حرف نور۔۔۔
تحریک تبدیلی
کامران تھند
طواف گل کو بھلا کر چمن سے کی ہجرت
یہ تتلیوں کی روایات سے بغاوت تھی۔
دنیا کا دستور رہا ہے، جب قوموں پر ظلم و ستم ایک حد سے بڑھ جائے،برداشت کی حد ختم ہو جائے تب ایسی قوموں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے تو وہ اس روایات،نظام اور معاشرہ سے بغاوت کر جاتی ہیں،بغاودراصل انحراف،روگردانی،نافرمانی اور مخالفت کا دوسرا نام ہے،
کسی معاشرہ میں جب ناانصافی بڑھ جاتی ہے،انسان،حیوان، چرند،پرند،حشرات الارض بلکہ تمام مخلوق خدا اپنے اوپر ہونے والے ظلم و ستم،استحصال، ناانصافی سے تنگ آ جاتے ہیں تو وہ اس نظام سے انحراف کرتا ہے حکم ماننے سے انکار کردیتا ہے،تلوار، بندوق اٹھا لیتا ہے، وہ کام کرنے سے انکاری ہو جاتا ہے،چھوٹو گینگ کا روپ دھار لیتا ہے،بہرحال جب کوئی بھی کوئی محکوم اپنے حاکم کے ظلم سے تنگ آتا ہے تو وہ آواز اٹھاتا ہے تو حاکم اس آواز کو دبانے کے لئیے بغاوت کا نام دے کر کچلنے کی کوشش کرتا ہے،لیکن پھر بھی جب آواز مزید اونچی ہو جاتی ہے تو ظلم و ستم میں اضافہ کر دیتا ہے، ہم روز دیکھتے ہیں کہ جانور بھی اپنے مالکوں کے خلاف بغاوت کر دیتے ہیں۔گھوڑے اپنے سواروں کو گرا دیتے ہیں،حتی کہ انسان کے ہاتھوں بنائی گئی مشینری بھی اپنے مالک کے خلاف اعلان بغاوت کر دیتی ہیں جب مالک انکے انجن کی خوراک پوری نہیں کرتا،اسی طرح جیسے عمران خان ملک میں ہونے والی ناانصافی کے خلاف نواز حکومت کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اور جب آواز نہیں سنی جاتی تو عوام کو ساتھ لے کر حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔اسی طرح مختلف ادوار میں کئی تحریکیں، بغاوتیں اٹھتی رہی ہیں کچھ مزاہمتی تحریکیں مسلح ہوتی ہیں اور کچھ غیر مسلح، مسلح تحریکیں اس صورت میں اٹھتی ہیں جب جمہوری و دستوری طریقوں سے مطالبات تسلیم نہ ہوں،گفت و شنید کے تمام دروازے بند ہو جائیں،اور ریاست کا جبر اس قدر بڑھ جائے کہ کوئی دوسرا راستہ نہ ہو تو مسلح بغاوتیں اور تحریکیں ظہور پذیر ہوتی ہیں، بادشاہت کے دور کسی نہ کسی علاقے میں بغاوت کی تحریکیں اٹھتی رہتی تھیں،اور حکومتیں ان تحریکوں اور بغاوتوں کو ناکام کرنے کے لئیے سخت سزائیں مقرر کرتی رہی ہیں لیکن ان سخت سزاوں کے باوجودلوگ ظلم و ستم و نا انصافی کے خلاف برابرمزاحمت کرتے رہے ہیں۔بادشاہت دور کے بعد جمہوری دور میں ان تحریکوں میں کچھ تبدیلیاں رونما ہوئی دستور، قانون اور آئین میں لوگوں کو اپنے حقوق کے لئیے پر امن مزاحمت کرنے کا حق دیا گیا جس کی بنیاد پر اپنے حقوق،مطالبات کو منوانے کے لئیے تحریر و تقریر،مظاہروں اور جلسے جلوسوں کے ذریعے اہل اقتدار پر دباؤ ڈالا جاتا ہے اگر ہم تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو جتنی بھی مزاحمتی تحریکیں شروع ہوئیں انکے راہنماووٗں کو اس بات کا ادراک رہا ہے کہ مدمقابل ان سے زیادہ طاقتوراور منظم ہے،اس کے باوجود مزاہمت پر تیار رہتے ہیں۔ان راہنماوں کے پاس اپنے مقاصد کو پا لینے کا جذبہ ہوتا تھا جو انہیں ہر قسمی قربانی کے لئیے تیار رکھتا تھاانہیں معلوم ہوتا تھا کہ وہ حکومتی اہلکاروں سے اپنی جنگ ہار جائیں گے لیکن انکی ہار میں بھی جیت ہوتی تھی کیونکہ وہ حکومتی ظلم و ستم، نانصافی کو عوام کے سامنے افشاں کرتے تھے اور ان میں تبدیلی کی خواہش کرتے تھے۔اس کے بعد ایک تحریک قلمی بھی ہوتی ہے، کسی ملک میں ظلم و ستم و ناانصافی کے خلاف اہل قلم آواز بلند کرتے رہتے ہیں،مضامین لکھے جاتے ہیں، تحریریں، شعر و اشعار کے ذریعے عوام میں تحریک پیدا کی جاتی ہے، عوام کو جگایا جاتا ہے جیسا کہ پاکستان کو آزاد کرانے کے لئیے علامہ اقبال نے شعر و شاعری کے ذریعے عوام کو جگایا، مولانا حالی نے تحریروں سے اخبارات سے آواز بلند کی، سر سید احمد خان نے تعلیمی ادارے قائم کر کے تحریک علی گڑھ شروع کی، نواب وقار الملک، دوسرے لوگوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے ذریعے تحریک کا آغاز کیا۔قائد اعظم نے سیاسی طور پر تحریک کا آغاز کر کے وطن پاکستان حاصل کیا۔۔۔۔مقامی سطح پر بھی کچھ تحریکیں اٹھتی ہیں ایسی تحریکیں مقامی جاگیرداروں، سرمایہ داروں، یا اداروں کے ظلم کے آگے ہوتی ہیںیا کسی بڑے عہدے، طاقت کے نشے میں چور کوئی سرکاری اہلکاروں کے خلاف تحریک اٹھتی ہے، ان اداروں میں پولیس کے افسران پیش پیش آتے ہیں، ملک میں جب قانون کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے، حکومتیں اپنے مقاصد میں مصروف ہوتی ہیں انکے لیئے عوام کیے حقوق کوئی معنی نہیں رکھتے تب سرداروں۔ جاگیرداروں کے ساتھ ساتھ پولیس کے اہلکار ظالم بن جاتے ہیں، خود کودوسری دنیا کی مخلوق سمجھتے ہیں اور غریب عوام پر ایسے اقدام کر جاتے ہیں اور انہیں عدالتوں کی کوئی فکر نہیں ہوتی، دل میں آیاتو عدالتی آرڈر بھی پھاڑ دیتے ہیں اور عدالتی حکم ناموں کی پرواہ بھی نہیں کرتے۔اگر ہماری پولیس کا رویہ یہی رہا تو ملک بھر میں چھوٹو گینگ پیدا ہوتے رہیں گے۔لیکن یہ عوام کی سوچ اور تعلیم کے ساتھ علاقائی کلچر بھی ہوتا ہے کہ کسی علاقے میں پولیس کے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھا کرمسلح تحریک کا آغاز ہوتا ہے اور تعلیم سے آشنا با شعور لوگ عدالتی تحریک کا آغاز کرتے ہیں۔یا قلم کی نوک سے تحریک کا آغاز کرتے ہیں ایسی تحریکیں دیرپا ہوتی ہیں لیکن انکا اثر بہت ہوتا ہے، میں یہاں اپنے قلم کے لکھاریوں،صحافیوں کو سلام پیش کرتا ہوں کہ وہ اپنے قلم سے ایسی قلمی تحریکوں کا آغاز کرتے رہتے ہیں انکے انہی تحریکوں کی بدولت ہمارے ملک کے ادارے قانون کی عزت کرتے رہتے ہیں ورنہ طاقت کے نشے میں مغرور اداروں کے اہلکار کسی کو خاطر میں نہ لاتے۔اور ملک میں آئے روز خانہ جنگی ہوتی۔۔ کوئی قانون کی پاسداری نہ کرتا ملک میں جنگل کا قانون ہوتا۔۔۔۔۔
طواف گل کو بھلا کر، چمن سے کی ہجرت
یہ تتلیوں کی، روایات سے بغاوت تھی