آئینہ
عفت بھٹی
پچھلے ہفتے ایک خبر نظر سے گذری کہ عدالت نے نوٹس جاری کیا ہے کہ پرائیویٹ سکولز اساتذہ کو کم سے کم چودہ ہزار تنخواہ ادا کریں۔یقین مانیں دل باغ باغ ہو گیا مگر عملدرآمد مشکل نظر آتا ہے کیونکہ سکول اب تعلیم کا کم اور کاروبار کا ذریعہ ذیادہ نظر آتے۔ہر گلی میں سکول اکیڈمیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم اگر اب بھی خواندگی کی شرح کم ہونے کا رونا روئیں تو یہ محض ہماری کم عقلی ہے ۔ہم ہر محکمے میں کرپشن کا رونا روتے کبھی اقتصادی تنزلی پہ آہ و فغاں کرتے مگر میں ببانگ دہل کہتی ہوں کہ ہم نے کرپشن کے کیڑے اس طرح دماغ میں پالے ہوئے جیسے ریشم کے کیڑے پالے جاتے ہیں اس پہ مستہزاد کہ اپنے گریبان میں جھانکنا ہمیں گوارا نہیں ۔سیاست سے صحافت تک ہم الزامات کے گھوڑے پہ سفر کرتے اور تا ابد انہی خوش گمانیوں میں رہنا چاہتے کہ ہم ٹھیک ہیں باقی جو کسی کی مرضی وہ کرے۔
نیا تعلیمی سال شروع ہوا ۔گذشتہ سال سلیبس تبدیل کیا گیا تھا اب ایک دفعہ پھر تبدیل کیا یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ چند اسباق آگے پیچھے کرنے سے کیا ہوگا۔ہماری تعلیمی حالت کا جنازہ نکلتا دیکھنا ہو توپنجم اور ہشتم کے بورڈ کے امتحانوں میں دیکھیں ۔سب سے پہلے تو جب کوئی پرائیویٹ اسکول اپنے طلباء لے کر امتحانی سینٹر میں جاتا ہے تو خرچہ پانی کی مد میں پنجم کے۔پانچ سو اور ہشتم کے ایک ہزار روپے ادا کرے۔باقاعدہ بھتہ وصولی رجسٹر موجود ہے جس میں مندرجات ہیں کہ رقم دی گئی۔اب آگے بڑھیں پچے گویا پکنک منانے آئے ہیں گروہ کی شکل میں پیپر ہو رہا اب دو طرح کے۔اسٹوڈنٹ موجود ہیں رٹا سسٹم اور کونسپٹ رکھنے والے۔روم کے باہر ہیلپر بھی موجود ان اساتذہ کی صورت میں جو بچوں کے ساتھ ہیں۔اب مکمل حل شدہ پیپر بچوں کو دیا جارہا ہر اسکول کے ٹیچر کی گویا ڈیوٹی ہے کہ بچوں کا خاص خیال رکھاجائے۔درحقیقت رہنما ہی رہزن بنے ہوئے جو بچوں کے کچے ذہنوں پہ ایسی تصویر پینٹ کر رہے .کہ پوچھیں مت۔۔اس سے بڑھ کے افسوسانہ رویہ کہ مارکنگ انے وا کی گئی نتائج قطعی تسلی بخش نہیں تھے ۔محنت کرنے والے طلبا کہیں پیچھے رہ گئے۔جبکہ کچھ نہ کرنے والے آگے چلے گئے ۔خیر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔کہ ہمارا تعلیمی نظام بھی دیگر شعبوں کی طرح کرپشن کی حدوں کو چھو رہا۔اور ہم ملکی ترقی میں معاون اس ہراول دستے کو فراموش کر رہے ہیں ۔گذشتہ سالوں سے ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے دہشت گردی بھی ان میں سے ایک ہے۔ سولہ دسمبر کے واقعے کے بعد دشمن نے ہماری کمزوری بھانپ لی اور تعلیمی اداروں کو بارہا دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا سو حفاظتی اقدامات کے پیش نظر چھٹیاں کی گئیں ۔ذہنی دباؤ کی وجہ سے تعلیم کا معیار وہ نہیں رہا جو حالت امن میں ہوتا ہے گویا ہم حالت جنگ میں رہے۔بات ہو رہی تھی کرپشن کی ۔تو جس۔طرح ہمارا معاشرتی نظام ہے امرا۔متوسط۔غربا بالکل اسی طرح تعلیمی نظام بھی ہے درجوں میں بٹا ہوا حیثیتوں میں تقسیم شدہ۔اور تو اور ایک ملک میں کئی سسٹم رائج کر کے ہم اپنی نسل کو تیتر بٹیر بنا رہے۔حالانکہ ہم اچھی طرح جانتے کہ ایک سسٹم کا مروج ہونا ترقی کی علامت ہے۔دنیا میں جس طرف نظر اٹھائیں ہمیں جاپان اور چائنا ترقی کرتے دکھائی دیتے۔وہاں اپنی زبان کو اہمیت دی جاتی۔تعلیم سے لیکر دفتری معاملات تک اپنے تشخص کو برقرار رکھنے والی قومیں ہی ترقی کرتیں۔تعلیمی کرپشن کا اندازہ اس بات سے کر لیں کہ ایک مشہور یونیورسٹی کے پراجیکٹ ڈائریکٹ اپنی ڈگریوں میں اضافہ کرتے ہوئے پی۔ایچ۔ڈی تک جا پہنچے اور ان کے امتحان ایک ذہین و لائق بندہ دیتا ہے ان کے مقالے اسائمنٹ سب وہ بناتا ۔چونکہ وہ صاحب زر ہیں سو ان پہ سب گناہ معاف ہیں۔میرے اردگرد بہت سے لوگ اور انسٹیٹیوٹ ہیں جو بھاری فیسوں کے عوض ڈگریاں بیچ رہے آپ داخلہ لو فیسیں بھرو آپ کو فرسٹ کلاس میں پاس کیا جائے گا نہ آنے کی صورت میں بھی حاضری پوری ہو گی۔فکر کی بات نہیں بس امتحان میں آجائیں کتاب کھول کر لکھ دیں کوئی مسئلہ نہیں۔اب یہاں کون اور کسے جوابدہ ہے؟ میری محکمہ تعلیم سے گذارش ہے کہ پانچویں اور آٹھویں کے بورڈ کے امتحان نہ دلوائے جائیں کیونکہ غیر شفاف چیکنگ اور امدادی کاروائیاں ہمارے مستقبل کے شاہینوں کےلیے سودمند نہیں۔
عفت بھٹی