تحریر: عمران احمد راجپوت
حیدرآباد، سندھ
قارئین . گذشتہ دنوں پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے حقوقِ نسواں بل کے حوالے سے ایک قرارداد پیش کی گئی جس میں مرد کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ عورت کی مسلسل نافرمانی پر اسکی اصلاح کیلئے ہلکی مار کا ارتکاب کرسکتا ہے اس تجویز کے بعد سے ملکی و غیر ملکی سطح پر عوامی حلقوں کی جانب سے پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل اور اس کے چیئرمین جناب مفتی مولانامحمد خان شیرانی کومسلسل تنقیدکا نشانہ بنایاجارہا ہے ۔ جوکہ قرارداد میں شامل دیگر شقوں کوپس پشت ڈال کر صرف اِس ایک شق پر طوفان بدتمیزی برپا کئے ہوئے ہیں۔
ہمارے حلقہ احباب میں ہمیں لوگ آزاد اور روشن خیال تصور کرتے ہیں اور اِس میں کوئی شک بھی نہیں لیکن بات جب قرآن میں موجود واضح احکامات کی آجائے تو روشن خیالی کا تقاضہ یہی ہے کہ وحی کی روشنی میں اصلاح فرمائی جائے۔لہذا ہمارا فرض ہے کہ ہم امت کو گمراہ کن پروپگنڈے سے نکال کراصل حقائق سے آگا کریں۔ اِس حوالے سے ہم اپنے قارئین کے سامنے قرآن و حدیث اور شرعی موقف سے واضح طور پر آگہی فراہم کرنا چاہیں گے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی وہ سفارشات جس پر کچھ حلقوں کی جانب سے اصل حقائق کو چھپا کر امت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اُنکی تفصیل کچھ اِس طرح ہے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ عورت کی جانب سے مسلسل نافرمانی کی صورت میں شوہر اس کی اصلاح کے لئے ہلکی مار ، مارسکتا ہے لیکن قرآن و سنت کی روشنی کے مطابق چہر ے پر نہ مارے اور ایسا نہ مارے کہ زخم پڑنے کا اندیشہ ہو جبکہ مارنے کے لئے رومال ، ٹوپی یا پگڑی جیسی نرم چیز کا استعمال کرے ۔اِس کے باوجود اگر عورت سمجھتی ہے کہ اُس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو وہ عدالت سے رجوع کرسکتی ہے ۔
اِس کے علاوہ دیگر تجاویز میں عورت کو شریعت کے فراہم کردہ اصولوں کے مطابق تمام حقوق حاصل ہونگے۔ جس میں عورتوں کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی ۔ عورتوں کو وصیت کرنے اور جج بننے کا حق حاصل ہوگا، عورتوں کو مالکانہ حقوق حاصل ہونگے ،نان نفقہ کی صورت میں خلع کا حق حاصل ہوگا ، عورت اپنے بچوں کو دوسال تک دودھ پلانے کی پابند ہوگی ، ماں کا متبادل دودھ جیسے اشتہارات پر پابندی ہوگی ، شوہر اپنی بیوی کی مرضی کے بغیر اسکی نس بندی نہیں کرواسکے گا ، دورانِ جنگ عورتوں کو جس طرح بے رحمی سے عصمت دری ،تشدد اور قتل وغارت گری کا نشانہ بنایا جاتارہا ہے جیسا کہ کشمیر، افغانستان ، لیبیا ، شام ، عراق،لبنان اور فلسطین میں عورتوں پر ظلم کے خلاف آئے دن اخبارات میں خبریں گردش کرتی رہتی ہیں اِس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مولانا شیرانی نے تجویز پیش کی کے دورانِ جنگ عورتوں پر کسی قسم کی ظلم و ذیادتی نہیں کی جائے گی ۔باشعور لڑکی کو قبول اسلام کا حق حاصل ہوگا اور اسلام چھوڑنے پر عورتوں کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اُن کی اصلاح فرمائی جائیگی ۔عورتوں کے چہروں پر تیزاب پھینکنے والوں کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور فوری سزائیں دی جائیں گی ، عورتوں سے جبری مشقت لینے پر پابندی ہوگی اور ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے سزائیں دی جائینگی۔غیر ملکی مہمانوں کی آمد پر خواتین کی استقبال کے لئے موجودگی پر پابندی ہوگی ،جہیز کے مطالبے اور نمائش پر پابندی لگائی جائے گی ، اکثر دیکھا گیا ہے کہ شدید غصے کی حالت میں شوہر اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے دیتا ہے جس پر بعد میں پچھتاوے اور افسوس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا لہذا مولانا شیرانی نے تجویز پیش کی ہے کہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینا قابلِ تعزیر اور قابل سزا جرم تصور ہوگا۔ تجویز میں مطالبہ رکھا گیا ہے کہ عورت کی قرآن سے شادی جرم تصور کی جائے گی اور مرتکب ہونے پر دس سال قید کی سز ا دی جائے گی ،اِسی طرح عورت کو ونی کرنے پر بھی قابل تعزیر جرم تصور کیا جائے گا اور سزا دی جائے گی،سندھ میں کاروکاری کے نام پر عورت کو قتل کرنے پر موت کی سزا دی جائے گی ،کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والی عورت کا زبردستی مذہب تبدیل کرانے پر قابل تعزیر سزا دی جائے گی۔
قارئین یہ ہیں وہ تجاویز جو اسلامی نظریاتی کونسل نے حقوق نسواں بل میں شامل کرنے کی سفارش کی ہے آئیں دیکھتے ہیں قرآن و سنت کی روشنی میں ان تجاویز کی کیا حیثیت ہے ۔
جیسا کہ قرآن پاک کی سورۃ النساء کی آیت نمبر۳۴ میں اللہ رب العزت نے واضح بیان فرمایا ہے ۔
مردحاکم ہیں عورتوں پر اِس لئے کہ بڑائی دی اللہ نے ایک کو ایک پر اور اِس واسطے کہ خرچ کئے انھوں نے اپنے مال ،پھر جو عورتیں نیک ہیں ، تابعدار ہیں ،جونگہبانی کرتی ہیں پیٹھ پیچھے اللہ کی حفاظت سے، اور جن کی بدخواہی کا ڈر ہو تم کو تو ان کو سمجھاؤ پھر بھی نہ مانیں تو جدا کرلوان سے بستر پھر بھی نہ مانیں تو مارو انھیں(ہلکی مار)پھر اگر کہا مانیں تمھارا تو رک جاؤ اورمت تلاش کروان پر راہ الزام کی، بے شک
اللہ ہے سب سے اوپر بڑا۔(ترجمہ معارف القران)۔
اسکے علاوہ تفسیر ابنِ کثیر میں بیان ہے کہ۔
جن عوتوں کی سرکشی سے تم ڈرو یعنی جو تم سے بلند ہونا چاہتی ہو، نافرمانی کرتے ہوئے لاپرواہی برتتی ہو، دشمنی رکھتی ہو تو پہلے اسے سمجھاؤ یعنی زبانی نصیحت کرو ہر طرح سے سمجھاؤ اللہ کا خوف دلاؤ حقوقِ زوجیت یاد دلاؤ ۔
اُس سے کہو کہ دیکھو خاوند کے حقوق اتنے ہیں کہ اللہ کے رسول جنابِ نبی کریمﷺ نے فرمایا ؛
اگر میں کسی کو حکم کرسکتا ماسوائے اللہ کے دوسرے کو سجدہ کرنے کا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے کیونکہ عورت پر سب سے بڑا حق اُس کے خاوند کا ہے۔
صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول جنابِ نبی کریم ﷺ نے فرمایا؛
کہ عورت کھلانے پلانے اور کپڑا پہنانے سے بھی خوش نہ ہوتو اجازت ہے اسے ڈانٹ ڈپٹ اور ہلکی مار سے راہ راست پر لاؤ ۔لیکن خیال رہے کہ اُس کے منہ پر نہ مارو اور نہ ہی گالیاں نکالو غصے میں بات چیت نہ بھی کرے تو اسے گھر سے نہ نکالو۔
صحیح مسلم میں ہے کہ حجتہ الودع کے خطبہ میں آپﷺ نے فرمایا عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہا کرو وہ تمھاری خدمت گزار اور ماتحت ہیں۔
ایک جگہ مولانا احمد سعید دہلویؒ لکھتے ہیں ۔
اللہ رب العزت نے مرد کی حاکمیت اس کی برتری اور عورتوں کی محکومیت اور اطاعت و فرمانبرداری کا ذکر فرمانے کے بعد مردوں کو تلقین کی کہ جو عورتیں خاوندکی نافرمانی کریں اور تم کو قرائن سے انکا قصور معلوم ہوجائے خواہ وہ ان کے قول سے ثابت ہویاان کے فعل سے مثلاً کوئی بات ان سے کہو اور وہ سخت لہجے میں جواب دیں یا چیخ کر بولیں اور انھیں حکم دو تو تعمیل نہ کریں یہ وہ امور ہیں جن سے عورت کی بدخواہی ،بددماغی اور اس کی نافرمانی معلوم ہوتی ہے۔ لہذاایسی صورت میں ا ن کی اصلاح کرو، ورنہ اِس طرح کی بدمزاج اور ناشزہ عورت سے ازدواجی زندگی تلخ ہوجائے گی ۔ اصلاح کے تین طریقے بیان کئے گئے ہیں اگر عورت گمراہی سے باز نہ آئے تو ماربھی سکتے ہو مگر ایسا مارنا جس کو ضرب خفیف کہا جاتا ہے یعنی لکڑی سے نہ مارو اور ایسا نہ مارو کہ اُس کی ہڈی ٹوٹ جائے یا زخم ہوجائے ۔ حضرت حسن بصری ؒ کا قول ہے ایسا نہ مارو جس سے بدن پر کوئی نشان پڑجائے بلکہ مسواک یا کپڑے کے رومال کا کوڑا بنا کرمارو۔(کشف الرحمن)
مولانا امین احسن اصلاحی ؒ لکھتے ہیں آخری درجے میں مرد جسمانی سزا دینے کا اختیار رکھتا ہے لیکن یہ اختیار صرف اِس حد تک ہونا چاہیے جس حد تک ایک معلم و مؤدب اپنے کسی زیر تربیت شاگرد کو دے سکتا ہے۔(تدبرقرآن)
قارئین خود فیصلہ کریں مذکورہ بالا تمام تجاویز میں کونسی ایسی تجویز ہے جو قرآن و حدیث سے متصادم نظر آتی ہو جس میں عورت کا استحصال کیا گیا ہو یا اسے مرد کا محکوم بنانے کی سازش گڑھی گئی ہو۔ بلکہ دیکھا جائے تو مذکورہ بالا تمام تجاویز عورتوں کے حقوق کی پاسداری کرتی نظر آتی ہیں جہاں عورت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ عورت کے بنیادی حقوق کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے ۔لہذا اِس سوچ کو پروان چڑھانا کہ تجاویز میں مرد کو عورت پر تشدد کا اختیار دینے سے عورت مرد کی لونڈی یا غلام بن جائے گی یہ تاثر سراسر غلط ہے ۔اگر لوگ غوروفکر سے کام لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے دنیا میں تخلیقِ انسانی کے وقت اُسکی فطرت کو مدِنظر رکھتے ہوئے بحیثیت انسان ایک ہی وجود سے مرد اور عورت پر مشتمل مکمل ومجسم جوڑے کی تخلیق کی، جس کا مقصد ایک دوسرے کی مدد وتعاون اور رہنمائی کے ذریعے کائنات کو مسخر کرکے اشراف المخلوقات کے درجہ پرفائض ہوناتھا۔یہی وجہ ہے کہ ربِ کائنات نے دونوں کے وجود کو بحیثیت انسانی برابری کی سطح پرر کھا ہے اگر کہیں ایک دوسرے کو ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے توصرف وصرف ذمہ داری کے تعین کے لئے۔