تحریر:عبدالرحمن فریدی
آج سنجیدگی اعتدال،توازن،صداقت،مقصدیت اور قومی فلاح و بہبود کا احساس ناپید ہو چکا ہے۔ ہم بے حسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔لاچاری ہمارا مقدر بنا دیا گیا ہے۔ہم زندہ تو ہیں لیکن گلے سڑے مردے سے بھی بدتر۔مجھے اس کا احساس اس وقت ہوا جب میں لیہ کے نواحی علاقہ چکنمبر 105کے ایک گھر میں بچے کی پیدائش کی خوشی میں مٹھائی کھانے کے بعد یکے بعد دیگرے مرد وزن،بچوں بوڑھوں کو موت کی وادی میں جاتے ہوئے دیکھ رہاتھا،چکنمبر 105اور ارگرد کے دیگر چکوک سے اب تک 30لاشوں کو کندھے مل چکے ہیں جبکہ
باقی متاثرین جناح ہسپتال لاہور میں موجود ہیں مٹھائی کی دکان کے مالک اور نوکر کو پویس نے حراست میں لیکر تفتیش کا آغاز کیاتو پولیس ،ضلع انتظامیہ اور محکمہ صحت ضلع لیہ نے ابتدائی رپورٹ میں چائنہ پڑی ڈرون کے ڈاے جانے کی وجہ سے بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں پر متفق ہو گئے ،مٹھائی ،متاثر مریضوں ولاشوں سے لئے گئے سیمپل کو تجزیہ کیلئے فرانزک لیب بھجوایا گیا کہ رپورٹ آجانے کے بعد جہاں دیگر متاثرین کے علاج معالجہ میں آسانی پیدا ہوگی وہیں پولیس کی تحقیق و تفتیش میں بھی تیزی آکر کسی نتیجہ پر پہنچ جائے گی،10روز بعد جب 30معصوم شہری قبروں میں اتر چکے فرانزک لیبارٹری کی رپورٹ بھی آگئی جس نے پولیس ،ضلع انتظامیہ اور ڈاکٹرز کی رائے اور تفتیش کا رخ ہی موڑ دیا کہ جس چائنہ پڑی کے زہر پر انحصار کرکے تفتیش و علاج معالجہ کیا جا رہا تھا وہ زہر تو مٹھائی میں موجود ہی نہیں مورخہ 19اپریل کوزہریلی مٹھائی کھانے سے متاثر ہونے والے بے گناہ شہریوں کے علاج معالجہ میں تحصیل
ہیڈکوارٹر ہسپتال فتح پور و کروڑ،ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لیہ اور جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا اور 6کروڑ کی آبادی کیلئے مسیحائی کا درجہ رکھنے والے نشتر ہسپتال ملتان میں کیا سلوک ہوا یہ ایک بہت ہی درناک اور دل کو دھیلا دینے والی کہانی نہیں بلکہ جنوبی پنجاب کے ساتھ حکمرانوں کا روا رکھاجانے والا سلوک پر پسماندہ ترین ضلع لیہ کی عوام کے خون کے آنسو ہیں زہریلی مٹھائی کھانے سے ہونے والے متاثرین جیسے ہی ضلع لیہ کے تحصیل لیول اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں پہنچے تو وہاں پر موجود ڈاکٹر ز نے مریضوں کی ہسٹری سننے کے بعد بھی کسی بھی متاثرہ مریض کا معدہ واش نہ کیا 24گھنٹے گذر جانے پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لیہ میں جب ایک جیسے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ڈاکٹرز میں بے چینی پیدا ہوئی اور مریضوں پر خصوصی توجہ دینا شروع کیا اس وقت تک 4مریضوں کو ریفر کرکے نشتر ہسپتال ملتان کی طرف روانہ کردیا،زہریلی مٹھائی کے مریضوں کے اضافہ پر ینگ ڈاکٹر کے ہڑتال و ریلی کے دن ڈسٹرکٹ فزیشن ،ایم ایس ڈی ایچ کیو اور ای ڈی او صحت لیہ و دیگر سینئر ڈاکٹرز نے ایمرجنسی وارڈ میں مریضوں کا علاج معالجہ شروع کیا اور اس دوران سیریس ہونے والے مریضوں کو نشتر ہسپتال کی طرف روانہ کیا جاتا رہا،ضلعی ہسپتال اور نشتر ہسپتال سے زندہ بھیجے جانے والے معصوم شہریوں کی لاشیں واپس آنے کا سلسلہ شروع ہوا تو ضلع بھر میں خوف ہراس اور سوگواری کی کیفیت طاری ہوگئی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں زہریلی مٹھائی کھانے سے مرنے والوں کی تعداد کے ساتھ خبروں کی اشاعت پر صوبائی و ضلعی انتظامیہ کی بھی آنکھ کھل گئی اور ڈی سی او لیہ نے بھی ہسپتال کا رخ کیا،26اموات
ہونے کے بعد صوبائی حکومت نے صوبائی وزیر خوارک بلال یٰسین کو ضلع لیہ میں سوگوار خاندان کے ساتھ تعزیت و پرسہ دینے کیلئے بھیجا اور ڈائریکٹر پنجاب فوڈ اتھارٹی عائشہ ممتاز اور اس کی ٹیم کو سارے واقعہ کی جانچ پڑتال کیلئے بھیجا گیا،صوبائی وزیر نے سوگوار خاندان کے گھر میں کھلی کچہری لگائی جس میں ضلع پولیس،ضلعی انتظامیہ،محکمہ صحت ضلع لیہ،ایم ایس و دیگر عملہ نشتر ہسپتال ملتان کو بیٹھایا گیا کھلی کچہری میں سوگوار خاندانوں کے لواحقین نے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لیہ سے لیکر نشتر ہسپتال ملتان تک کے ڈاکٹر زو ہسپتال انتظامیہ کے حسن سلوک بارے جس کا طرح کا اظہار کیا اس پر ارباب اختیار کے لئے سوچنا کا مقام ہے 8جوان بیٹوں اور 5دیگر لوگوں کی لاشوں پر ماتم کرنے والا معذور شخص عمر حیات نے جب یہ کہا کہ میرے بچے زہریلی مٹھائی کی وجہ سے نہیں بلکہ ڈاکٹروں کی غفلت اور لاپرواہی ،عدم دلچسپی کی وجہ سے مرے ہیں اس بات نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی گڈ گورنس کا بھانڈا پھوڑ کر رکھ دیا ہے ،ضلع لیہ کی عوام وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے پوچھنا چاہتی ہے کہ ہماری تیس اموات ہونے لواحقین کی دل جوئی کیلئے امدادی رقوم کے چیک دیئے اور مختلف انکوائری کمیٹیوں کو تشکیل بھی دیا جنہوں نے اپنا کام شروع کر دیا ہے یہ رپورٹس بھی آپ تک پہنچ جائیں گی اس پر آپ کی طرف سے وقتی طور پر کاروائیاں بھی ہونگی لوگوں کو مطمئن کرنے کیلئے کچھ افسران کو او ایس ڈی بنایا جائے گا اور کچھ کو معطل کیا جائے گااس سارے عمل کے دوران وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف صاحب سے ضلع لیہ کی عوام یہ بھی پوچھنا چاہتی ہے کہ ضلع لیہ کے محکمہ صحت پر ہمارے ٹیکسوں سے لیا جانے والا ڈیرھ ارب سے زائد سالانہ اخرجات کئے جاتے ہیں کیا محکمہ صحت اور ضلعی انتظامیہ ضلع لیہ کے غریب لوگوں کو صحت کی سہولیات دینے کی بجائے صرف موت بانٹے کا پروانہ دے دیا گیا ہے یہاں لیہ کے شہری مسلم لیگ ن کے ضلع صدر و سابق صوبائی وزیر ملک احمد علی اولکھ سے بھی یہ بات پوچھنا چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ ق کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہی کی طرف سے اس وقت کے ایم پی اے چوہدری الطاف حسین کی توسط سے ٹراما سنٹر فتح پور کا منصوبہ دیا گیا تھا آپ کے اقتدار میں آنے مسلم لیگ ن کی حکومت بننے کے بعد وہ منصوبہ پروان نہ چڑھ سکا اس کا جواب آپ اس دنیا میں بھی اور اگلی دنیا میں بھی ضلع لیہ کی عوام کو دینے کے پابند رہیں گے اگر ٹراما سنٹر فتح پور اپنی اصل پوزیشن کے ساتھ چل رہا ہوتا تو شائد ہونے والی ہلاکتوں میں کمی آ جاتی،جناب وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف صاحب ضلع لیہ کی عوام جہاں ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت ضلع لیہ کی کارکردگی بارے پوچھنا چاہتی ہے وہاں جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے ہسپتال نشتر ہسپتال جو کہ ٹیچنگ ہسپتال کے بارے بھی چند سوالات کرنا چاہتی ہے ایم ایس نشتر ہسپتال سے جواب طلبی اپنی جگہ نشتر میڈیکل کالج کا سربراہ سے بھی کوئی جواب طلبی کرے گا کہ نشتر میڈیکل کالج کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے متاثرین کے علاج معالجہ کیلئے کیا کوئی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا یا کوئی کردار اداد کیا اگر نہیں کیا تو ایسی کون سی وجوہات ہیں کہ پسماندہ ترین ضلع کے غریب معصوم زہریلی مٹھائی کھانے والے مریضوں کی تحقیق و علاج معالجہ میں اپنا کردار ادا نہیں کیا گیا محترم وزیر اعلیٰ صاحب ہسپتالوں میں سرکاری خزانے سے علاج ہو سکتا ہے یہ سن کر ہم بدقسمت لوگوں کا ذہنی توازن خراب ہونے لگتا ہے۔ ہم غریب لوگوں کے لئے کوئی حکمران نہیں کوئی سہولت نہیں۔اگر ہمارے سیاستدانوں کو ملک پر حکومت کرنے کا اتنا ہی شوق ہے ،تو ان لوگوں کی آہوں اورسسکیوں کو بھی سننا چاہئے۔صرف اپنے ذاتی مفادات اور اپنی تجوریوں کو بھرنے کے علاوہ بھی سوچنا چاہئے۔اپنی ذاتی سوچ سے باہر نکلیں،اپنے عوامی خدمت کو صرف نمائش کے طور پر نہیں بلکہ حقیقی طرز حکومت کرنا سیکھنا ہو گااگر ان سے یہ سوال کیا جائے کہ آپ عوام کی صحت،تعلیم کے بارے میں کیا اقدامات کر رہے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ خزانہ خالی ہے۔ہم بجلی کی لوڈشیڈنگ ،گیس بحران، دہشتگردی،مہنگائی جیسے بڑے مسائل کی طرف متوجہ ہیں۔یہ درست ہے کہ ہمارا ملک بے شمار مسائل میں گھرا ہے لیکن کیا یہ نئی بات ہے؟کئی ممالک اس سے بھی بدتر حالات سے گزر رہے ہیں۔انہوں نے اپنی دانشمندی سے ایسے حالات کا مقابلہ کیا ہے۔آپ سری لنکا کی مثال لے لیں کیا وہاں دہشتگردی نہیں تھی۔ وہاں پبلک ٹراسپورٹ میں بم بلاسٹ ہوتے تھے۔ کوئی شخص یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ آج گھر واپس آؤں گا یا نہیں لیکن انہوں نے ان حالات میں بھی تعلیم اور صحت کے معاملات میں کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔مفت تعلیم اور مفت صحت کی سہولیات ہر کسی کے لئے میسر رہیں۔ہمارا اسلامی جمہوریہ ملک ہے۔اگر ہم زکوۃ کے نظام کو شفاف کر دیں تو کوئی غریب ادویات نہ ملنے کی وجہ سے نہ مرے۔عام آدمی سمجھتا ہے کہ یہ حکمران طبقہ ان باتوں سے نا آشنا ہے،ایسا نہیں،ہمارے حکمران ،اشرافیہ ہر بات سے باخوبی واقف ہیں۔ ابھی کوئی میڈیا پر کسی کی غمزدہ داستاں نشر ہو تو اسی وقت ہسپتال میں حکم نامہ چلا جائے گا،لیکن ان لاکھو ں غریبوں کی کوئی شنوائی نہیں جو علاج نہ ہونے کی صورت میں خاموشی سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ غلام ذہن رکھنے والے حکمران جو یورپین ممالک کی نقل کرنے کو فخر محسوس کرتے ہیں،وہاں پر موجود انسانیت انہیں مرعوب کرتی ہے لیکن اپنی عوام کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔اگر کسی کا بچہ مر جائے تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کے خاندانوں کے علاج ملک سے باہر مہنگے ترین ہسپتالوں میں ہوتے ہیں۔ کبھی اپنے ہسپتالوں میں بھی اپنے بچوں کا علاج کروائیں۔ یہاں کی جعلی ادویات انہیں بھی دیں۔ہسپتالوں میں ایک بیڈ پر دو دو مریضوں کے ساتھ اپنے بچوں کو بھی لٹائیں۔ پھر شاید انہیں احساس ہو ،جناب وزیر اعلیٰ صاحب اگر اپر پنجاب میں کوئی عام سا واقعہ یا سانحہ ہوجائے تو پوری انتظامیہ،پوری حکومت متحرک ہو جاتی ہے وزیر اعظم پاکستان،وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت اعلیٰ ترین شخصیات کے ڈیرے لگ جاتے ہیں کیا جنوبی پنجاب کے لوگ آپ کی کسی بھی نظر کرم کے مستحق نہیں جناب وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف صاحب آپ کو حضرت عمرؓ کی طرز حکمرانی کا ایک انداز گوش گذار کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے پیاس سے اگر کوئی کتا بھی مر جائے تو اس کی موت کا جوابدہ میں ہونگا ،ضلع لیہ میں 30سے زائد معصوم شہریوں کی موتیں ہو چکی ہیں کیا ان کی موت کی ذمہ داری کوئی قبول کرے گا ضلع لیہ کی عوام جواب کے منتظر رہیں گے۔