آتش عشق
ڈاکٹر عفت بھٹی
وہ بال بکھیرے ڈھول کی تھاپ پہ دیوانہ وار رقصاں تھی جانے کیسا جنوں تھا جوبابا پگڑی شاہ کے مزار پہ آکے اس پہ طاری ہو گیا تھا۔اس کی ماں اس کی حالت دیکھ کے بدحواس ہو رہی تھی۔جوان جہاں بیٹی ۔اور یہ دیوانہ پن ۔ماں نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں ا سے اپنا شوہر نیاز لینے والوں کی قطار میں کھڑا نظر آیا۔ڈھول کی تھاپ رکتے ہی امنہ کا گھومتا وجود ساکت ہو گیا اور وہ گر گئی۔فاطمہ کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی وہ اس کی طرف لپکی دوپٹے سے بے نیاز وجود ۔دھونکنی کی طرح چلتی سانس مگر آنکھیں ایک نقطے پہ ساکن ۔فاطمہ نے اس کے سینے پہ دوپٹہ پھیلایا اور اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔ ایک ہاتھ پانی کا گلاس لیے سامنے آن ٹھہرا فاطمہ نے گلاس تھام کے امنہ کے لبوں سے لگایا۔امنہ نے غائب دماغی میں چند گھونٹ بھرے اس کی آنکھیں ان دو آنکھوں سے ٹکرائیں ۔اور وہیں ٹھہر گئیں ۔فسوں پھونکا جا چکا تھا کاتب تقدیر مسکرایا ۔یہ کیا ہوا ؟ دنیا ساکت ہو گئی آتش عشق کی چنگاری بھڑکی ۔نظر ملانے والے نے گھبرا کے نظر چرائی اور پلٹ گیا اس کے قدموں میں برسوں کی تھکن تھی جھکے کندھے اور جھک گئے۔طلب کی نظر ابھی بھی حیرت ذدہ تھی وہ اس کے تھکے قدموں سے لپٹ گئی جانے والا لڑ کھڑایا پلٹا رکا اور بے بسی سے مڑ گیا۔ لمحہ گذر چکا تھا سب یوں رواں دواں ہوا گویا کچھ ہوا ہی نہ تھا۔فاطمہ کے جھنجوڑنے پہ امنہ نے ایک لمبی سانس کھینچی اور اٹھ بیٹھی ۔پتر کیا ہوا تجھے ؟فاطمہ نے پوچھا۔کک کچھ نئیں زرا سر بھاری ہو رہا۔اچھا چل گھر چلیں
۔اس کے معاملات زندگی بدل گئے۔جانے کن خیالوں میں گم رہتی بس وہ آنکھیں کبھی الجھی کبھی سلجھی کبھی مسکراتی کبھی سرزنش کرتی دکھائی دیتیں ۔فاطمہ اس کی حالت دیکھتی تو اسے پکا یقین ہو گیا کہ ہوائی مخلوق کا اثر ہو گیا وہ اس کو دیکھتی ممتا کی تڑپ آنکھوں کے کونے دوپٹے سے صاف کرنے لگتی۔۔
رشیداں نے اسے بتایا کہ مزار والے بابا جی کی بڑی مشہوری ہے بے اولاد۔اولاد والے ہو جاتے اس کے علاوہ بھی ہر مسئلہ ان کے دم سے ٹھیک ہو جاتا اک وری لے جا امنہ کو ۔سو فاطمہ نے اکبر کو ساتھ لیا بیل گاڑی پہ ماں بیٹی سوار ہوئیں اور اکبر نے بیل کو ہانکا۔اکبرے چھتی ٹور لوڈے ویلے واپس بھی آنا ہے ۔اچھا اماں اس کو جہاز تو بنا نہیں سکتا اکبر نے بیزار شکل بنائی۔ شکل دوپہر وہ بابا پگڑی والے کی مزار کی حدود میں داخل ہوئے۔امنہ کا ہاتھ تھامے فاطمہ عقیدت مندوں کی قطار میں بیٹھ گئی۔کافی دیر بعد اس کی باری آئی۔وہ حجرے کے پاس پہنچی تو ایک تندومند حواری نے راستہ روکا بی بی صرف مریض اندر جائے گا۔۔ناچار امنہ کو اشارہ کیا۔وہ آگے بڑھ گئی ۔کچی کوٹھری سیلن دہ تھی۔سامنے چبوترے پہ ایک توانا سا پیر ٹانگیں پسارے بیٹھا تھا قریب ہی ایک شخص سر جھکائے کاغذ پہ زعفران سے کچھ لکھ رہا تھا۔قدموں کی چاپ سن کر ان نے نظر اٹھائی اور ساکت رہ گیا۔ پیر بابا نے حسن و جمال کے اس پیکر کو دیکھ کے حق اللہ کا نعرہ مستانہ بلند کیا امنہ نظر جھکا ئے بیٹھی تھی۔ساکت وجود نعرے کی آواز میں چھپے حکم سے بخوبی واقف تھا مگر اس کے قدم زمین نے جکڑ لیے ۔امنہ اضطراب محسوس کر کے مڑی مگر ایک پشت کے سوا کچھ دکھائی دیا۔ مانوس آنکھوں کے روٹھے پن نے اسے بے چین کر دیا۔وہ دروازے کی اوٹ میں کھڑا بے بسی سے ہونٹ چبا رہا تھا اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا ۔اضطراب کا سوا ہونا تھا کہ وہ اندر چلا گیا۔پیر نے امنہ کے سر کے بال ہاتھوں میں لے کے جھٹکے سے اس کا سر بلند کیا اور منہ ہی منہ میں کچھ بدبداتے ہوئے اپنی بدبودار سانس امنہ کے منھ پہ چھوڑی۔کراہت سے امنہ نے اپنی ابکائی روکی اور منہ پہ ہاتھ رکھ لیا ۔پیر کی پیٹھ پہ پھرتی انگلیاں اسے چبھ رہی تھیں۔ سائیں ایک آواز پہ پیر ساکت ہو گیا۔حق اللہ اس نے نعرہ لگایا ۔اور ناگواری سے امنہ کو جانے کا اشارہ کیا۔امنہ اٹھی اور مڑی کوٹھری سے باہر آتے ہوئے دروازے پہ کھڑے سائے سے ٹکرا گئی۔گرنے سے قبل اسے دو ہاتھوں نے سہارا دیا نگاہوں کا تصادم ہوا نگاہ طلب میں شوق در آیا ۔میں ہار گئی اقرار تھا۔ابھی وقت اذن نہیں نگاہ مطلوب نے دھیمے سے کہا۔میں بکھر جاؤں گی۔نگاہ طلب نے بھرپور احتجاج بلند کیا۔میں مجبور ہوں نگاہ مطلوب نے سر جھکا لیا۔پھر بغاوت ہو گی۔نگاہ طلب نے دھمکی دی۔اور خفا لہجے میں بولی۔ نگاہ مطلوب اس کی اس شرارت پہ مسکرائی۔۔یہاں دوبارہ مت آنا۔اس کے لب ہلے ۔پھر ۔۔۔؟انتظار کرو۔یہ کہہ کر وہ پلٹ گیا۔
عبیداللہ اپنی کوٹھڑی میں زمین پہ لیٹا سوچوں میں گم تھا ۔دو آنکھیں اس کی آنکھوں سے ہم کلام تھیں۔۔میں تو تلاش حق میں آیا تھا پھر یہ راستہ کیوں؟ اس نے خود کو مخاطب کیا۔
مجاز کے بغیر حقیقی پانا ممکن نہیں عقل نے حیا کا آنچل درست کرتے ہوئے کہا۔مگر ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں اندر کی دلیل جاندار تھی۔۔عقل مسکرا دی ۔عبیداللہ نے کروٹ بدلی بے چینی تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی ۔اس نے وضو کیا اور جائے نماز پہ کھڑا ہو گیا۔دو رکعت کی نیت باندھی مگر پہلی رکعت میں بھول گیا اس نے خود کو ملامت کی اور دوبارہ نیت کی مگر یکسوئی حاصل نہ ہوئی بے بسی سے سر بجود ہوگیا اور ہچکیاں بندھ گئیں۔اپنی خطا بے بسی معزرت اقرار ہار جانے کیا کچھ تھا بس سب آنسوؤں کے ساتھ بہتا چلا گیا۔ادائے بندگی کچھ ایسی پسند آئی کہ عابد کو قرار آتا گیا۔
وہ کب سے ٹیکری پہ نظر جمائے بیٹھی تھی ۔اڑتی دھول نے جیسے اسے یقین عطا کیا لو آگیا۔چار خانے والا رومال لہرایا اور وہ قریب آتا گیا نقوش واضح ہوگئے تھے ۔پاس آ کر ذرا سا رخ موڑ کے بیٹھ گیا ۔ایک دوسرے کے بولنے کے منتظر۔عبیداللہ نے نظر جھکائے اس کے گود میں دھرے ہاتھوں کو دیکھا۔۔بابا سے بات کرو ۔امنہ کے ہاتھوں نے۔پہلو بدلا۔میری ریاضت وہ منمنایا۔میری منزل کچھ اور تھی ۔امنہ نے نظر اٹھائی۔اسی لمحے عبیداللہ کی نظر بھی اٹھی۔راستہ کٹھن ہے تھک جاؤ گی ۔منزل الگ الگ ہے سفر رائیگاں ہے ۔نگاہ مطلوب نے فیصلہ سنا دیا۔وہ اٹھا اور مڑ کے چل دیا۔اس کی مستقر کہیں اور تھا۔نگاہ طلب مسکرائی ۔جاؤ سفر الگ ہی سہی مگر منزل ایک ہی ہے۔تمہاری منتظر رہوں گی۔
برسوں ایک جگہ سے دوسری جگہ کی خاک چھانتا حکمتوں کے موتی رولتا ایک بستی سے گذرا ۔راہ گذر پہ ایک کچی قبر نے اس کے قدم جکڑ لیے اس کے سرہانے کیکر کے درخت پہ ان گنت دھاگے بندھے تھے ۔اس نے فاتحہ پڑھی اور قبر کو صاف کرنے لگا۔آگئے تم۔۔کب سے منتظر تھی۔سرگوشی ابھری ۔عبیداللہ کے ناتواں وجود نے جھٹکا لیا اور سوئی ناکے سے پار ہو گئی اذن مل چکا تھا۔اگلی صبح وہ اس کے پہلو میں لیٹا اس سے ہمکلام تھا