قدیم میلہ بیساکھی( وساخی)
از تحریر ۔ ملک ابوذر منجوٹھہ
کوٹ سلطان کا ایک تاریخی میلہ بیساکھی جو آج بھی اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ اگر میں آپ کو تھوڑا ماضی میں لے جاؤ تو 12اپریل کی شام سے ہی گورنمنٹ ہائی سکول گراؤنڈ جہاں آج ڈگری کالج بنا ہوا ہے میں جھولے ، گول جھولا(چڈول)، چڑیا گھر، موت کا کنواں ،گھوٹے والوں کے سٹال، عجائب گھر، جادوگر، شربت کے سٹال، قلفی والی ریڑھیاں ، جلیبی والی بھٹیاں ، کھلونے کی دوکانیں ، مٹھائی کی دوکانیں ،سرکس والے پہنچ چکے ہوتے تھے۔ گھوڑے اونٹ سج دھج کے 13اپریل کے میلے میں نمائش کے لیے اپنی ریہرسل میں مصروف نظر آتے اردگرد
از تحریر ۔ ملک ابوذر منجوٹھہ
کوٹ سلطان کا ایک تاریخی میلہ بیساکھی جو آج بھی اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ اگر میں آپ کو تھوڑا ماضی میں لے جاؤ تو 12اپریل کی شام سے ہی گورنمنٹ ہائی سکول گراؤنڈ جہاں آج ڈگری کالج بنا ہوا ہے میں جھولے ، گول جھولا(چڈول)، چڑیا گھر، موت کا کنواں ،گھوٹے والوں کے سٹال، عجائب گھر، جادوگر، شربت کے سٹال، قلفی والی ریڑھیاں ، جلیبی والی بھٹیاں ، کھلونے کی دوکانیں ، مٹھائی کی دوکانیں ،سرکس والے پہنچ چکے ہوتے تھے۔ گھوڑے اونٹ سج دھج کے 13اپریل کے میلے میں نمائش کے لیے اپنی ریہرسل میں مصروف نظر آتے اردگرد
محلوں کی عورتیں اپنے بچوں فیملیوں کے ساتھ اس شام جھولے لینے کہ لیے میدان میں بڑی تعداد میں نظر آ رہی ہوتی تھیں۔13اپریل کی صبح کوٹ سلطان کی فضا لہسن (تھوم )کی خوشبو سے مہک رہی ہوتی تھی۔ صبح سے ہی رش لگنا شروع ہو جاتا تھا۔جلیبی والے سٹالوں پر جلیبیاں بننی شروع ہو جاتی تھیں۔ہر طرف ایک خوبصورت سماں کہیں گھوٹا باداماں والا بھر بھرکے پی میرا یار، کہیں دیسی گھی کی جلیبیاں کی آوازیں، کہیں شیرکی چنگھاڑ، گھوڑے پہنچنے شروع ہو جاتے ، گھوڑا دوڑ ، گھوڑا ڈانس ، اونٹ ڈانس ، اونٹ کے زور کا مقابلہ ، اونٹ کی لڑائی ، پہلوانوں کی کشتیاں (ملہن، ملہنڑ)کی صورت میں شام تک اس میلہ کا حصہ ہوتیں ، شام گئے محفل موسیقی اور مشاعرہ منعقد کی جاتی جس میں پورے وسیب سے تعلق رکھنے والے شعرا کرام حصہ لیتے اور اپنا کلام سنا کر عوام سے داد وصول کرتے ۔ خوبصورت بیلوں کے مقابلے ،فصل کی کٹائی کے اوزار کے علاوہ جانوروں کے لیے مختلف سامان بھی اس میلے کا حصہ ہوتیں ۔ کوٹ سلطان کے گردو نواح سے اس میلہ میں لوگ ہزاروں کی تعداد میں اکھٹے ہوتے ،کسان اس دن کے لیے خصوصا نئے کپڑے سلواتا ،اپنے بچوں کو اپنے کندھوں پر بٹھائے جوق در جوق کوٹ سلطان پہنچتے اور اس میلے کا حسن بڑھاتے ۔ یہ قدیم میلہ آج بھی اس طرح چل رہا ہے ہاں وقت کے ساتھ ساتھ کچھ تبدیلیاں اس کے حصہ میں آئیں ہیں گورنمنٹ ہائی سکول گراؤنڈ کی زمین ڈگری کالج کوٹ سلطان کے پاس چلی گئی جس کے بعد یہ میلہ ریلوے اسٹیشن کوٹ سلطان کے ساتھ منتقل کر دیا گیا ۔ضلعی حکومت کی عدم توجہی اور کچھ مقامی نوجوانوں کی میلہ میں آئی ہوئے جھولے والوں کے ساتھ ہر دفعہ کی لڑائیوں کی وجہ سے اس میلہ کی رونقوں میں کچھ کمی تو آئی ہے کیونکہ اب محفل موسیقی ،مشاعرہ کی محفلیں نہیں ہوتیں ، اونٹ ڈانس ، اونٹوں کی لڑائی ، نیزہ بازی جیسے حصہ میلہ کی زینت نہیں بنتے ۔کوٹ سلطان سے لوگ اور پورا وسیب اس دن لہسن کی خرید و فروخت کے لیے آتا ہے ، اس میں آرگینک اور دیسی لہسن کی بہت بڑی منڈی لگتی ہے۔علاقے کے لوگ اپنے دوستوں عزیزوں کو لہسن اور جلیبیاں تحفہ کے طور پر دیتے ہیں۔
اس میلہ کے تاریخ پس منظر میں اگر ہم چلے جائیں تو پوری دنیامیں سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اس میلہ بیساکھی کو مذہبی عقیدت کے ساتھ مناتے ہیں۔اس میلہ کو بیساکھی ، وساخی کے نام سے جانا جاتاہے،سکھ اس میلہ کو گروخالصہ سرجانہ دیواس کے پیدا ہونے کے دن کے طور پر مذہبی عقیدت کے طور پر مناتے ہیں۔نانک شاہی کیلنڈرکے دوسرے مہینے کی پہلی تاریخ کو یہ میلہ منایا جاتا ہے۔ دوسری ایک روایت کے مطابق میشاسنکرنتی کیلنڈرکے مطابق وساخ پہلا مہینہ اور 13اپریل یہ سال کا پہلا دن ہے اور اس کو ہندو مذہب کے لوگ مناتے ہیں۔پنجابی کیلنڈر کے مطابق یہ سال کا پہلا دن ہے ہندو مذہب میں پنجابی کیلنڈر کو اپنے مذہبی کیلنڈر کے طور پراستعمال کرتے ہیں۔کوٹ سلطان میں قلعہ کوٹ سلطان یہاں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی قدیمی رہائش کا پتہ دیتا ہے۔ شام مندر ، جو سکھ راجہ رنجیت سنگھ کے ملتان حملہ کے وقت دھرم شالا کے نام سے موسوم کی جاتی ہیں ۔ اس مندر میں لگی بابا گرونانک کی تصویر بتاتی ہے راجہ رنجیت کے بیٹے کھڑک سنگھ نے ملتان پر جو حملہ کیا تو وہ اپنے اثرات بھی ان علاقوں میں نظر آتے ہیں ۔ لالہ شام ، تلسی داس ، بھائی سادھو رام ہندو دھرم سے تعلق رکھنے والے کوٹ سلطان کے امیر ترین لوگوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ہندو اکثریتی علاقہ ہونے کی وجہ سے بیساکھی ،وساخی کا میلہ کوٹ سلطان میں صدیوں سے چلا آ رہا ہے ۔خوشیوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور یہ میلہ اس بات کا ثبوت ہے ۔ کوٹ سلطان اور اس کے ملحقہ علاقوں سے بڑی تعداد اس میلے کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں ۔اس میلہ میں اپنے پورے سال کی محنت کیے گئے بیلوں ، اونٹوں اور دوسرے جانوروں کی نمائش کے علاوہ ۔ وسیب کے نوجوان اپنے محنت سے بنائے ہوئے جسم کشتیوں اور وزن اٹھانے کے مقابلوں کی صورت میں نمائش کرتے ہیں۔ اس میلہ کے فورابعد کسان اپنی فصلوں کی کٹائی میں مصروف ہو جاتاہے ۔یہ میلہ فصلوں کی کٹائی کے آغاز کا اعلان بھی کرتا ہے۔میں ایک اپیل تمام دوستوں سے کرتا ہوں جو اس میلے کی بہتری کے لیے کوشش کرسکتے ہیں یہ میلے ہمارے ثقافتی میلے ہیں میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ خوشیوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔اپنے اس میلے کو دوبارہ رنگ بھرنے کی کوشش کریں ۔ایم پی اے مہراعجاز احمد اچلانہ صاحب ، ایم این اے پیر ثقلین شاہ بخاری صاحب سے گزارش ہے کہ ان میلوں کی رونقوں کو دوبارہ بحال کروایا جائے ان میلے میں آئے ہوئے مہمانوں کے لیے سیکورٹی کا بندوبست کیا جائے تاکہ کچھ بگڑے بچے ان لوگوں کی روزی میں مشکلات پیدا نہ کرسکیں ۔ شکریہ
اس میلہ کے تاریخ پس منظر میں اگر ہم چلے جائیں تو پوری دنیامیں سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اس میلہ بیساکھی کو مذہبی عقیدت کے ساتھ مناتے ہیں۔اس میلہ کو بیساکھی ، وساخی کے نام سے جانا جاتاہے،سکھ اس میلہ کو گروخالصہ سرجانہ دیواس کے پیدا ہونے کے دن کے طور پر مذہبی عقیدت کے طور پر مناتے ہیں۔نانک شاہی کیلنڈرکے دوسرے مہینے کی پہلی تاریخ کو یہ میلہ منایا جاتا ہے۔ دوسری ایک روایت کے مطابق میشاسنکرنتی کیلنڈرکے مطابق وساخ پہلا مہینہ اور 13اپریل یہ سال کا پہلا دن ہے اور اس کو ہندو مذہب کے لوگ مناتے ہیں۔پنجابی کیلنڈر کے مطابق یہ سال کا پہلا دن ہے ہندو مذہب میں پنجابی کیلنڈر کو اپنے مذہبی کیلنڈر کے طور پراستعمال کرتے ہیں۔کوٹ سلطان میں قلعہ کوٹ سلطان یہاں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی قدیمی رہائش کا پتہ دیتا ہے۔ شام مندر ، جو سکھ راجہ رنجیت سنگھ کے ملتان حملہ کے وقت دھرم شالا کے نام سے موسوم کی جاتی ہیں ۔ اس مندر میں لگی بابا گرونانک کی تصویر بتاتی ہے راجہ رنجیت کے بیٹے کھڑک سنگھ نے ملتان پر جو حملہ کیا تو وہ اپنے اثرات بھی ان علاقوں میں نظر آتے ہیں ۔ لالہ شام ، تلسی داس ، بھائی سادھو رام ہندو دھرم سے تعلق رکھنے والے کوٹ سلطان کے امیر ترین لوگوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ہندو اکثریتی علاقہ ہونے کی وجہ سے بیساکھی ،وساخی کا میلہ کوٹ سلطان میں صدیوں سے چلا آ رہا ہے ۔خوشیوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور یہ میلہ اس بات کا ثبوت ہے ۔ کوٹ سلطان اور اس کے ملحقہ علاقوں سے بڑی تعداد اس میلے کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں ۔اس میلہ میں اپنے پورے سال کی محنت کیے گئے بیلوں ، اونٹوں اور دوسرے جانوروں کی نمائش کے علاوہ ۔ وسیب کے نوجوان اپنے محنت سے بنائے ہوئے جسم کشتیوں اور وزن اٹھانے کے مقابلوں کی صورت میں نمائش کرتے ہیں۔ اس میلہ کے فورابعد کسان اپنی فصلوں کی کٹائی میں مصروف ہو جاتاہے ۔یہ میلہ فصلوں کی کٹائی کے آغاز کا اعلان بھی کرتا ہے۔میں ایک اپیل تمام دوستوں سے کرتا ہوں جو اس میلے کی بہتری کے لیے کوشش کرسکتے ہیں یہ میلے ہمارے ثقافتی میلے ہیں میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ خوشیوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔اپنے اس میلے کو دوبارہ رنگ بھرنے کی کوشش کریں ۔ایم پی اے مہراعجاز احمد اچلانہ صاحب ، ایم این اے پیر ثقلین شاہ بخاری صاحب سے گزارش ہے کہ ان میلوں کی رونقوں کو دوبارہ بحال کروایا جائے ان میلے میں آئے ہوئے مہمانوں کے لیے سیکورٹی کا بندوبست کیا جائے تاکہ کچھ بگڑے بچے ان لوگوں کی روزی میں مشکلات پیدا نہ کرسکیں ۔ شکریہ
ملک ابوذر منجوٹھہ