عدل کے نام پر عدلیہ کی تضحیک کی واردات
خضرکلاسرا
نااہل وزیراعظم نوازشریف ایک بارپھر عدلیہ پر چڑھائی کے موڈ میں ہیں۔اب تو بھرے چوک میں عدلیہ پر وار کررہے ہیں ۔امید کی جاسکتی ہے کہ میاں صاحب لفظی گولہ باری تک ہی معاملات کو محدود رکھیں گے لیکن گارنٹی نہیں دی جاسکتی ہے کہ وہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ روارکھے جانیوالے سلوک کا فیصلہ نہیں کریں گے۔نواز شریف کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ اداروں کی تضحیک اور تذلیل سے بہتری کی بجائے بگاڑ پیدا ہوگا۔ادھر ان کی صاحبزادی مریم نواشریف اس معاملے میں میاں صاحب سے بھی دوہاتھ آگے جارہی ہے۔ (ڈاچی اور توڈی کے مصداق )۔ دلچسپ صورتحال یوں ہے کہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نوازشریف کو وزیراعظم شپ سے نااہلی کے انجام سے دوچارکرنے کا کریڈٹ اپنے سے زیادہ مریم نواز شریف کودیتے ہیں اور توقع کا اظہارکرتے ہیں کہ اگلی واردات جوکہ نوازشریف کو بندگلی میں لا کھڑا کرنے کی صورت میں ہوگی ، وہ بڑا کارنامہ بھی مریم ہی سرانجام دیں گی۔ اس کیلئے اپوزیشن کو مغز ماری کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔نااہل نوازشریف کے ناقدین کا کہناہے کہ میاں صاحب کو عدل کے بارے میں اسوقت خیال کیوں آیاہے ؟ جب ان کے اپنے خلاف فیصلہ آیاہے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ بحیثیت وزیراعظم عدل کیلئے اصلاحات کا پروگرام متعارف کرواتے ا ور ایک جیسے عدل کی منتظر قوم کو بھی انصاف ملتا۔اور یہ تاثر ذائل ہوتاکہ ملک میں طاقتور اور کمزور کیلئے عدل کے دومختلف پیمانے ہیں۔اب ان کا عدل کیلئے واویلا انکی اپنی ذات اور خاندان کیخلاف فیصلہ آنے کے بعد” ڈرامہ” ہی لگتاہے۔ادھر اس صورتحال میں ایک رائے یہ بھی سننے کو ملتی ہے کہ نااہل نوازشریف کیلئے سیاست میں زندہ رہنے کیلئے اس ٹکراؤ کی سیاست کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں تھا ،وہ عدلیہ کے فیصلوں کا احترام اس حدتک تو کرنے کو تیار ہیں، جن سے ان کی ذات اور خاندان محفوظ رہے لیکن جہان عدلیہ کے فیصلوں سے وزیراعظم شپ سے نااہل ہوکر سیاست سے ہی مائنس ہوجا نا پڑے ،یہ ان کو قطعا قابل قبول نہیں ہے ۔نوازشریف کے ٹکراؤ کی پالیسی کو سمجھنے کیلئے اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگاکہ موصوف جسٹس قیوم جیسے ججوں کو حکما سیاسی مخالفین کیخلاف فیصلے حاصل کرتے رہے ہیں اور پیغام رسانی کا کام ان کے چھوٹے بھائی وزیراعلی پنجاب شہبازشریف کرتے رہے ہیں۔جسٹس قیوم اور شہبازشریف کی وہ ٹیلی فون ریکارڈنگ بھی تاریخ کا حصہ ہے ،جس میں وہ بے نظیر بھٹو کو سزا دینے کے حوالے سے بڑے میاں کا پیغام پہنچارہے ہیں۔ادھر دوسری طرف نوازشریف اپنی نااہلی کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال میں اپنے خاندان اور پارٹی میں بھی اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کرنا چاہ رہے ہیں اور مستقبل کیلئے سیاست کے میدان اپنی بیٹی مریم کو دوسروں پر برتری دے رہے ہیں۔ اوراس کو عوام میں لیکر جارہے ہیں ۔اس بات کا اندازہ شہبازشریف اور ان کے بچوں کو ہے اور یوں خاندان میں سب اچھا نہیں چل رہاہے۔شہبازشریف کو وقتی طورپر اگلے الیکشن کے بعد کی صورتحا ل میں وزیراعظم ہونے کی تسلی کروائی گئی ہے لیکن اس بات کی اہمیت لولی پاپ جتنی ہے۔مریم نوازشریف جتنا آگے بڑھ رہی ہیں حمزہ شہبازاتنا ہی سیاسی میدان میں پیچھے جارہے ہیں ۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ شریف برادران کی طرف سے اداروں کے ساتھ للکار اور پاؤں پڑنے کی پالیسی بھی چل رہی ہے۔بڑا بھائی چوک میں گالیاں دے رہاہے اور چھوٹا بھائی مٹی پاؤ پالیسی کے تحت تابعداری کا یقین دلارہاہے۔ لیکن کتنی دیر تک ایسے چلے گا ؟ یقیناًدوغلی پالیسی زیادہ دیر تو نہیں چلے گی ۔یہاں چلتے چلتے اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ موجودہ لیگی حکومت کے دور میں جس کی سربراہی نااہلی کے باوجود نوازشریف کررہے ہیں ،اس میں ملکی قرضوں کا حجم ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیاہے۔مسلم لیگ نواز کے سوا چار سالہ دور حکومت میں قرضے جی ڈی پی کے 65 فیصد تک پہنچ گئے ہیں اورمجموعی حجم 25820 ارب روپے سے تجاویز کرگیاہے۔مسلم لیگ نواز جس کے سربراہ نوازشریف سنبھالے نہیں جاتے ان کے دور حکومت میں قرضوں میں 11 ہزار پانچ سواراب اضافہ ہواہے ،ملکی قرضے 16200 ارب روپے جبکہ غیر ملکی قرضہ 9 ارب روپے ہوچکاہے۔قانون کے مطابق قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 60 فیصد سے زیادہ نہیں ہوناچاہیے۔دوسری طرف گڈ گورننس یوں چل رہی ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے ایشائی ترقیاتی بنک کی طرف سے 4ارب ڈالر مالیت کے 16 منصوبوں پر کام شروع نہیں کیاگیاہے۔یوں اس نااہلی پر سالانہ 26کروڑ جرمانہ اداکیجارہاہے۔بات یہیں پر ختم نہیں ہورہی ہے ،گذگورننس یوں بھی اذیت کا سبنب بن رہی ہے کہ دریائے چناب پر چینوٹ ڈیم کی تعمیر میں تاخیر سے تخمینہ لاگت 23 ارب سے 50ارب تک پہنچ گیاہے۔سیلاب کے نقصانات سے بچانے والا منصوبہ 8سال بعد بھی شروع نہیں ہوسکاہے۔نیلم جہلم کاڈرامہ بھی ابھی یوں چل رہاہے کہ اس کا پی سی ون 1989 ء میں بے نظیر بھٹو حکومت نے بنایاتھا،اس کی اسوقت لاگت 15 ارب تھی اور اب 400 ارب کے قریب ہوچکی ہے لیکن منصوبہ ابھی تک لٹکاہوا ہے اور قوم سے بجلی کے بلوں میں نیلم جہلم سرچارج وصول کیاجارہاہے۔ رہے نام اللہ کا۔ ادھر چادر اوڑھ کر سادگی کیساتھ 59 ویں سالگرہ منا نے کے دعویدار شاہد خاقان عباسی جوکہ اپنی بجائے نااہل نوازشریف کو وزیراعظم قراردیتے ہیں اور پارلیمنٹ کے مینڈیٹ کی توہین کرتے ہیں کی گڈگورننس یہ ہے نئے سال کی آمد کیساتھ پٹرول 7 روپے لٹر مہنگاکیا جارہا ہے جبکہ ویسے پٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں 10 روپے لٹر اضافہ متوقع ہے۔یوں پٹرول مصنوعات میں اضافہ کیساتھ ہی پورے میں مہنگائی کا ایک اور سیلاب آئیگا اور نوازشریف اپنی حکومت کی نااہلی کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے اس کا ذمہ دار ملبہ اداروں کو قراردیں گے اور پوچھیں گے ” مجھے کیوں نکالا”۔