دنیا میں ہرشخص کسی نہ کسی شعبے سے منسک ہےجو اس کے روزگار کا ذریعہ بھی ہوتا ہے اور اس سے دنیا کو فائدہ بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ہر شعبہ اپنی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، ہر شعبے سے وابستہ افراد اس شعبے میں اپنی اپنی خدمات انجام دیتے ہیں لیکن کچھ شعبے ایسے بھی ہیں جو انسانیت کی خدمت کے حوالے سے بڑے معتبر سمجھے جاتے ہیں جن میں درس وتدریس اور شعبہ طب یعنی ڈاکٹری کا شعبہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ڈاکٹرجنھیں مسیحا بھی کہا جاتا ہے اور کسی بھی بیمار شخص کو تکلیف سے نجات دلانے اور زندگی بچانے میں ڈاکٹر اہم کردار ادا کرتا ہے۔مسیحائی کے بغیرانسانیت کا تصورممکن نہیں ہے۔ چھوٹی چھوٹی بیماریوں اورتکالیف میں سب سے پہلے ڈاکٹرز کی ضرورت پیش آتی ہے۔ہر بیمار شخص کا علاج اور اس کی جان بچانا ڈاکٹرز کا فرض ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی رنگ، ذات ، مذہب یا نسل سے کیوں نہ ہو اس کا مقصد انسان کی جان بچانا ہے اور دنیا بھر کے ڈاکٹرز اس سوچ کے ساتھ اپنے شعبوں میں بے مثال خدمات انجام دے رہے ہیں ۔جو انسانیت سے محبت اور دوستی کا بہترین ثبوت ہے۔
ڈاکٹراگر مریض کی جانب توجہ کرنے سے پہلے اس کو مسکرا کر دیکھ لے تو بیماری میں کافی حد تک کمی آجاتی ہے، انسان چھوٹی چھوٹی مسکراہٹوں کا طالب ہوتا ہے اور انسان جب کسی تکلیف یا بیماری سے لڑ رہا ہو تو ایسے میں کسی ڈاکٹرز کی مسکراہٹ اور نرم رویہ اس کے لئے انتہائی آرام دہ اور مسحور کن ثابت ہوتا ہے –
خاکسار کی راۓ میں جیسے پرہیز علاج سے بہتر ہوتا ہے اسی طرح ڈاکٹر وں کی جانب سے مریض کو علاج کیلئے دی جانے والی دوائی سے زیادہ اہم اور مفید ڈاکٹروں کا مریضوں کے ساتھ ہمدردانہ رویہ ہوتا ہے جو دوائی سے زیادہ اثر چھوڑتا ہے۔جب بھی کوئی ڈاکٹر کسی مریض سے خوش اخلاقی اور خوش گفتاری کے ساتھ پیش آتا ہے تو واقعتاً مریض کی آدھی بیماری کیلئے دوا کا کام ہوجاتا ہے اور مریض کی آدھی تکلیف دورہوجاتی ہے۔
مریض کا استقبال مسکراتے ہوئے کرنا ،مریض کی بیماری کو اچھی طرح اس سے سننا اور اس سے متعلق سوالات کرنا،مریض کو اس کے مرض کے بارے میں بغیر کسی تکلف کے آگاہ کرنا،مریض کی ذہنی سطح تک پہنچنا اور اس کے مزاج کو دیکھتے ہوئے اس کے ساتھ برتاؤ کرنا،بیماری اگر بہت زیادہ خطرناک ہوتو مریض کو بھرپور تسلی دینا،اس کو بیماری میں علاج کی اہمیت سے آگاہ کرنا،مریض کی نفسیات سے واقف ہونا اور اس کو اچھے الفاظ میں علاج کی ترغیب دینا،مریض کے لواحقین سے اچھے اخلاق اور شفقت کا مظاہرہ کرنا ،اِس طرح کی عظیم خوبیاں جن طبیب حضرات میں ہوا کرتی ہیں وہ واقعی مریضوں کیلئے کسی مسیحا سے کم نہیں ہوتے ہیں۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ شعبہ طب سے منسک جس خوش طبع شخصیت نے مجھے ڈاکٹرز کو مسیحا کہنے اور لکھنے پر مجبور کر دیا ہے اس کا نام ڈاکٹر محبوب ریاض بھٹی ہے جس کا تعلق پنجاب کے پسماندہ ترین ضلع لیہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں بھٹی نگر سے ہے جو دبئی کے نامی گرامی ہسپتال “ پرائم ہسپٹال دبئی “ شعبہ پیڈز میں اپنے فرائض منصبی نبھا رہے ہیں اور اپنی فیملی اور ملک کے زرمبادلہ میں اپنا حقیر سا حصہ ڈال رہے ہیں
ڈاکٹر محبوب ریاض اپنے شعبے میں انتہائی قابل ، سمجھدار اور پروفیشنل ہیں ان پر میرا لکھنے کا مقصد حال ہی میں رائل کالج لندن سے سپیشلائزیشن کی ڈگری حاصل کرنا ہے جو کہ ایک بڑی ایچیومنٹ ہے
یہ میڈیکل میں سپیشلائزیشن کیلۓ مشکل ترین امتحان ہے ۔کنسلٹنٹ سپیشلسٹ بننے کیلئے۔پاکستان میں چند گنے چنے ڈاکٹرز ہی اس میں کا میابی حاصل کر پاتے ہیں ۔ یہ ڈگری بالخصوص ھمارے ضلع میں بمشکل چند ڈاکٹرز کے پاس ہوگی
یہ امتحان under authority of His Royal Majesty &His Privacy Councilبرطانیہ عظمی (انگلینڈ) خود منیج کرتی ہے اس کے مختلف مراحل ہوتے ہیں ۔تین مراحل written کے اور چوتھا مر حلہ clinical ہوتا ہے ۔چند ذہین ڈاکٹر ز ہی اسے عرصہ دو سے تین سال کے دوران پاس کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں اس کالج کے مختلف ممالک میں امتحان کیلئے سنٹرز ہیں ۔جن کا معیار اور examiner رائل کالج لندن خود طے کرتا ہے۔
ڈاکٹر محبوب ریاض کو بھی یہ مراحل طے کرنے کیلۓ مختلف ممالک کے سفر اور سعوبتیں برداشت کرنی پڑیں
جن میں رائل کالج ملیشیا سنٹر
رائل کالج عمان سنٹر
رائل کالج سنگاپور سنٹر
رائل کالج ابو ظہبی اور رائل کالج ( القاسمی ) چلڈرن ہسپتال شارجہ نمایاں ہیں یہ ڈگری ورلڈ وائز recognised ہے۔اسکی بنیاد پر جی ایم سی (general medical council )کی رجسٹریشن کے ساتھ ساتھ آپ کیلئے پوری دنیا میں میڈیکل فیلڈ کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔
اور ڈاکٹر محبوب ریاض کی ARAB BOARD کی پوسٹ گریجویشن بھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے ۔جوکہ گلف میں میڈیکل کنسلٹنٹ کا سپریم exam ہے۔
اسکے ساتھ EMARATI MEDICAL BOARD بھی انہی مراحل کیساتھ تکمیل کے پراسس میں ہے اور اس بنا پر EMIRATI BOARD IS ACCREDATED WITH UNITED STATES OF AMERICA MEDICAL RESIDENCY کے امٹحان سے ڈاکٹر صاحب کو exemption حاصل ہوگی
میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر محبوب ریاض بھٹی ہمہ اقسام کی خوبیوں کے حامل ہیں اپنے میڈیکل کے شعبے میں تو وہ کمپیٹنٹ ہیں ہی اس کے ساتھ ساتھ لٹریری بھی ہیں
انہیں انگلش لٹریچر، اردو ادب ، تاریخ ، فلسفہ ، سیاسیات ، معاشیات ، شاعری ، فن لطیفہ فن حطابت اور ان سے وابسطہ دیگر چیزوں میں انتہائی شغف ہے – اور ان چیزوں کے شغف بڑھانے میں کہیں نا کہیں بندہ ناچیز بھی گنہگار ٹھہرتا ہے جس کا اعترف ڈاکٹر صاحب کبھی کبھار کھلے دل سے کرتے رہتے ہیں – ڈاکٹر صاحب خاص طور پر ملکی سیاست اور عوام کے ناگفتہ حالات کو ژرف نگہی سے دیکھتے ہیں
اور سیاستدانوں ، اداروں اور اشرافیہ کے عوام کے ساتھ نامناسب ناہموار رویوں کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں
آخر میں کالم کی طوالت کو مد نظر رکھتے ہوۓ اپنا موضوع بحث
اس دعا کے ساتھ سمیٹنا چاہتا ہوں کہ لم یزل ڈاکٹر محبوب ریاض کو مزید کامیابیاں عطا فرماۓ اور بھرپور زندگی جینے کیلۓ طول عمر عطا فرماۓ -آمین