ارض وطن میں وسائل کی بہتات ہے، مگر پھر بھی اسے ان گنت مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے، اس کی اہم ترین وجوہات میں سے سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ بدترین بدعنوانی ہے۔ ملک کے شاید ہی کوئی ایسا ادارہ ہوگا جہاں ،کرپشن کا دیمک اس کی بنیادوں کو کھوکھلا نہ کر رہا ہو۔ اس ستم ظریفی یہ کہ، ایک موذی کینسر کی طرح بڑھتی ہوئی اس کرپشن کے سدباب کی کوئی صورت مستقبل قریب میں تو نظر ہی نہیں آ رہی۔دنیا کی آبادی بہت برق رفتاری سے بڑھ رہی ہے، ترقی یافتہ ممالک میں ،آبادی اور انسانی وسائل کو بروئے کار لا کر، صنعتی انقلاب اور معاشی ترقی کے بہترین عنصر کے طور استعمال کیا جاتا ہے ،جبکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بڑھتی آبادی بذات خود ایک گھمبیر مسئلہ ہے، ابادی کے لحاظ سے اس وقت پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، یہ بے ہنگم بڑھتی آبادی ڈھیروں مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ ہمارے ملک میں ترقی رفتا نہایت سست اور وسائل کا استعمال نہایت غیر مؤثر ہے،
آج بھی ملک کے اکثر علاقوں میں صحت و تعلیم کے بنیادی مسائل جوں کے توں ہیں، صرف تعلیم کا ہی جائزہ لے لیا جائے تو عالمی ادارے یونیسیف کے مطابق پاکستان میں اس وقت دو کروڑ کے لگ بھگ قابل داخلہ بچے سکولوں میں داخل ہونے کے بجائے گلیوں کی خاک چھان رہے ہیں اور یہ بچے نہایت غیر محفوظ اور معاشرے کے رحم و کرم پر ہیں، ایسے میں پائیدار ترقی کے عالمی اہداف کا حصول محض ایک خواب دکھائی دیتا ہے،
ملک کی اس قدر کثیر آبادی کی وجہ سے سڑکوں اور شاہراہوں پر، ٹریفک میں بے پناہ اضافے کے باعث بن رہی ہے، جس کی وجہ سے ٹریفک حادثات کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے،
ٹریفک حادثات کے حوالے سے مرتب عالمی فہرست میں پاکستان کا بدترین ممالک میں شمار کیا جا رہا ہے۔ یہاں ہر پانچ منٹ میں ایک شخص ٹریفک حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔ 2018ء میں عالمی طور پر حاثات کی شرح میں پاکستان کا نمبر 67 واں تھا اور جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 36 ہزار تک جا پہنچی تھی۔ 2019ءمیں عالمی ادارہ صحت نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق ٹریفک حادثات کے معاملے میں پاکستان دنیا میں 104 ویں نمبر پر تھا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ 2030ءتک ٹریفک حادثے جانی نقصان کی پانچویں بڑی وجہ ہونگے۔ 2023 ءمیں جو رپورٹیں سامنے آئی ہیں ان میں بھی پاکستان میں روڈ ایکسیڈنٹ کی شرح دیگر ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے جہاں ایک اندازے کے مطابق ہر سال چالیس ہزار سے زیادہ افراد ٹریفک حادثات میں لقمہ اجل، ہزاروں افراد شدید زخمی اور مستقل طور پر معذور ہو جاتے ہیں ۔ ٹریفک حادثات کے حوالے سے پنجاب پہلے، سندھ دوسرے، خیبر پختونخوا تیسرے، بلوچستان چوتھے اور اسلام آباد پانچویں نمبر پر ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والے ٹریفک حادثات پر نظر رکھنے والے عالمی ماہرین پاکستان میں لاپروائی ، غیر معیاری سڑکوں ، اوور لوڈنگ، ون وے کی خلاف ورزی، اوورٹیکنگ، اشارہ توڑنا، کم عمر اور ناتجربہ کار ٹریفک اصولوں سے ناواقف ڈرائیورز، دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال، بریک کا فیل ہو جانا، زائدالمیعاد ٹائروں کا استعمال، غیر معیاری اسپیڈ بریکرز، گاڑیوں کو بغیر مین ٹیننس اور فٹنس کے سڑکوں پر چلانے اور تیز رفتاری کو حادثات کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں، 65 فیصد سے زیادہ حادثات کا سبب ہیوی گاڑیاں ہیں اور سب سے زیادہ شکار موٹر سائیکل سوار ہوتے ہیں، پہاڑی علاقوں میں خطرناک موڑ کاٹتے ہوئے گاڑیوں کا کھائی میں گر جانا اور لینڈ سلائیڈنگ حادثات کا بڑا سبب ہیں، سردیوں کے موسم کے شروع ہوتے ہی پورے ملک میں شوگر ملز گنے کی کرشنگ کا آغاز کر دیتی ہیں، ایسے میں ملک کے طول و عرض میں گنے کی ترسیل کے لیے لوڈر ٹرک ،منی ٹرک ،لوڈر رکشے اور ٹریکٹر ٹرالیاں استعمال کی جاتی ہیں، ان تمام گاڑیوں پر خطرناک اوور لوڈنگ کی جاتی ہے، ان تمام گاڑیوں کی اکثریت ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب دکھائی دیتی ہے، ان کی لائیٹس بھی ناکافی ہوتی ہیں اور یہ چمک پٹی کا استعمال کرنے سے بھی گریزاں ہوتے ہیں، جب اتنی بھاری ٹرانسپورٹ شاہراہوں پر آتی ہے تو ایک طرف تو یہ قومی شاہراہوں کو زبردست نقصان پہنچاتی ہیں تو دوسری طرف ان کی وجہ سے حادثات کی شرح میں بھی بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے، حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ، ان کی اوور لوڈنگ پر کوئی خاطر خواہ قانونی کارروائیاں بھی عمل میں نہیں لائی جاتی ہیں، یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ ،ٹریفک کے مسائل کا حل کرنا محض ٹریفک پولیس کی ہی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اس میں عوامی شعور اجاگر کرنے کی بھی بہت ضروری ہے، تاکہ لوگ اپنی ذمہ داری بھی نبھائیں، گاڑیوں کی بروقت مرمت کروائیں، اپنی گاڑیوں پر لائٹس اور دور سے دکھائی دینے والے چمکنے والے اسٹیکرز لگائیں تاکہ ، اندھیرے کی صورت میں حادثے کا استعمال کم سے کم رہے، ٹریفک پولیس ڈیپارٹمنٹ کو چاہیے کہ وہ، پورے ملک میں ٹریفک کی آگاہی کے حوالے سے بھرپور مہم کا آغاز کرے ملک کے سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سے ٹریفک والنٹیئرز کو رجسڑ کر کے ان کی توانائیوں کو بروئے کار لایا جائے، ان کی حوصلہ کے لیے ان کو کاروائی کی بنیاد پر سراہنے کے لیے تعریفی اسناد اور ٹریفک ایمبیسیڈر کے خطاب سے نوازا جائے، تاکہ ان کو دیکھ کر دوسرے نوجوانوں میں بھی جزبہ خدمت آجاگر ہو، ملک میں حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح ہمارے ٹریفک کے نظام میں ابتری کا کھلا مظاہرہ ہے جس کے تدارک کیلئے تمام ضروری تدابیر کا اہتمام کرنا چاہئے۔