کوکلا چھپاکی اور اساتذہ کی شامت
تحریر ۔ ملک ابوذر منجوٹھہ
بچپن کا ایک کھیل کوکلا چھپاکی جس میں دوپٹہ کو بل دے کر کوکلا بنایا جاتا اور سارے بچے ایک گول دائرے میں بیٹھے ہوتے جس بچے کی باری ہو تی وہ زور زور سے کہ رہا ہوتا ( کوکلا چھپاکی جمعرات آئی ہے کہ ناں جیڑھا اگے پچھے ڈیکھے اوندی شامت آئی ہے کہ ناں )
کوکلا چپھاکی آج جمعرات ہے اور جو آگے پیچھے دیکھے اُس کی شامت آئی ہے
وہ کوکلا دیکھنے کے لیے کوئی اپنی آنکھیں کھول کر آگے پیچھے دیکھتا تو سچ میں اس کی شامت آ جاتی ، جس کے ہاتھ میں کوکلا ہوتا وہ اس بچے کی کمر میں رسید ہو جاتا۔خیر یہ تو بچپن کا ایک کھیل تھا جس میں اُس گول دائرے میں بیٹھے بچوں کی شامت آئی ہوتی ۔آج کے اس گول دائرے میں پنجاب کے اساتذہ بیٹھے ہوئے ہیں اس کے سر پر کوکلا لیے حکومت پنجاب کھڑی ہے ۔پچھلے دنوں ایک خبر دیکھ رہا تھا کہ تونسہ شریف میں PHDٹیچر رمضان بازار کے سٹال پر چینی بیچ رہا تھا ۔یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے پنجاب میں آپ رمضان بازار میں جاؤ آپ کو کوئی مرغیاں بیچتے ، کھل ونڈا بیچتے نظر آئے تو آپ اس کو ہر دفعہ دوکاندار نہ سمجھ لیجیے گا ہو سکتا ہے وہ کسی سکول میں بھرتی ٹیچر ہوا ہووہ بعد کی بات ہے کہ وہ کام کچھ اور کر رہا ہو۔کیا ایسی قوم ترقی کر سکتی ہے جہاں اساتذہ کو ایسی عزت دی جارہی ہو۔پنجاب کی حد تک اگر دیکھا جائے تو میں نے دیکھا ہے کہ اساتذہ کو سوا پڑھانے کے باقی سارے کام کروائے جاتے ہیں ۔
باردانہ کی تقسیم سے یاد آیا ضلع لیہ میں ایک اعلی ٰ حکومتی افسر نے باردانہ کی تقسیم کے دوران بے عزت کیا کیوں نا کرتا جو معاشرے تباہی کی طرف جاتے ہیں وہ اپنے اساتذہ کو ایسے ہی تو ذلیل کرتے ہیں
1500سے0 200 قبلِ مسیح کے دوران، یعنی برصغیر میں اسلام کی آمد سے تقریباً 900 سال قبل ہندو دھرم میں سماجی رویوں کے قوانین پر مبنی کتاب "منوسمریتی” لکھی گئی تھی۔اس میں پڑھنے والوں کو اس بات کا درس دیا گیا ہے، کہ سبق شروع ہونے سے پہلے اپنے اساتذہ کے پیر چھوئیں، اساتذہ کی کرسی پر بیٹھنے سے پرہیز کریں، اور جب جب وہ کمرے میں داخل ہوں، تو کھڑے ہو کر آداب بجا لائیں۔
مردم شماری ہو جہاں یہی اساتذہ گھر گھر جا کر ڈیٹا اکھٹا کر رہے ہوتے ہیں ۔ یو پی کا سروے ہو ،رمضان بازار ہو ، کلاسز میں بچوں کو لانا ہو یا کسی سیاسی کا جلسہ ہو اساتذہ کو وہاں تعینات کیا جاتا ہے ۔ سکول میں بچوں کی تعداد کم ہو تو ذلیل اساتذہ کو کیا جار ہا ہے کہ آپ جائیں اور بچوں کو گھروں سے لے آئیں ۔گورنمنٹ کو اتنا ضروری لگتا ہے یہ کام تو سوشل موبلائزر رکھ لیں ۔لیکن بچے کہاں سے آئیں گے ؟ اداروں کو پی ای ایف کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ وہاں ایک ایف اے پاس ، بی اے پاس کیسے بہتر رزلٹ دے لیتا ہے ۔فالٹ تو آپ کے سسٹم میں ہے ۔
کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک بادشاہ تھاجو اپنے استاد کے ساتھ سفر کرنے کے لیے نکلا، راستے میں ایک ندی آگئی استاد نے آگے بڑھ کر ندی کو پار کرنا چاہا لیکن بادشاہ نے استاد محترم سے کہا کہ استاد محترم اس ندی کو پہلے میں پار کروں گا۔ استاد کو بہت برا محسوس ہوا کہ شاگرد اگر بادشاہ ہے توکیا ہوا میں ان کا استاد ہوں۔ تکریم اور فضیلت میں مجھے مرتبہ حاصل ہے۔ اس لیے ندی کو پہلے پارکرنا میرا حق ہے۔
بادشاہ نے ان کی بات سنی اورکہا۔ استاد محترم! آپ کی بات سر آنکھوں پر بے شک آپ کا مرتبہ اور عزت مجھ سے زیادہ ہے کیونکہ آپ ہی میرے استاد ہیں اور پہلے ندی پار کرنے میں میرا مقصد صرف یہ تھا کہ اگر آپ نے ندی پہلے پار کی اور اس کے نتیجے میں آپ کی جان چلی گئی تو پورے عالم کا نقصان ہوگا اس لیے میں نے سوچا کہ پہلے ندی میں پارکروں تاکہ پانی کی تندی کا اندازہ ہوسکے کیونکہ میرے ندی عبور کرنے کے نتیجے میں اگر میری جان چلی گئی تو صرف ایک شہنشاہ کی جان جائے گی آپ زندہ رہے تو مجھ جیسے کتنے بادشاہ بنا سکتے ہیں۔ یہ بادشاہ سکندر اور استاد ارسطو تھے۔
اٹلی اٹلی کیسے بنا ۔اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ اٹلی میں مجھے ٹریفک چالان ہوا‘ مصروفیات کی وجہ سے چالان ادا نہ کرپایا۔ ایک ہفتہ بعد مجھے کورٹ بلایا گیا اور مجھ سے سوال کیا کہ تم نے ایک ہفتے کے اندر چالان ادا کیوں نہ کیا تو میں نے جواب دیا کہ صاحب استاد ہوں‘ آج کل اسکول میں پرچے ہورہے ہیں‘ ابھی میں آگے بول ہی رہا تھا کہ جج صاحب اٹھ کر بولے (Teacher in Court) یہ کہنا تھا کہ کورٹ میں موجود تمام افراد نے کھڑے ہوکر مجھ سے معافی مانگی‘ سمیت جج صاحب کے اور پولیس افسر جس نے چالان کا ٹکٹ دیا تھا۔ جج صاحب نے حکم دیا کہ اگر آئندہ کوئی استاد کورٹ میں نظر آیا تو پولیس والوں پر باقاعدہ کیس چلایا جائے گا اور جج صاحب مجھے میری گاڑی تک چھوڑنے آئے اور بہت معافی مانگی بس پھر میں سمجھ گیا کہ یہ لوگ ہم سے کیوں اتنا آگے نکل چکے ہیں۔
اسلام ہمیں اُساتذہ کی عزت کے بارے میں کیا سکھاتا ہے حضرت علی کرم اللہ وجہ کا فرمان ہے کہ .جس نے مجھے ایک لفظ پڑھایا وہ میرا اُستاد ہے ۔خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے اپنے اُستا دکے جوتے سیدھے کرنے کے لیے لڑ پڑتے تھے ۔اُستاد جس کی ماضی میں بڑی عزت تھی بہت سے لوگوں کو یاد ہو گا کہ ہم اساتذہ کو دیکھ کر کیسے چھپے ہوتے کہ اُستاد صاحب دیکھ نہ لیں کہ ہم بازار میں پھر رہے تھے۔گورنمنٹ پنجاب اساتذہ کو دوسرے کاموں میں لگا کر ایجوکیشن کو پرائیویٹ کر رہی ہے ۔بیشتر ادارے PEF کو دیے جا چکے ہیں پھر پتہ نہیں کہ 66ہزار نئی بھرتیاں کیوں کی جارہے ہیں اس بارے میں ایک اُستاد نے کہا کہ اساتذہ کو اب کمی کمین سمجھا جا رہا ہے اور شاید نئے آنے والوں کو یہ بھی کہا جائے کہ آپ آتے ہوئے ایک ایک جھاڑو بھی ساتھ لے کر آئیں ۔آج قوم کو جاگنا ہو گا اپنے لیے اپنے بہتر مستقبل کے لیے اپنے اساتذہ کی عزت کے لیے اور اساتذہ کرام سے معذرت کے ساتھ کہ آپ کو پڑھانا ہو گا محنت کر کے اپنا وقار بحال کروانا ہوگا ورنہ پھر اس قوم کا مقدر یہ ہی ہو گاکہ استاد کی رمضان بازار پر آپ کو کچھ فروخت کرتے ہیں نظر آئیں گے۔
نوٹ(اگر یہ تحریر آپ کو پسند آئے تو مہربانی فرما کر شیئر کریں تاکہ اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھے لوگوں تک یہ پہچے اور شاید کچھ شرم ان کو بھی آئے )
03027841579 ابوذر منجوٹھہ اپنی رائے ضرور دیجیے گا۔