چوک اعظم( صبح پا کستان) غیر متوازن وفاق ملک کے مسائل کاسبب ہے ،پانامہ کا فیصلہ جو بھی آئے اس کیس نے ’’شریفوں ‘‘کی ’’اصلیت ‘‘ظاہر کردی ہے ۔جلسہ کی اجازت نہ دینا ہمارے جمہوری حق پر ڈاکہ ڈالنا ہے ۔حکمرانوں کے خلاف اب گلی گلی شہر شہر جلسے کروں گا ۔سانحی سرگودھا پر صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو استعفیٰ دے دینا چاہیے ۔کیسے حکمران ہیں جن کی فیکٹریاں منافع میں جبکہ ان کی قیادت میں ملک خسارے میں چل رہا ہے ۔ان خیالات کا اظہار پاکستان عوامی راج پارٹی کے سربراہ و رکن قومی اسمبلی جمشید احمد خان دستی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔
انہوں نے کہا کہ جس ملک ے چوکیدار ہی اسے لُوٹنے لگ جائیں اس کا بیڑہ غرق کیوں نہ ہو ،عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے حکمران ذاتی اور بیرونی مفادات کا تحفظ کرنے میں مصروف ہیں ،میاں نواز شریف اور شہباز شریف دونوں کی کابینہ میں ایک ’’ٹَکے ‘‘کی بھی قابلیت اور صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ملک اور قوم کو بہتری کی طرف لے جا سکیں ۔انہوں نے کہا کہ میاں برادران کے ’’طبلچی‘‘ابھی انہیں رام کیے ہوئے ہیں اور جب وقت آئے گا تو پتہ چلے گا کہ انہی طبلچیوں نے نہ صرف میا ں برادران کا بیڑہ غرق کیاہے بلکہ ملک اور قوم کا بھی ستیاناس کر دیا ہے ۔انہوں نے کہاکہ ایک بار پھر خسارے کا بجٹ تیار کیا جا ئے گا۔لیکن ان کی انڈسٹریوں کا بجٹ منافع میں ہو گا ۔ان کا کہنا تھا کیسے حکمران ہیں جن کی فیکٹریاں منافع میں جبکہ ان کی قیادت میں ملک خسارے میں چل رہا ہے ۔انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکمران اس کوش فہمی میں نہ رہیں کہ آئندہ الیکشن وہ اپنی کاردگی پہ جیتیں گے ۔عوام اِن کی کارکردگی جان چکے ہیں اور آئیندہ الیکشن میں انہیں مسترد کریں گے ۔انہوں نے سانحہ سرگودھا کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے دربار جہاں پر اسلامی شعائر کا مزاق اڑایا جاتا ہو اور شریعت کی خلاف ورزی کی جاتی ہو ان کے متولیوں کو عبرت ناک سزائیں ملنی چاہیں ،انہوں نے کہا کہ کئی سالوں سے اس دربار پر نشہ آور مشروب پی کر برہنہ کر کے دھمال کے نام پر ڈانس کیا جاتا رہا ہے ۔یہ حکومتی اداروں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ انٹیلی جنس ادارے اور خفیہ ادارے کیا کرتے رہے ہیں ۔انہوں نے اس کے سدباب کی ررپورٹ کیوں نہیں دی اگر دی ہے تو اس پر انتظامیہ نے کیوں حرکت نہیں کی ؟اتنے بڑے سانحے پر صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو استعفیٰ دے دینا چاہیے ۔اس موقع پر رفیق ملانہ ،ملک عرفان اعوان ،محمد صابر عطاء تھہیم ،ملک نعیم تھہیم بھی موجود تھے ۔