں کو جنم دیا بہت پیارے گول مٹول بیٹا بیٹی بلال کی تو کائنات مکمل ہو گئی۔اسپتال سے واپس آکر سارہ نے اسٹامپ پیپر بلال کے سامنے رکھ کے اسے عہد یاد دلایا بلال نے ہنستے ہوئے اس پہ دستخط کر دیے اب سارہ نے نیا پینترہ بدلا اور بچوں کو لے کر اوپر شفٹ ہو گئی ۔زرمینہ کو اوپر آنے کی اجازت نہ تھی۔نہ ان پہ اس کا حق تھا۔وہ بلال سے اپنے بچوں کی طلبگار تھی ۔بلال نے سارہ سے بات کی تو سارہ نے صاف جواب دے دیا کہ میرے بچے ہیں تم نےخود مجھے دیاہے۔یہ صورتحال بلال کے لیے پریشان کن تھی سال بھر گذرا اور زرمینہ کا پاؤں پھر بھاری ہو گیا جب یہ خبر سارہ تک پہنچی وہ پھر سے زرمینہ کی خدمت کے لیے کوشاں ہو گئی زرمینہ کو اس کے بچے سال بعد دیکھنے کو ملے ۔انہی دنوں بلال کو بزنس میں گھاٹا ہوا وہ بہت پریشان تھا پھر ایک کمپنی سے اس کی ڈیل ہوئی مگر اس کے لیے اسے سال بھر باہر جانا تھا سارہ کے پہلے سے رویہ نے اسے مطمئن کر دیا وہ جاپان روانہ ہو گیا۔بلال کے جانے کے بعد سارہ نے بچوں پر سختی شروع کر دی بات بے بات پہ انہیں جھڑکتی ۔کھانے کی میز پہ بیٹھے عارب سے دودھ کا گلاس چھوٹ کر گیا سارہ نے طیش میں آکرعارب کو پیٹ ڈالا زرمینہ بچانے آئی تو سارہ کے دھکے سے گر گئی اس کی غیر حالت دیکھ کر سارہ گھبرا گئی اور ہاسپٹل لے گئی مگر اندرونی شدید چوٹ کی وجہ سے زرمینہ کا ابارشن ہو گیا اور وہ خود مرتے مرتے بچی۔مگر ہمیشہ کے لیے ماں بننے کی صلاحیت سے محروم ہو گئی ۔سارہ کا دل پھر بھی موم نہ ہوا وہ بچوں کو مارتی پیٹتی ننھے بچے سہمتے جا رہے تھے ماں کے پاس جانے کی ان کو اجازت نہ تھی زرمینہ کے والد اس سے ملنے آئے تو سارہ نے یہ کہہ کے ان کو واپس بھیج دیا کہ زرمینہ یہاں نہیں رہتی۔والد نے واپس جا کر بلال سے رابطہ کیا بلال گھبرا گیا اور سارہ کو کال کی مگر اس کا نمبر بند جارہا تھا آخر اس نےجسٹس رحمن احمد کو کال کی وہ اسلام آباد شفٹ ہو گئے تھے وہ رات کی فلائٹ سے کراچی آئے اور گھر پہنچے۔سارہ سے مل کر انہیں اندازہ ہوا کہ بات بہت بگڑ چکی ہے انہوں نے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی مگر بے سود۔سارہ کو زبردستی اپنے گھر لے آئے اور بلال کو آگاہ کیا بلال واپسی کی سیٹ کروا چکا تھا ۔سارہ کی سوئی اس بات پہ اڑی ہوئی تھی کہ بچے اس کے ہیں۔باالآخر بلال نے عدالت سے رجوع کیا اور جسٹس رحمن نے فیصلہ بلال کے حق میں دے دیا۔
رحمن احمد گھر میں داخل ہوئے سارہ نے توڑ پھوڑ مچائی ہوئی تھی انہوں نے اسے بانہوں میں لیا اور ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا ایک باپ سسک کر رو رہا تھا سارہ کو چپ لگ گئی ۔سارہ میری بچی کیوں کیا ایسا ۔؟وہ بھیگی آنکھوں سے سوال کر رہے تھے۔پا پا میں نے زندگی میں کبھی مات نہیں دیکھی پھر کیسے سہہ لیتی بلال کی پہلی جیت تب سے میرے دل میں اس کے لیے نفرت بھر گئی میں نے اس کو نیچا دکھانے کے لیے محبت کی ۔مگر مجھے اس سے نفرت ہے ۔سارہ تم نے بچوں سے انتقام لیا؟وہ حیرت ذدہ تھے۔ہاں بلال کے بچوں سے۔مگر پاپا میں نے غلط کیا میں اندھی ہو گئی تھی سارہ رو رہی تھی اعتراف نے انتقام کی آگ بجھا دی تھی ۔تم بلال سے معافی مانگ لو ۔رحمن احمد نے اس کے آنسو پونچھے۔وہ سر ہلا کر لٹی پٹی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
بلال خان سرخ چہرے کے ساتھ سارہ کا اعتراف سن رہا تھا غصہ بے یقینی محبت کا مان سب ختم ہو گیا۔سارہ کے خاموش ہونے پہ بلال اٹھ کھڑا ہوا ۔سارہ میں نے اپنے بچوں کے صدقے تمہیں معاف کیا مگر میری زندگی اب زرمینہ اور بچوں کے لیے ہے میں تمہیں آزاد کرتا ہوں۔یہ کہہ کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا چلا گیا۔سارہ نے سر جھکا لیا اسے اب خمیازہ بھگتنا تھا ۔سارے جھگڑے انا کے ہوتے ہیں