خوشبوئے قلم
ابابیل میزائل کاتجربہ،پاکستان کی دفاعی برتری ،اسلحے کی دوڑ
محمدصدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com
پاکستان نے دوہزاردوسوکلومیٹرکلومیٹرتک زمین سے زمین تک مارکرنے والے پہلے بیلسٹک میزائل کاکامیاب تجربہ کیاہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر)کے مطابق پاکستان نے پہلی بارابابیل میزائل کامیاب تجربہ کیاہے۔جومختلف ٹھکانوں کوتباہ کرسکتاہے اورایک سے زیادہ وار ہیڈلے جانے کی صلاحت رکھتاہے۔ایس ایس ایم ابابیل میزائل کی رینج دوہزاردوسوکلومیٹرہے۔ایم آئی آروی ٹیکنالوجی کوبروئے کارلاتے ہوئے یہ میزائل کثیرالجہتی وارہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتاہے۔اس تجربے کامقصدویپن سسٹم کے تکنیکی پہلوؤں کاجائزہ لیناتھا۔ابابیل ایٹمی وارہیڈ لے جانے اورمختلف اہداف کونشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتاہے اورموثراندازمیں دشمن کے راڈارزکوچکمہ دے کراپنے ہدف کوٹھیک نشانہ بناسکتاہے۔ابابیل میزائل کے کامیاب تجربے سے ملکی دفاع مزیدناقابل تسخیرہوگا،ترجمان پاک فوج کے مطابق آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیرمحمودحیات ،نیول چیف ایڈمرل محمدذکاء اللہ، ایئرچیف مارشل سہیل امان نے میزائل بنانے والی ٹیم اورپاک فوج کومبارکباددی ہے۔دوسری جانب صدرممون حسین نے ابابیل کے کامیاب تجربے پرقوم، فوج اورسیاستدانوں کومبارکباددیتے ہوئے کہا ہے کہ ابابیل میزائل کامیاب تجربہ خطے کے امن، طاقت کے توازن کے لیے اہم ہے، وزیراعظم نوازشریف نے ابابیل میزائل کے کامیاب تجربے پرقوم اورمسلح افواج کومبارکباددی اورملکی ٹیکنالوجی کے ذریعے میزائل تیاری میں پاک فوج کے انجینئرزکی کوششوں کوسراہا ہے،وفاقی وزیزخزانہ اسحاق ڈارنے بھی ابابیل میزائل کے پہلے کامیاب تجربے پرقوم اور مسلح افواج کومبارکباددی۔ایک قومی اخبارمیں شائع ہونے والی رپورٹ کچھ یوں ہے کہ ابابیل میزائل کے تجربے سے بہت سے اذہان میں یہ سوال پیدا ہونا بہت منطقی ہے کہ زمین سے زمین پرمارکرنے والے غوری، غزنوی،ابدالی، نصر،شاہین ون اورشاہین ٹوبیلسٹک میزائلوں کے بعدایک اوربیلسٹک میزائل نظام وضع کرنے کی منطق کیاہے۔تازہ ترین میزائل ابابیل پاکستان کی اسٹرٹیجک چوکسی اورمستعدی کامظہرہے۔مئی دوہزارسولہ میں بھارت نے اسرائیل کی فعال مددسے آشون بیلسٹک میزائل شکن نظام کاتجربہ کیاجس کامقصدبھارتی فضاؤں کے اندربھارتی تنصیبات اوراہم مقامات کے گردایسے آہنی گنبدبناناتھا جسے تباہ کرنے کی غرض سے آنے والے پاکستانی میزائلوں کوفضامیں ہی تباہ کیاجاسکے۔پاکستان کے روایتی میزائل نظام ایک وقت میں ایک اٹم بم لے جانے کے لیے ڈیزائن کیے گئے تھے۔میزائل شکن بھارتی نظام نے پاکستان کے روایتی میزائل نظاموں کے موثرہونے پرسوالیہ نشان لگادیا تھا۔ بھارتی اقدام نے ڈرامائی طورپرنئی ضرورت پیداکردی چنانچہ پاکستان نے کثیرالاہداف میزائل نظام پرکام کرناشروع کیا۔ابابیل میزائل نظام ایک وقت میں کئی ایٹم بم لے جاسکتاہے۔ایک خاص بلندی پرپہنچ کریہ وقفے وقفے سے اپنے ایٹم بم گرادیتا ہے۔ہرایٹم بم کاہدف مختلف ہوتاہے۔اورہرایٹم بم آزادانہ طورپراپنے اہداف کی جانب بڑھتاہے۔گویااس پرنصب ایٹم بم ایسے اسمارٹ ایٹم بم ہوتے ہیں جومطلوبہ بلندی سے گرائے جانے کے بعدنہ صرف اپنے اپنے اہداف کی جانب آزادانہ طورپربلکہ میزائل شکن نظام کوچکمہ دینے کے لیے ذہانت سے بھی آگے بڑھتے ہیں۔میزائل کی ان صلاحیتوں کومیزائل سازی کی اصطلاح میں میزائل انڈیپینڈنٹ (ایم آئی آروی) اورانٹیلی جنٹ ری ری انٹری ہیکل(آئی آروی)قراردیاجاتاہے۔یہ ایسی صلاحیت ہے جو آج سے پہلے صرف امریکہ ،برطانیہ، روس ،چین اورفرانس کے پاس تھی۔پاکستان اس ٹیکنالوجی کاحامل دنیاکاچھٹامعروف ملک ہے۔(اسرائیل کے پاس ایسی صلاحیت ہونے کی قیاس آرائیاں ہیں لیکن اس نے اپنی اس صلاحیت کوکبھی پیش نہیں کیا) بھارت نے حال ہی میں بین البراعظمی میزائل اگنی ۵ کاتجربہ کیاہے۔اس میں یہ ٹیکنالوجی موجودنہیں۔تاہم روسی خبررساں ادارے کے مطابق بھارت کااگلامیزائل اگنی ۶ اس صلاحیت کاحامل ہوسکتاہے۔رواں ماہ
میں یہ پاکستان کے میزائل نظاموں کادوسراتجربہ ہے۔ اس سے پہلے پاکستان نے دس جنوری کوآبدوزسے بابرمیزائل ۳کاکامیاب تجربہ کرکے زمین، فضا اور زیرسمندربیک وقت ایٹمی میزائل لانچ کرنے کی صلاحیت کامظاہرہ بھی کرچکاہے۔امریکہ ،روس،برطانیہ، چین اورفرانس کے علاوہ شمالی کوریابھی اس صلاحیت کامظاہرہ کرچکے ہیں۔اسرائیل نے اس صلاحیت کامظاہرہ نہیں کیا۔لیکن قیاس کیاجاتاہے کہ اس کے پاس بھی یہی صلاحیت ہے۔بھارت نے اپنی ایٹمی آبدوزاریشانت گزشتہ برس سمندرمیں اتاری تھی تودعویٰ کیاگیاتھا کہ بھارت نے یہ صلاحیت حاصل کرلی ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے تا حال اپنی اس آبدوزسے کسی ایٹمی صلاحیت کے میزائل کولانچ کرنے کاتجربہ کرنے کی جرات نہیں کی۔جہاں ایک طرف جنوبی ایشیانت نئے ہتھیاروں کی گھن گرج سے لرزرہا ہے۔ وہیں اس یاددیہانی کی ضرورت بھی ہے کہ سال ۱۹۹۸ء کے پاک بھارت ایٹمی تجربات کے بعدپاکستان نے خطے کے عوام کے مفاد میں ایٹمی تحمل کی تجویزدی تھی۔جس کے تحت دونوں ممالک کواپنی اپنی سٹرٹیجک صلاحیتوں کومنجمدکردیناتھا۔لیکن بھارت نے رعونت سے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔اسی اخبارمیں ایک اوررپورٹ یہ شائع ہوئی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں دنیاکی تمام بڑی طاقتیں یہ توجان چکی ہیں کہ اس کے بارے میں صحیح اندازہ لگانامشکل ہے۔مگرامریکی ادارے کے نئے انکشافات نے توبھارت کی نیندیں ا ڑادی ہیں۔ان انکشافات کے مطابق پاکستان نے جوہری ہتھیاربھارت کوکسی بھی فوجی کارروائی سے روکنے کے لیے ڈیزائن کئے گئے ہیں۔جوہری ہتھیاروں کی دوڑ خطے میں جوہری تنازع کی وجہ بن سکتی ہے۔پاکستان کے پاس ایک سوپچاس سے دوسودس کے قریب جوہری ہتھیارموجودہیں۔سال دوہزارچارکے بعدسے پاکستان نے جوہری ہتھیاروں کی سیکیورٹی کومزیدبہتربنانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکی ادارے کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ اگرپاکستان اور بھارت اپنے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ کرتے رہے تودونوں ممالک کے اسٹرٹیجک نظام کوشدیدخطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔کانگریشنل ریسرچ سروس (سی آرایس)کی جانب سے امریکی قانون سازاداروں کوارسال کی جانے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے جوہری ہتھیاربھارت کوکسی بھی فوجی کارروائی سے روکنے کے لیے ڈیزائن کئے گئے ہیں تاہم پاکستان ان کی تعدادمیں اضافہ کررہا ہے۔
ایک طرف پاکستان اوربھارت کے درمیان ایٹمی تجربات کرنے کی دوڑ جاری ہے تودوسری جانب ایک اورقومی اخبارمیں شائع ہونے والی ایک خبریہ ہے کہ پاکستان اوربھارت قانون سازوں اوراہلکاروں کے درمیان جمہوریت اورطرزحکمرانی کے حوالے سے تجربات کے تبادلے سے متعلق پلڈاٹ کے زیر اہتمام ڈائیلاگ کانواں دوردبئی میں اختتام پذیرہوا۔ڈائیلاگ میں پاکستان اوربھارت میں غربت کے خاتمے سے متعلق پیش رفت کاموضوع زیربحث رہا ۔ ڈائیلاگ میں پاکستان کی جانب سے اراکین پارلیمنٹ سمیت سندھ اورپنجاب کی صوبائی اسمبلیوں کے علاوہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ جبکہ بھارت کی طرف سے بھارتی پارلیمنٹ ،قانون سازریاستوں دہلی اورراجھستان کے اراکین سمیت ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے شرکت کی۔شرکاء کی جانب سے کہاگیا کہ پائیدارمعاشی ترقی غربت کے خاتمے کے لیے انتہائی اہم ہے۔پائیدارمعاشی ترقی کے لیے دونوں ممالک میں اداروں کی سطح پرپالیسی اوراصلاحات متعارف کرواناچاہییں۔بھارتی شرکاء کی جانب سے سماجی تحفظ کے لیے اٹھائے جانے والے مختلف پروگرامزپرروشنی ڈالی گئی جس کے باعث بھارتی غربت کوکم کرنے میں مددملی ہے۔تاہم مساوی اورپائیدارترقی کے لیے حکومت کوجامع حکمت عملی پرزوردیاگیاجس میں تمام شراکت داروں کی شمولیت یقینی ہو۔ڈائیلاگ میں اگرچہ اس حوالے سے اتفاق پایاگیا کہ جنوبی ایشیاء میں مجموعی طورپرغربت میں کمی واقع ہوئی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ غربت کے حوالے سے درست اعدادوشمارپراختلاف موجودہے۔تاہم شرکاء کاکہناتھا کہ خطے میں اسلحے کی دوڑ غربت کے خاتمے اورعوامی فلاح کے بیچ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔پاکستانی شرکاء کی جانب سے معاشی ترقی اورزرمبادلہ کے کردارکے حوالے سے روشنی ڈالی گئی جبکہ مخصوص لوگوں کے لیے سبڈیزکے پروگرامزکی وجہ سے غربت میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔شرکاء کاکہناتھا کہ ایسے پروگرام اچھے ہیں تاہم ملازمت کے مواقع ۔طویل مدت اثرات کے لیے جامع حکمت عملی اختیارکرناپڑے گی۔شرکاء کازرمبادلہ کی افادیت کوبیان کرتے ہوئے کہناتھا کہ تعلیم اورفنی تربیت پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔ڈائیلاگ میں پاکستان اوربھارت میں امیروں اورغریبوں کے درمیان بڑھتی ہوئی تفریق پرتحفظات کااظہارکیاگیا۔
پاکستان نے اپنامیزائیل پروگرام بھارت کے میزائل پروگرام کے جواب میں شروع کیاتھا۔ پاکستان کا اپنے دفاع کے لیے میزائل پروگرام کوترقی دینا خطے میں طاقت کے توازن کوبرقراررکھنے کے لیے ضروری ہے۔تازہ ترین میزائل ابابیل کاتجربہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔پاکستان اسلحے کی دوڑ نہیں چاہتا لیکن یہ اپنے دفاع سے غافل بھی نہیں ہے۔پاکستان کی طرف سے میزائل تجربات اسلحے کی دوڑ کے لیے نہیں اپنے دفاع کومزیدناقابل تسخیر بنانے کے لیے ہیں۔پلڈاٹ کے زیراہتمام دبئی میں پاکستان اوربھارت کے قانون سازوں اورسرکاری اہلکاروں کے درمیان جمہوریت اورطرزحکمرانی کے حوالے سے تجربات کے تبادلے سے متعلق ہونے والے ڈائیلاگ میں خطے میں اسلحے کی دوڑ کوغربت کے خاتمے اورعوامی فلاح کی راہ میں بڑی رکاوٹ قراردیاگیا ہے ۔ اس بات کودوسرے لفظوں میںیوں کہاجاسکتا ہے کہ غربت میں خاتمے اورعوامی فلاح کے لیے خطے میں کم سے کم اسلحے کی دوڑ میں کمی ضروری ہے۔یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان اوربھارت کوایٹمی تجربات کرنے اوراسلحے کی دوڑ کی بجائے دیگرمسائل پرتوجہ دینی چاہیے۔دونوں ممالک کوغربت میں کمی کرنے پرتوجہ دینی چاہیے اورعوامی فلاح کے منصوبے بناکرخوش حالی کے اقدامات کرنے چاہییں۔یہ بات بھی درست ہے کہ دونوں ممالک جووسائل اورسرمایہ ایٹمی تجربات اوراسلحے کی دوڑ پرخرچ کرتے ہیں وہی وسائل اورسرمایہ اپنے اپنے ملکوں میں غربت کے خاتمے اورعوامی فلاح کے منصوبوں پرخرچ کریں۔یہ بات کہنے اورلکھنے کی حدتک تودرست ہیں تاہم ان پرعمل ہونابہت مشکل ہے۔ اس حقیقت سے انکارنہیں کیاجاسکتاکہ اس صورت حال کاذمہ داربھارت ہے ۔پاکستان نے توایٹمی تحمل کی تجویزپیش کی تھی جوبھارت نے مستردکردی تھی۔ خطے میں اسلحے کی دوڑکوختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جس طرح بھارت نے ایٹمی تجربات اوراسلحے کی دوڑ میں پہل کی تھی اب ایٹمی تجربات بندکرنے میں بھی وہی پہل کرے ۔جب تک بھارت نئے نئے تجربات کرتارہے گااس وقت تک خطے میں اسلحے کی دوڑ کاخاتمہ خواب ہی رہے گا۔ اس بات کی وضاحت اس سے بھی ہوتی ہے کہ کراچی اورلاہورسے شائع ہونے والے دوالگ الگ قومی اخباروں میں شائع ہونے والی ایک خبریہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اوربھارت نے اسٹرٹیجک پارٹنرشپ پراتفاق کرتے ہوئے ۷۵ ارب ڈالرکے ۱۴ معاہدوں پردستخط کردیے ہیں۔بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے کہاہے کہ بھارت اورامارات کے تعلقات دہشت گردی اورانتہاپسندی کے مقابلے میں مددگارثابت ہوں گے۔یہ بات توسب جانتے ہی ہیں کہ بھارت دہشت گردی اورانتہاپسندی کے ہرواقعہ کاالزام پاکستان پرعائد کردیتا ہے۔نریندرمودی کے الفاظ دہشت گردی اورانتہاپسندی کوپاکستان پڑھاجائے توبات مزیدآسانی سے سمجھ آجائے گی۔اسلحے کی دوڑ صرف جنوبی ایشیا میں ہی نہیں دیگر خطوں میں بھی جاری ہے ۔ ملتان سے شائع ہونے والے ایک قومی اخبارکی خبراس طرح ہے کہ فرانس پریس کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے سعودی عرب اور کویت کوایک ارب ڈالرکے ہتھیارفروخت کرنے کاعزم ظاہرکیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی وزرات دفاع پینٹاگون نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ بہت جلدکانگریس سے اپیل کرے گی کہ وہ اسلحہ سازکمپنی لاکھیڈ مارٹین کے تیارکردہ نگرانی اورجاسوسی کرنے والے دس بالون فروخت کرنے اوران بالون کوبخوبی استعمال کرنے کی ٹریننگ دینے کے معاہدے کی اجازت دے۔ امریکی ادارے کی رپورٹ میں پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو بھارت کی دفاعی صلاحیت پربرتری بتائی گئی ہے۔پاکستان کی جانب سے ابابیل میزائل کاتجربہ کیاگیا ہے اس میں جوٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے وہ ٹیکنالوجی بھارت کے پاس نہیں ہے۔ابابیل میزائل کاتجربہ اس بات کااعلان ہے کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت بھارت کی دفاعی صلاحیت سے بہترہے۔ابابیل میزائل کے تجربے اورامریکی ادارے کی رپورٹ اس بات کادوٹوک اعلان بھی ہیں کہ بھارت پاکستان کے خلاف کسی بھی مہم جوئی ، اشتعال انگیزی سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلے کہ پاکستان کی صلاحیت اس سے زیادہ ہے ۔