چینی کی پاکستان بھر میں ملیں تین ہاتھوں تک محدود ہیں اور وہ تینوں ہاتھ اس وقت پاکستان کے حکمران ہیں یا تو پنجاب میں وزیراعظم پاکستان کی ہیں سندھ میں صدر پاکستان اور چینی کی قیمتوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے اتھارٹی کے چیئرمین کی بھی اپنی شوگر ملز ہیں تو پاکستانی عوام کس طرح سے یہ سوچ سکتے ہیں کہ چینی کی قیمتیں کم ہوں گیں یا انہیں مناسب نرخوں پر چینی دستیاب ہوگی مصنوعی بحران پیدا نہیں ہوگا مصنوعی قلت نہیں ہوگی مصنوعی طور پر قیمتیں نہیں بڑھائی جائیں گی ہینڈلنگ کہاں کہاں پر ہوگی ڈیلرز کس طرح سے فائدہ اٹھا پائیں گے یہ سب کچھ کا دائرہ صرف ان تین قوتوں کے ارد گرد گھومتا ہے اور مالکان ہی یہ فیصلہ کر پاتے ہیں کہ قوم کو چینی کس نرخ پر دینی ہے 80 روپے والی چینی سستے رمضان بازاروں کے ذریعے تو 130 روپے میں محدود پیمانے پر دستیاب ہے لیکن مارکیٹ میں دیہی علاقوں میں 200 سے 210 اور شہری علاقوں میں 190 روپے تک چینی فی کلو مل رہی ہے یہ اچانک قیمتوں کا بڑھنا اربوں روپے کا یک دم فائدہ اور قوم سے قیمتوں کی مد میں اربوں روپے زیادہ وصولی اس زمرے میں آتی ہے جیسا کہ بجلی کی قیمتیں آگے پیچھے کر کے ائی پیز جن کے مالکان بھی اسمبلی میں موجود ہیں کو دی گئی اور قوم چیختی چلاتی رہ گئی جن کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اگر وہ کہیں احتجاج بھی کریں تو ان پر مقدمات کی بھرمار اور پولیس کے ڈنڈے سر توڑ دیتے ہیں انہیں بولنے کا بات کرنے کا اپنے حقوق مانگنے کا کہیں کوئی اختیار نہیں ہے 26 ویں ترمیم کے بعد عدالتوں کے اختیارات بھی محدود ہو چکے ہیں وہاں سے بھی انہیں کچھ حاصل وصول نہیں ہوگا جیسا کہ تیزی سے خوردہ چینی کی قیمتوں میں جنوری کے بعد سے ایک بار پھر غیر معمولی سے 130 روپے فی کلو گرام سے 180 روپے تک اضافہ ہوا ۔ ہے۔ یہ جاری کرشنگ سیزن کے باوجود ہے اور حکومت کے ساتھ انڈسٹری کے اس عزم کے باوجود کہ گزشتہ سال اپنے اضافی اسٹاک کو برآمد کرنے کی زیادہ اجازت کے بدلے میں خوردہ نرخوں کو 140-145 روپے سے آ گےنہیں جانے دیا جائے گا۔ مینویلچر رز کو ان کے وعدے پر قائم رکھے گا کون ان کے بجائے یا وقتا فوقتا قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا باعث بننے والے بنیادی ساختی مسائل کو حل کرنے کے بجائے حکومت نے خام چینی کی درآمد کے منصوبوں کا اعلان کرتے ہوئے جواب دیا۔ چینی کو درآمد کرنا اور اسے رمضان بازاروں میں سبسڈی دینا صرف عارضی اور مہنگا حل ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت چینی کی تجارت کو مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کرے۔ اور گنے کی فصل اور چینی کی قیمتوں کے تعین کے ساتھ ساتھ اجناس کی درآمد اور برآمد کو کنٹرول کر کے مارکیٹ میں مداخلت بند کرے۔ اگر ان تجاویز پر عمل نہ کیا گیا اور مل مالکان کے فائدے کو ہی مدنظر رکھا گیا تو پھر یہی حال رہے گا اور جس طرح سے کرشنگ سیزن کے اخر میں کچھ رقم گنے کے کاشتکاروں کو معقول ملی ہے اسی طرح اربوں روپے عام صارفین کی بدولت چینی کے بڑے ڈیلرز ہینڈلنگ کرنے والے اور مل مالکان کو وصول ہوں گے اگر درست طریقہ سے ریگولیٹ کر کے بروقت عمل درآمد کرایا جاتا تو چینی کا یہ مصنوعی قیمتوں کا بحران پیدا نہ ہوتا اور ہم سارے ماہ رمضان میں بھی کم قیمت پر چینی حاصل کر کے اپنا گزارا کرتے 85 فیصد دیہی ابادی جو چینی کا زیادہ استعمال کرنے کی مارکیٹ ہے ان سے ہی سب سے زیادہ پیسے وصول کیے جا رہے ہیں جبکہ شہروں میں چیکنگ کی بنا پر کہیں نہ کہیں مقررہ نرخوں پر چینی دستیاب ہے لیکن یہ بھی 190 سے آگے ملتی ہے جبکہ دیہات میں 200 روپے سے بھی آگے ملتی ہے یوں فائدے میں کون رہا مل مالکان اور ریگولیٹ کرنے والے جبکہ گھاٹے میں کون رہا وہ یہ عوام ہے جس نے ہمیشہ بجلی گیس پانی زرعی مداخل سے لے کر چینی پر بھی زیادہ قیمتیں ادا کی ہیں