- رانا عبدالرب کی کتاب’’سفر ہے خواب جیسا
سعید احمد سوہیہ ایڈووکیٹ
رانا عبدالرب اس وقت شعبہ صحافت میں طبع آزمائی کر رہا ہے جو کہ لیہ کے چند متحرک نوجوان صحافیوں میں اہم مقام رکھتا ہے۔صحافت کے ساتھ ساتھ شعروادب میں بھی مقام بنانے کے لیے کوشاں ہے۔دوران تعلیم ہی اس نے تعلیم کے ساتھ ساتھ صحافت شروع کردی جس سے تعلیم کی تکمیل کے ساتھ صحافت کا عملی تجربہ بھی رکھتا ہے۔پہلی کتاب’’سفر ہے خواب جیسا‘‘شایع کر کے علمی و ادبی حلقوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔رانا عبدالرب کا سفرِ زیست اگر بہت زیادہ تیز نہیں تو اتنا سست بھی نہیں۔موصوف3ستمبر1990ء کو لیہ کے نواحی قصبہ رانا نگر میں پیدا ہوا۔ابتدائی تعلیم شاہ پور ہائی سکول سے پاس کر کے اکثر متوسط طبقہ کے لڑکوں کی طرح علاقہ کی معروف درس گاہ گورنمنٹ کالج لیہ کا رخ کیا جو اس وقت پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ ہے۔اس کالج میں رانا عبدالرب نے اپنی زندگی کے قیمتی 6سال گزارے۔ان چھ سالوں میں خوب فائدہ اٹھایا۔2015ء میں ایم۔اے اردو کر کے گورنمنٹ کالج سے رسمی رابطہ توڑ لیا لیکن اب بھی اپنی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے اپنے محترم اساتذہ کو سلام کرنے کے لیے کالج پہنچ جاتا ہے۔اگرچہ رانا عبدالرب کے تعلقات کا دائرہ لمحہ بہ لمحہ پھیلتا اورسکڑتا رہتا ہے لیکن جو چند دن کسی کی دوستی کا دم بھرتا ہے تو خوب بھرتا ہے۔اسی دوستی کا دم بھرنے کا خیال ہی اس کی کتاب’’سفر ہے خواب جیسا‘‘کا محرک ہے کیوں کہ ایک طرف تویہ اِن گنے چنے طالب علموں میں گھسنے کا راستہ ہے کہ جنھوں نے دورانِ طالب علمی کی یاددراشتوں کو رقم کیا ہے کیوں کہ ہمارے ہاں تو بھرپور زندگی گزارنے والے بھی یادداشتیں مرتب کرنے کا راستہ اختیار نہیں کرتے چہ جائے کہ طالب علم ،لیکن رانا عبدالرب نے ساکن پانی میں پتھر پھینک دیا ہے اور اپنے زمانہ طالب علمی کے ایک بھرپور اور حسین دن کو مستقل عکس بند کیا ہے جس کے ساتھ اساتذہ کرام شعبہ اردو اور سال2015کی ایم اے(اردو)کی کلاس بھی مکمل طور تاریخ کے اوراق کا حصہ بن گئی۔
لیہ کے علمی و ادبی حلقوں نے رانا عبدالرب کی کتاب کا خیز مقدم کیا ہے اور اکثر احباب نے اس کو کتاب نگر میں اچھا اضافہ قرار دیا ہے جیسے پروفیسر مہر اختر وہاب صاحب رقم طراز ہیں’’رانا عبدالرب اپنی شخصیت میں زندگی کا شعلہ فروزاں رکھے ہوئے ہے اور علم و ادب اور زندگی کی حرارت کا شعلہ ان کے من میں فروزاں ہے اس آگ کو انھوں نے قرطاس وقلم کے سپردکیا ہے‘‘ساتھ ہی مہر صاحب نے اسے پہلا قطرہ قرار دے کر موسلادھار بارش کی پیش گوئی کی ہے ایسا ممکن ہے کیوں کہ رانا عبدالرب کالم نگاری میں بھی چند سالوں سے اپنی موجودگی کا مسلسل اظہار کررہا ہے۔اتفاقاً تو ایک آدھ تحریر ہوسکتی ہے مسلسل وہی لکھ سکتا ہے جس میں صلاحیت ہوتی ہے۔رانا عبدالرب کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے فرتاش سید رقمطراز ہے’’وہ بنیادی طور پر ایک بے قرار شخص ہے اور ہم جانتے ہیں کہ تخلیق کے لیے بے قراری اور بے کلی کس قدر ضروری ہے ۔رانا عبدالرب نے کم عمری ہی میں ادبی وصحافتی حوالے سے ایک مقام بنا لیا ہے‘‘۔
ہر ادبی ،فنی تخلیق کے پیچھے تخلیق کار کا جذبہ محبت کار فرماہوتا ہے۔تخلیق کار اپنی تخلیق کے ذریعے کچھ لوگوں کو متاثر کرنا چاہ رہا ہوتا ہے اور کچھ پیغام رسانی مطلوب ہوتی ہے۔ادب برائے ادب کا زیادہ تر مقصد لوگوں کی تفریح طبع ہوتی ہے جب کہ ترقی پسند ادب لوگوں کو شعور زندگی دینے کے لیے اپنے اندرواضح پیغام رکھتا ہے اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے توسفرنامہ ادب برائے زندگی میں شامل ہے کیوں کہ یہ قاری کو ان دیکھی دنیا کی ترقی و طریقِ ترقی بتاتا ہے جس سے قاری اپنی زندگی کی گاڑی دوڑانے میں کام لیتا ہے اس لیے میں سفرنامہ کا جہاں قاری ہو وہاں افادیت کا بھی قائل ہوں کیوں کہ سفرنامہ انسان کو اس دنیا کے کسی مقام کو ایک خاص نقطہ نظر سے دکھاتا ہے اردو ادب کی جو زیادہ پڑھی جانے والی صنفیں ہیں ان میں سفرنامہ ایک اہم مقام پر ہے اردو ادب کے اکثر بڑے ادیبوں نے سفرنامہ پر طبع آزمائی کی ہے۔نئے لوگ بھی اس طرف آرہے ہیں جن میں سے ایک رانا عبدالرب بھی ہے جس کا محرک جو بھی ہو لیکن اس نے اردو ادب کے دامن میں اپنے ایک دن کا سفرنامہ ملتان ڈال دیا ہے اب اردو ادب اس سفرنامہ کا رہتی دنیا تک محافظ ہے۔
اچھا سفرنامہ نگار زیادہ ترغیرملکی سفر کو سپردقلم و قرطاس کرتے ہیں لیکن اپنے ملک کے کسی شہر کے سفر کو معمول کی کارروائی سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں لیکن رانا عبدالرب نے اس معمولی سفر کو رقم کر کے غیر معمولی بنا دیا ہے جس کی بابت پروفیسر ڈاکٹرافتخاربیگ یوں رقم طرازہیں’’مطالعاتی دوروں پر تو ہرسال طالب علم جاتے ہیں پھر ملتان کا سفر تو شاید بہت سے طالبعلم مہینے میں ایک سے زائد مرتبہ کرتے ہوں گے مگر لکھتے کون ہیں؟محسوس کون کرتے ہیں؟اور اپنے ہم راہیوں کو یوں دل میں بسا کر ماحول کی تصویریں کون بناتا ہے‘‘لیکن رانا عبدالرب کو اس مطالعاتی دورہ نے مصنف بنادیا ہے یہ واقعی قابل ذکر بات ہے دوسروں کے لیے مشعل راہ بھی ہے۔
دھان پان سے رانا عبدالرب بظاہر تو مدرسہ کا ایسا طالب علم لگتا ہے جس تک طاقت ور خوراک نہیں پہنچنے دیتے لیکن وہ اپنی توانائیوں کا استعمال خوب جانتا ہے۔اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرتا رہتا ہے اس سفرنامہ کو اس نے سفرنامہ ہی رکھا۔تاریخی اور تحقیقی مقالہ نہیں بنایا کچھ سفرنامے ایسے بھی ہوتے ہیں جو سفرنامہ کم اور بوجھل تحقیقی معلومات کاناقابل ہضم آمیزہ لگتے ہیں۔قاری اس کا تعین نہیں کرپاتا کہ کیا واقعی سفرنامہ نگار نے ایسے سفرکی صعوبتیں برداشت بھی کی ہیں یا اپنے آرام دہ ڈرائنگ روم میں کتابوں سے اخذ کر کے قاری پر اپنے سفر کے تجربات کا رعب جھاڑ رہا ہے لیکن رانا عبدالرب کا سفر اس کے مشاہدات،تجربات اور جذبات کا عکاس ہے۔یہ سفرنامہ ایسے لکھا گیا ہے جیسے چشمِ دید گواہ کسی واقعہ کو افسر مجاز کے سامنے بیان کرتا ہے یہ چیز رانا عبدالرب کی مشاہداتی صلاحیت کی غمازی کرتی ہے۔
اس سفرنامہ کی زبان عام فہم ہے،عام فہم تحریر ہمیشہ مشکل رہی ہے کیوں کہ یہ چیز کافی محنت کے بعد کسی کو نصیب ہوتی ہے لیکن اس ضمن میں اہل صحافت کامیاب رہتے ہیں کیوں کہ وہ تعلقات عامہ کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہیں۔رانا عبدالرب ادب کے ساتھ ساتھ میدان صحافت کی گہرائی ناپنے میں مشغول ہے یعنی وہ ایک کالم نگار اور ایڈیٹر ہے۔بطور ایڈیٹر روزنامہ معرکہ،نوائے تھل،سنگ بے آب اور سنگ سفر میں اپنی خدمات سر انجام دیتا رہا ہے ساتھ ہی پریس کلب کی سیاست میں بھی اپناایک مقام بنا چکا ہے۔ دو بار مسلسل پریس سیکرٹری شپ اور اب2017-18کے الیکشن میں فنانس سیکرٹری ڈسٹرکٹ پریس کلب لیہ منتخب ہوا ہے۔اس کے علاوہ شعرو شاعری،ادبی مضامین وتحریروں کے ساتھ ساتھ علمی وادبی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے جس کا اعتراف خالد ندیم شانی نے کچھ یوں کیا ہے’’شاعری،کالم نگاری،مضمون نویسی،افسانہ نگاری اور سفرنامہ بھی اس کی شخصیت کے رنگوں میں شامل ہیں‘‘
رانا عبدالرب نے یادداشتیں ترتیب دے کر اور سفرنامہ ملتان رقم کر کے گورنمنٹ کالج لیہ کے ایک عہد کو عکس بند کیا ہے۔گورنمنٹ کالج تھل کی قدیم درس گاہ ہے جس میں صرف لیہ کے ہی نہیں قرب وجوار کے دیگر اضلاع کے طلبا و طالبات پڑھنے آتے رہے لیکن رانا عبدالرب میرے خیال میں پہلا طالب علم ہے جس نے گورنمنٹ کالج کی یادداشتوں کو ترتیب دیا اس کی زندگی کا یقیناًایک سنہرا دور ہے یہ ممکن ہے کسی دیگر طالب علم نے بھی یادداشتیں مرتب کی ہوں لیکن وہ میرے علم میں نہیں۔
رانا عبدالرب نے نہ صرف اپنی یادداشتیں ترتیب دیں بلکہ اپنے اساتذہ کرام کلاس فیلوز اور دوستوں کے ناموں کو بھی محفوظ کر لیا ہے یوں تاریخ علم و ادب کے لیے ایک سنہرا باب رقم کیا ہے اور یہ رانا عبدالرب اس کے اساتذہ کے لیے اعزاز ہے اور میرے خیال میں ایک ریکارڈ بھی ہے ۔رانا عبدالرب تو ایک درویش آدمی ہے اور درویش کا ہر قدم نرالا ہوتا ہے۔