عدم برداشت
تحریر ۔ محمد بلال جٹ
عدم برداشت ہمارے معاشرے کا ایک اہم اور خطر ناک مسلہ بنتا جا رہا ہے بڑھتا ہوا عدم برداشت ہمارے معاشرے پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہیاعدم برداشت کی وجہ سے ہی ہمارے معاشرے میں افراتفری بدامنی اور بے چینی کی لہر دور گئ ہے اور ہمارے معاشرے سے میانہ روی ،رواداری،تحمل مزاجی اور انصاف جیسی خوبیوں کا دور دورہ نہیں ہے عدم برداشت کی بہت ساری زندہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں میں اپنی ذاتی زندگی کا ایک مشاہدہ بیان کروں گاجس میں عدم برداشت کا عنصر تھا
میں وفاقی دارلحکومت جی ۱۱ مرکز میں ایک پھل فروش کے پاس کھڑا تھا کہ ایک صاحب نے ریڑھی بان سے نرخ پوچھے اور نرخ کم کرنے کو کہاجس پر ریڑھی بان غصے میں آگیااور کہاچلتے بنیں وہ صاحب شرمندگی سے چپ ہوکر چلے گے ہمارے معاشرے کا یہ رْخ دیکھ کر میں بہت تشویش کا شکار ہوا ٹریفک کا اشارہ توڑنا،وارڑن سے لڑاء،کنڈکٹر کا سواریوں سے،سواریوں کا کنڈکٹر سے چھوٹی چھوٹی بات پر اْلجھ پڑنادست و گریبان ہو جانا یہ سب عدم برداشت کی مثالیں ہیں ہر کوئ اپنی بات منوانا چاہتا ہے جو کسی نے دیکھا پڑھابس وہ سچ ہے دوسرے کے مؤقف کو سننے کی زحمت گوارا نہیںی کی جاتی ہر فرد دوسرے کی بات کو برداشت کرنے کی بجاے کھانے کو دوڑتا ہے ہر کوئی بے صبری ،بے چینی اور بلا وجہ غصے کا شکار دکھائی دیتا ہے عدم برداشت اور عدم رواداری کے بڑھتے ہوءے رجحان کی وجہ سے تشدد کے دل دہلا دینے والے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن کا ذکر روزانہ اخبارات میں ہو تا ہے کہیں حوا کی بیٹی کو ہوس کا شکار بنایا جا رہا ہے تو کہیں غریب پر زمیندار نے کتے چھوڑ دؤے یا ہاتھ پاؤں کاٹ دأے اس ضمن میں ہمارے جاں سے پیا رے نبی اکرم کی بہت سی احادیث سے رہنمائ ملتی ہے آپ نے فرمایا :تم میں سے جو شخص حق پرہوتے ہوتے ہوے جھگڑا چھوڑ دے تو میں جنت میں اْس کے اعلی درجے کا ضامن ہوں ہمارا دین اسلام بھی برداشت اور رواداری کا درس دیتا ہے غرضیکہ دنیا کا کوئی بھی دین عدم برداشت کا درس نہیں دیتا ہے
عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے اس رجحان کے پیچھے بے شمار محرکات ہیں جس کے ہم سب ذمے دار ہیں جس کی سب سے بڑی ذمے دار حکومت ہے بڑھتی ہوئی بے روزگاری ،انصاف کی عدم فراہمی،مہنگائی اورعدم تحفظ ہے حکومت کو چاھےأ کہ وہ مؤثر اقدامات کرے اساتذہ کو چاھےأ کہ وہ طالب علم کو نصاب پڑھانے کے علاوہ اُس کی اخلاقی تربیت بھی کرے اُس کو رواداری اوربرداشت کا درس دے ۔میڈیا کو بھی اس سلسلے میں مثبت اقدامات اُٹھانا ہوں گے منفی رویوں اور کرداروں پر مبنی پروگرام نہ بنائے جائیں ایکشن سے بھرپور فلمیں دیکھ کر آج کا نوجوان لڑائی جھگڑا کرنے کا شوقین نظر آتا ہے ہیرو بننا چاہتا ہے جھُک جانے کو باعث شرم سمجھتا ہے والدین کو چاہئیے وہ اپنے بچوں کی درست انداز میں تربیت کریں ہمارے سیاست دانوں کو چاھئیے کہ وہ بھی اپنے اندر قوت برداشت پیدا کریں دوسری جماعت کے موقف کو درست تسلیم کرنے میں اپنی شکست محسوس نہ کریں بلکہ اپنے اندر قوت برداشت اور بڑکپن کا ثبوت دیں سیاست دانوں کے بیانات چاہے وہ اخبارات میں ہوں یا ٹی وی کے کسی ٹاک شو میں ہمیشہ جارحانہ ہوتے ہیں ٹاک شوز میں سیاستدانوں کو لڑتے دیکھ کر ہماری قوم میں عدم برداشت فروغ پا رہا ہے غرضیکہ ہمیں ایک کامیاب قوم بننے کے لئے ہر سطح پر اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ معاشرے میں قوت برداشت ،تحمل مزاجی اور رواداری کو فروغ دیا جا سکے اور ہر سو پھیلی ہوئی بے چینی،افراتفری اور دہشت گردی کی فضا کو ختم کیا جا سکے۔