میں نے اپنی زندگی میں ایسے بہت سے لکھنے والے دیکھے ہیں وہ جو لکھتے ہیں کرتے اس کے برعکس ہیں،ان کے قول فعل میں تضاد واضح جھلکتا ہے ،لکھتے وہ رشوت کے خلاف ہیں لیکن کھل کر رشوت لیتے بھی ہیں اور دیتے بھی ہیں،قانون کی پاسداری کا درس دیتے ہیں لیکن خود کھل کر قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں،سرکاری اداروں میں مداخلت اور افسران بالا کو بلیک میل اور منت سماجت کر کے اپنا کام نکلوانا فرض سمجھتے ہیں،بات حق حلال کی کریں گے لیکن کمائیں گے کالا دھن،عظیم الشان محلات میں بیٹھ کر غربت کا رونا روتے ہیں،دوسریوں کی مدد کرنے کے ہزارہا طریقے بتائیں گے لیکن وقت ضروت مدد کرنا تو دور کی بات ہتک کرنااپنا منصب سمجھے گے۔لیکن میں جس مصنف کی بات کر رہا ہو وہ خوبیوں کا مجموعہ ہیں بطور انسان خامیاں تو ضرور ہو نگی لیکن اخلاص اور دوسروں کی خدمت کرنے کا جذبہ ان میں کوٹ کو ٹ کر بھرا ہوا ہے میری مراد”اک ذرا سی بات”کے مصنف نصرت عزیزسے ہیمعاشرے میں ایسے لوگ خال خال پائے جاتے ہیں جن کے قول اور فعل میں تضادنہ ہواسلام ان کے لیے راہ پاکستان ان کی جان اور انسانیت سے محبت ان کی پہچان ہے۔
غریب اور نادار بچوں کو مفت ٹیوشن پڑھاتے ہیں،یتیم بچوں کی فیس اپنے جیب سے ادا کرتے ہیں اور بیوگان اور غرباء کی مدد کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں ہر ایک کے لیے اورہر وقت چہرے پر مسکراہٹ دیکھائی دے گی،ان کی محفل میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں سب کو برابر سمجھتے ہیں اپنا چولہا مشکل سے جلتا ہے لیکن دوسروں کا چولہا جلانے کے لیے دن رات تیار ہیں ہر فلاحی کام میں آگے آگے ہوں گے مشہوری سے دور بھاگتے ہیں حب جاہ کے طالب نہیں سیاسی اور وڈیروں سے تعلقات کے شوقین نہیں خود تعلیم یافتہ ہیں لیکن ان پڑھ لوگوں سے نفرت نہیں کرتے خوبیاں لا تعداد ہیں جیسے لکھتے خوبصورت ہیں ویسے کردار کے بھی خوبصورت ہیں ایک بار ملیں گے بار بار ملنے کا جی کرے گا ان کی محفل کا حصہ بننے پر آپ کو خوشی اور فخر محسوس ہو گا۔ہر نئے لکھنے والی کی بڑی قدر کرتے ہیں اور بھرپور راہنمائی بھی کرتے ہیں نئے لکھنے والوں کے لیے ”حاشیہ”کااجراء بھی کیاہے۔
ان کے مضامین کا پہلا مجموعہ اس وقت میرے زیر مطالعہ ہے،کسی بھی کتاب پر تبصرہ لکھنا آسان نہیں ہوتا اومجھ جیسے کم علم کے لیے تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور پھر کتاب بھی ایسی جس میں ہر موضوع پر جامع گفتگو کی گئی ہے،آج کل ہمارے ہاں ایک بیماری سی پھیل چکی ہے ہر کوئی لکھ رہا ہے اور بغیر پڑھے لکھ رہا ہے۔لیکن آپ کو یہ کتاب”اک ذرا سی بات” پڑھ کر محسوس ہو گا کہ واقعی مصنف نے لکھنے کا حق ادا کیا ہے، کتاب کے تمام مضامین جامع ،پرمغز اور قابل تعریف ہیں۔اس کتاب کو پڑھ کر آپ کے اندر جہاں آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہو گاوہی دوسروں کی خدمت کرنے کی چاہ بھی بڑھے گی،اپنے آپ پر احساس ندامت بھی ہو گی اور ایک نئی امید بھی بیدار ہو گی ہر موضوع کے ساتھ انصاف کیا ہے جو بھی لکھا خوب لکھا ہے معلومات سے بھرپور مضامین ہیں ہرمضمون میں ایک نئی چاشنی ہے۔
ان کی تحریر میں درد بھی اور احساس بھی ،نصیحت بھی اور وصیت بھی،طلب بھی اور تڑپ بھی،راہنمائی بھی ہے اور طریقہ کار بھی اسلامیت اور پاکستانیت کے ساتھ انسانیت کا درس بھی جابجا ملے گا۔اسلام سے محبت پاکستان سے پیار اور انسانیت سے ہمدردی ان کے اند رکوٹ کو ٹ کر بھری ہوئی ہے۔آپ کتاب پڑھتے جائیں گے اور حیران ہوتے جائیں گے اس کو پڑھ کر جہاں قاری کے اندرعمل کا جذبہ پیدا ہو گا وہی ایک نئی امید بھی جگے گی،نصرت عزیز نے اپنی کتاب میں الفاظ کا چورن بیچا ہے اور نہ ہی قاری کو اعداد شمار کے گورکھ دھندہ سے مرغوب کیا ہے،گھسے پٹے قصے سنائے ہیں اور نہ ہی قاری کو لبھانے کے لیے مشکل الفاظ کا کھیل کھیلا ہے آپ کو سب سے زیادہ حیرانی اس بات پر ہو گی کہ اپنی کتاب کے لیے کسی مشہورومعروف شخصیت سے تاثرات تک نہ لکھوائے بلکہ جنہوں نے بھی کچھ لکھا ہے وہ سرے سے لکھاری ہی نہیں اس بات کو دیکھ کر مجھ پر یہ آشکارہ ہوا کہ لکھنے کی تاثیر کسی بڑے نامی گرامی شخص سے لکھوانے سے نہیں بلکہ اپنے سچے اور کھرے کردار کی بدولت ملتی ہے اگر آپ جو لکھتے ہیں اور عملی زندگی میں بھی ویسے ہی ہیں تو آپ کے کم لکھے کو بڑی اہمیت ملے گی وگرنہ وقتی طور پر پیسے، سیاسی اور شخصی اثرورسوخ سے آپ کی کتاب تو بک جائے گی لیکن کچھ عرصہ کے بعدوہ لوگوں کے گھروں کے بجائے کباڑیوں کی دکانوں پر پڑے ہوئے ملے گی۔کئی مضامین نے مجھے گھنٹوں روکے رکھا ،ایک واقعہ جو صاحب کتاب کی خدمت کا منہ بولتا ثبوت ہے اس کو پڑھ کر تو میرے دماغ میں سنسنی سی دوڑ گئی اور کافی دیر تک میں اس سے آگے پڑھ ہی نہیں سکاجس میں مصنف بلوچستان کے سیلاب زدگان کے لیے امداد جمع کرنے ایک پسماندہ گاؤں کے سرکاری سکول مین گئے تو وہاں پر غریب بچوں نے جن کے پاس اپنے جیب خرچ کا صرف ایک روپیہ ہی تھا وہ دے دیا تو وہاں پرموجود ایک بچے کے پاس وہ بھی نہیں تھا اس نے دوسرے بچے سے ایک روپیہ ادھار مانگ کر امداد میں اپنا حصہ شامل کیا۔کتاب میں جابجا موتی بکھرے پڑے ہیں ان میں سے صرف ایک موتی قارئین کی نذر اس کو پڑھ کر آپ کو اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے گایہی اقتباس ان کی کتاب اورزندگی کا مقصد بھی ہے۔
”مسائل بے پناہ ہیں اور ان گنت بھی۔۔۔۔مسائل کو گننے اور گنوانے والے بھی بے شمارہیں اور سننے والے بھی لاتعداد۔۔۔۔شاید کہ یہی وجہ ہے جو مسائل گننے،گنوانے والوں کے چہروں پر مایوسی ،دماغوں پر ناکامی اور دلوں میں انجانے خوف کا باعث ہے۔۔۔۔مسائل گننا،گنوانا اورسننا آسان بلکہ بہت آسان ہے مگر۔۔۔۔مگر ان مسائل کو گن کر،گنوا کر اور سن کر ان کا حل بتانا یا حل نکالنا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں اور یہی چہروں پر رونق،دماغوں پرکامیابی اور دلوں پر نڈری کا باعث ہے۔۔۔۔حالات وواقعات کے تناظر میں مسائل کوگننا،گنوانا اور نمایاں کرنا اور پھر ان مسائل کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا اور ان کا حل بتانا یہی میری ”ایک ذرہ سی بات”ہے۔” یہ کتاب ہر گھر ہر فرد اور ہر لائیبریری کے لیے انتہائی ضروری ہے۔یہ کتاب 86 مضامین اور304صفحات پر مشتمل ہے اور قیمت ہے صرف300روپے اس کو جمالیات پبلی کیشنراٹک نے شائع کیا ہے۔
شاہد اقبال شامی اٹک
03126697071