ذرا دھیر ے چلو
خضرکلاسرا
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اور نواز لیگی ارکان اسمبلی کے درمیان دھمکیوں اور گالیوں کے بعد دست وگربیان ہونے تک کے مناظر پوری قوم کو دیکھنے کو ملے ہیں ۔قبل ازیں دونوں جماعتوں کے لیڈروں اور ارکان کی سپریم کورٹ کے احاط میں تضحیک آمیز اور طنزیہ جملوں کی ایک د وسرے کیخلاف بھر مار ہوتی ہے، جن میں ایسے جملے بھی سماعت سے ٹکراتے ہیں جن کو یہاں لکھنا مناسب نہیں ہے۔معاملہ ایک دوسرے کیخلاف ذاتی حملوں پر ختم نہیں ہوتاہے بلکہ لیگی رکن قومی اسمبلی طلال چو ودھری ایسا فیصلہ مانگتے ہیں جس میں اگر، مگر جیسے جملے نہ ہوں بلکہ ان کو بلیک اینڈ وائٹ فیصلہ چاہیے۔ جس کے بارے میں سمجھداروں کا خیال ہے کہ لیگی قیادت عدالت میں جاری اہم کیس پانامہ لیکس کے فیصلہ پر اثرانداز ہونے کی کوشش کررہی ہے ۔ سپریم کورٹ کے احاطہ میں موجود تحریک انصاف کی قیادت اور ارکان اسمبلی بھی نواز لیگ کیساتھ جوابی وار میں پیچھے نہیں ہیں بلکہ دوقدم آگے نکلنے کی حکمت عملی پر یوں ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ بھی عدالت میں جاری مقدمہ کا فیصلہ اپنے حق میں سنا رہے ہیں۔جمعہ کو سپریم کورٹ نے ایک طرف منی لانڈرنگ ریفرنس کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہاہے کہ کوئی ڈکٹیشن نہ دے کیونکہ لوگوں کی خواہش نہیں بلکہ قانون کے مطابق فیصلہ کرینگے ،اور مطمئن ہونے تک سماعت جاری رہے گی ۔سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پاناما کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے ہیں کہ بہت سے لوگ بہت کچھ کہہ رہے ہیں لیکن کیس کی سماعت اسوقت تک جاری گی جب تک انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوجاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے معزز جج کے ان ریمارکس کے بعد بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ عدالت نوازلیگی ارکان اسمبلی بالخصوص طلال چودھری ودیگر جوسپریم کورٹ کی کاروائی پر اثرانداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں، ان کے بارے میں عدالت بخوبی آگاہ ہے۔اس کا اثر لیگی رکن طلال چودھری ودیگر لیڈرشپ پر کتنا ہوتاہے ؟ اس کا پتہ لیگی قیادت کی سپریم کورٹ کے احاط میں آئندہ ہونیوالی بات چیت میں ہوجائیگا کہ انہوں نے عدالت عظمی کے ریماکس کو کتنا سنجیدہ لیاہے کہ ذرا دھیرے چلو ،پاناما کیس کا فیصلہ انصاف پرمبنی ہوگا۔
پانامہ لیکس کیس کی سماعت جیسے ہی اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے ، یوں لگتاہے لیگی قیادت وارکان اسمبلی سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ٹکراؤ کی طرف یوں بڑھ رہے ہیں کہ ایک طرف لیگی لیڈر خواجہ آصف نے جماعت اسلامی کیخلاف محا ذ کھول لیاہے تودوسری طرف عابد شیر علی جوکہ لیگی ارکان میں” جذباتی” سمجھے جاتے ہیں نے ،ٹویٹر پر شاہ محمود قریشی کو مخاطب کرتے ہوئے کہاہے کہ قومی اسمبلی میں آپ اور عمران خان میرے ریڈار پر ہونگے مطلب ایک بار پھر لیگی لیڈرشپ کے ارادے تحریک انصاف کے لیڈر شاہ محمود قریشی اورعمران خان کے بارے میں” نیک "نہیں ہیں ، سمجھدارلوگ عابدشیر علی کے ٹویٹر پیغام کو سمجھ گئے ہونگے کہ ابھی لیگی ارکان ولیڈران کا غصہ کم نہیں ہوا ہے۔اللہ خیر ہی کرے اور قومی اسمبلی میں ایک بار پھر وہی ماحول دیکھنے کو نہ ملے جس میں تحریک انصاف کے رکن شہریارآفریدی کو تھپڑ کھانا پڑا اور بہت سارے ارکان اسمبلی کو گالیاں اور دھکوں کے علاوہ تضحیک آمیز جملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ خواجہ آصف نے جس طرح جماعت اسلامی کو للکارا ہے اور طنعے دئیے ہیں ، اس سے اندازہ ہوتاہے کہ نواز لیگی قیادت جماعت اسلامی کیساتھ بھی سیاسی میدان میں ٹکراؤ کی طرف بڑھ گئی ہے۔خواجہ آصف نے جس طرح جماعت اسلامی کو پاکستان مخالف جماعت قراردینے کے علاوہ اس بات کا بھی طعنہ دیدیاہے کہ وہ ایک وقت میں ان کیساتھ الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں اور سیٹیں مانگتے ہیں اور پھر انہی کیخلاف مدعی بن جاتے ہیں ۔ سمجھداروں کا خیال ہے جماعت اسلامی کو خواجہ آصف کے الزامات اور لب ولہجہ ہضم نہیں ہوگا ۔
تازہ ترین قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکمران جماعت اور تحریک انصاف کے ارکان کے درمیان ہونیوالے ٹکراؤ کے بعد ایسا لگتاہے کہ پارلیمنٹرین جمہوریت کو اقتدار کی حد سنجیدہ لیتے ہیں اور ادارے کے وقار اور روح کے تقاضوں کو حقیقی معنوں میں پورا نہیں کرتے ہیں ۔ د نیابھر میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ پارلیمنٹرین ایک دوسرے کے سخت موقف کو دلیل کیساتھ رد کرنے کی بجائے مکوں پر اترآتے ہیں۔یہ امر جمہوری روح کے منافی ہے ۔بھارت کی صوبائی اسمبلی بہار میں ایک بار معاملہ اس وقت بھی سنگین صورتحال اخیتار کرگیاتھا جب حزب اختلاف کی جانب سے وزیراعلی پر کرپشن کے الزامات کو وجہ بناکر استعفی کا مطالبہ کیاگیا اور ایوان میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تلخی اس حد تک بڑھ گئی کہ اسپیکر کی تواضع جوتوں سے کی گئی تھی ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک افسوس ناک واقعہ یوں بھی رونما ہوچکاہے کہُ ُ 1958 ء میں مشرقی پاکستان کی اسمبلی کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر شاہد علی جان پر حملہ کیاگیا ، جس میں وہ ہلاک ہوگیا تھا ۔ابھی حالیہ تاریخ 2008 میں سابق وزیراعلی سندھ اربا ب رحیم پر سندھ اسمبلی کے اجلا س کے دوران جوتے سے حملہ کیاگیاتھا ۔ویسے تو دنیا بھر میں پارلیمنٹرین ایسے واقعات میں ملوث پاجاتے ہیں ۔اگرچہ اس تشدد بھرے روئیے کی مذمت کیجاتی ہے مگر ہم سے کہیں زیادہ مہذب ممالک بھی اس قسم کے واقعات سے محفوظ نہیں ہیں۔لیکن اس کے باوجود اس بات کی حوصلہ افزائی نہیں کیجاسکتی ہے کہ قومی اسمبلی کو میدان جنگ بنالیاجائے اور اسپیکر خاموش رہے۔