رعونت وتکبرکی تربیت کیوں ۔؟
محمدعماراحمد
"
صاحب میٹنگ میں ہیں۔تمہاراکام نہیں ہوسکتا۔تم کل آنا۔اوپرسے آرڈرہے ۔صاحب ابھی توبہت مصروف ہیں۔بس صاحب ابھی آتے ہی ہوں گے تھوڑاانتظارکریں۔آپ کاکام فلاں آفس کافلاں بندہ کرے گامیرایہ کام نہیں۔نہیں آپ انہی کے پاس جائیں وہی آپ کاکام کردیں گے ۔”یہ مختصر سے جملے ہم لوگ ہرروزکسی نہ کسی سرکاری آفیسریااس کے سیکرٹری سے سنتے ہیں۔ان جملوں کی ہمیں عادت ہی پڑگئی ہے ۔اب اس رویے سے ہمیں ذلت ہی محسوس نہیں ہوتی ۔ہم جانتے بھی ہوں کہ "صاحب”نہ مصروف ہیں نہ ہی کسی میٹنگ میں بلکہ محض عوام کو اپنی جاگیرسمجھنے کے خیال سے وہ اپنافرض سمجھتے ہیں کہ انہیں ذلیل کیاجائے ۔مگرہم پھر بھی چوں چراں کئے بغیر’صاحب‘کی خدائی کوتسلیم کرکے گردن جھکائے یہ سب کچھ سہتے و سنتے رہتے ہیں۔مسئلہ کیاہے اور کہاں ہے ۔؟آخران بابو لوگوں کارویہ عوام کے ساتھ ایساکیوں ہوتاہے ۔؟یہ لوگ اسی معاشرے کے ہی افرادہوتے ہیں ۔مگر جب وہ کسی انتظامی عہدے پر برا جمان ہوتے ہیں توان کے رویے یکسربدل کیوں جاتے ہیں۔؟ایک ڈاکٹرآخرکس سبب سے تڑپتے مریض کو دیکھتارہتاہے مگرعلاج کے لئے آگے نہیں بڑھتاجب تک کہ اپنا”خدائی رویہ”ظاہرنہ کرلے ۔اس سب کی وجہ بہت سادہ مگرتکلیف دہ سی ہے جس پرمعذرت کے ساتھ کچھ روشنی ڈالنے کی جسارت کرتا ہوں۔
میرے خیال میں ان کے مزاجوں میں رعونت،شخصیت میں فرعونیت کاسبب بدقسمتی سے وہ معلم ہیں جن کاکام لوگوں کوزیورِتعلیم سے آراستہ کرکے درسگاہوں میں انسانیت سکھاناتھا۔مگر اب کے وہ اپنے اس مقصدکوپسِ پشت ڈال کراستبدادی واستحصالی نظام کی آبیاری کا ’عظیم‘ فریضہ سرانجام دینے لگے ہیں۔تعلیمی اداروں میں انتظامی عہدوں پرفائزمعلم ہوں یاپھرکلاسزمیں لیکچر دینے والے مقدس اساتذہ، سب ہی طلبہ کونیچ اورکم ترسمجھتے ہیں۔ان کے خیال میں ایک طالب علم جو ان کے ادارے میں پڑھنے آیاہے وہ ان کاغلام ہے اس کے ساتھ کسی بھی طرح کابُراسلوک کرناجائزہے ۔ذراسی لغزش پرطلبہ کوسخت ذلت آمیزی کا سامنا کرنا پڑ تاہے ۔ کسی بھی بات کوذاتیات کامسئلہ بناکرطلبہ کوجتناممکن ہو رگیدا جاتا ہے ۔ایسا غیر ارادی طورپرکیاجاتاہے یاپھرارادتاََکہ 4یا5سال طلبہ کی شخصیت میں رعونت و فرعونیت کے جذبات کوباقاعدہ تربیت کرکے ابھاراجاتاہے ۔ ؟ اس سوال کا جواب ان عظیم مسندوں پر فائز لوگ ہی دے سکتے ہیں۔ طلبہ امتحان کے دنوں میں نصابی امتحان سے زیادہ اس امتحان کے بارے فکر مند ہوتے ہیں جواساتذہ سے اپنے کردہ ناکردہ ’گستاخیوں‘کی معافی تلافی کے سلسلے میں در پیش ہوتاہے ۔ہم عموماََ فرنگیوں کوکوستے ہیں کہ ابھی تک ان کابنایا بہوا بابوؤں والانظام چل رہاہے ۔ مگراب تو فرنگیوں کوبھی گئے ایک عرصہ بیت چکاہے اورہمارے تعلیمی اداروں سے پڑھنے والے بابو کارویہ وہی کیوں ہے ۔؟تربیت کرنے اورپڑھانے والے بھی اب فرنگی نہیں بلکہ مسلمان ہیں۔ان رویوں کوبدلنے کی ذمہ داری کس کی ہے ۔؟کون آئے گاجودرسگاہوں میں بیٹھے طلبہ کو یہ بھی سکھائے گاکہ اپنے ملک کے عوام کوکم ازکم انسان ضرورسمجھنا۔
جب کوئی طالب علم تعلیمی ادارے میں جاتاہے تواس میں جذبہ ہوتاہے کہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعدجب کسی بڑے عہدے پر براجمان ہوں گاتولوگوں سے اچھا رویہ رکھوں گا۔مگرطالب علمی کے اس زمانے میں اس کے ساتھ جس طرح کارویہ روارکھاجاتاہے اس سے وہ رفتہ رفتہ ہمدردی واحساس کاجذبہ آہستہ آہستہ معدوم ہوتا رہتا ہے ۔وہ کبھی وی سی صاحب کاگھنٹوں انتظارکرتاہے توکبھی ہاسٹل انچارج کا۔کبھی کسی استاذکے پاؤں پکڑنے ہیں توکبھی رجسٹرار کی منتیں کرنی ہیں۔یوں طلبہ ان مسندوں تک پہنچتے پہنچتے ٹھیک ٹھاک ڈھیٹ قسم کے بابوبن چکے ہوتے ہیں کہ وہ سامنے والے کوانسان ہی نہیں سمجھتے ۔وہ اب تک غیر ارادی طور پراسی تربیت کے زیرِ اثر ہوتے ہیں جوتعلیمی ادروں میں دانستہ ونادانستہ کی جاتی ہے اورانہیں احساس تک نہیں ہوتاکہ وہ غلط کررہے ہیں ۔
تعلیمی اداروں میں مقدس مسندوں پربیٹھے لوگوں سے دست بستہ عرض ہے کہ خدارا!قوم کے ہونہارطلبہ کواس استبدادی واستحصالی نظام سے چھٹکاراپانے کی تربیت دیں نہ کہ انہیں اس نظام کوپالنے پوسنے والابنائیں۔اہم یہ نہیں ہے کہ آپ کے اداروں سے ہر سال اتنے اوراتنے لوگ فلاں فلاں جگہ پرفلاں فلاں عہدوں پرفائزہیں۔اہم یہ ہے کہ وہ ملک وقوم کوکیادے رہے ہیں اوران کے رویے اپنے ماتحتوں یاعوام سے کیسے ہیں۔؟قوم اپنے بچے آپ کے سپرداس لئے کرتی ہے کہ آپ انہیں بہترمستقبل کے ساتھ ساتھ بہترانسان بھی بناکردیں نہ کہ اس لئے کہ آپ انہیں فرعون نماانسان بنائیں جواپنی ذمہ داری کوعوام پر خدائی کاذریعہ سمجھیں۔