• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

تیزی سے بڑھتی چینی کی قیمتیں .. ریاض احمد جکھڑ

webmaster by webmaster
مارچ 20, 2025
in کالم
0
رائے عامہ ,  دائمی بیماریاں موت کا سبب . ریاض احمد جکھڑ

چینی کی پاکستان بھر میں ملیں تین ہاتھوں تک محدود ہیں اور وہ تینوں ہاتھ اس وقت پاکستان کے حکمران ہیں یا تو پنجاب میں وزیراعظم پاکستان کی ہیں سندھ میں صدر پاکستان اور چینی کی قیمتوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے اتھارٹی کے چیئرمین کی بھی اپنی شوگر ملز ہیں تو پاکستانی عوام کس طرح سے یہ سوچ سکتے ہیں کہ چینی کی قیمتیں کم ہوں گیں یا انہیں مناسب نرخوں پر چینی دستیاب ہوگی مصنوعی بحران پیدا نہیں ہوگا مصنوعی قلت نہیں ہوگی مصنوعی طور پر قیمتیں نہیں بڑھائی جائیں گی ہینڈلنگ کہاں کہاں پر ہوگی ڈیلرز کس طرح سے فائدہ اٹھا پائیں گے یہ سب کچھ کا دائرہ صرف ان تین قوتوں کے ارد گرد گھومتا ہے اور مالکان ہی یہ فیصلہ کر پاتے ہیں کہ قوم کو چینی کس نرخ پر دینی ہے 80 روپے والی چینی سستے رمضان بازاروں کے ذریعے تو 130 روپے میں محدود پیمانے پر دستیاب ہے لیکن مارکیٹ میں دیہی علاقوں میں 200 سے 210 اور شہری علاقوں میں 190 روپے تک چینی فی کلو مل رہی ہے یہ اچانک قیمتوں کا بڑھنا اربوں روپے کا یک دم فائدہ اور قوم سے قیمتوں کی مد میں اربوں روپے زیادہ وصولی اس زمرے میں آتی ہے جیسا کہ بجلی کی قیمتیں آگے پیچھے کر کے ائی پیز جن کے مالکان بھی اسمبلی میں موجود ہیں کو دی گئی اور قوم چیختی چلاتی رہ گئی جن کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اگر وہ کہیں احتجاج بھی کریں تو ان پر مقدمات کی بھرمار اور پولیس کے ڈنڈے سر توڑ دیتے ہیں انہیں بولنے کا بات کرنے کا اپنے حقوق مانگنے کا کہیں کوئی اختیار نہیں ہے 26 ویں ترمیم کے بعد عدالتوں کے اختیارات بھی محدود ہو چکے ہیں وہاں سے بھی انہیں کچھ حاصل وصول نہیں ہوگا جیسا کہ تیزی سے خوردہ چینی کی قیمتوں میں جنوری کے بعد سے ایک بار پھر غیر معمولی سے 130 روپے فی کلو گرام سے 180 روپے تک اضافہ ہوا ۔ ہے۔ یہ جاری کرشنگ سیزن کے باوجود ہے اور حکومت کے ساتھ انڈسٹری کے اس عزم کے باوجود کہ گزشتہ سال اپنے اضافی اسٹاک کو برآمد کرنے کی زیادہ اجازت کے بدلے میں خوردہ نرخوں کو 140-145 روپے سے آ گےنہیں جانے دیا جائے گا۔ مینویلچر رز کو ان کے وعدے پر قائم رکھے گا کون ان کے بجائے یا وقتا فوقتا قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا باعث بننے والے بنیادی ساختی مسائل کو حل کرنے کے بجائے حکومت نے خام چینی کی درآمد کے منصوبوں کا اعلان کرتے ہوئے جواب دیا۔ چینی کو درآمد کرنا اور اسے رمضان بازاروں میں سبسڈی دینا صرف عارضی اور مہنگا حل ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت چینی کی تجارت کو مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کرے۔ اور گنے کی فصل اور چینی کی قیمتوں کے تعین کے ساتھ ساتھ اجناس کی درآمد اور برآمد کو کنٹرول کر کے مارکیٹ میں مداخلت بند کرے۔ اگر ان تجاویز پر عمل نہ کیا گیا اور مل مالکان کے فائدے کو ہی مدنظر رکھا گیا تو پھر یہی حال رہے گا اور جس طرح سے کرشنگ سیزن کے اخر میں کچھ رقم گنے کے کاشتکاروں کو معقول ملی ہے اسی طرح اربوں روپے عام صارفین کی بدولت چینی کے بڑے ڈیلرز ہینڈلنگ کرنے والے اور مل مالکان کو وصول ہوں گے اگر درست طریقہ سے ریگولیٹ کر کے بروقت عمل درآمد کرایا جاتا تو چینی کا یہ مصنوعی قیمتوں کا بحران پیدا نہ ہوتا اور ہم سارے ماہ رمضان میں بھی کم قیمت پر چینی حاصل کر کے اپنا گزارا کرتے 85 فیصد دیہی ابادی جو چینی کا زیادہ استعمال کرنے کی مارکیٹ ہے ان سے ہی سب سے زیادہ پیسے وصول کیے جا رہے ہیں جبکہ شہروں میں چیکنگ کی بنا پر کہیں نہ کہیں مقررہ نرخوں پر چینی دستیاب ہے لیکن یہ بھی 190 سے آگے ملتی ہے جبکہ دیہات میں 200 روپے سے بھی آگے ملتی ہے یوں فائدے میں کون رہا مل مالکان اور ریگولیٹ کرنے والے جبکہ گھاٹے میں کون رہا وہ یہ عوام ہے جس نے ہمیشہ بجلی گیس پانی زرعی مداخل سے لے کر چینی پر بھی زیادہ قیمتیں ادا کی ہیں

Previous Post

افغانستان دہشتگردوں کی آماجگاہ بنا ہوا، پاکستان میں لگی آگ خطے کے دیگر ممالک تک پھیل سکتی ہے: سپیکر قومی اسمبلی

Next Post

معاون خصوصی وزیراعلیٰ پنجاب برائے پرائس کنٹرول و کموڈیٹیز مینجمنٹ سلمیٰ بٹ کاایک روزہ دورہ لیہ

Next Post
معاون خصوصی وزیراعلیٰ پنجاب برائے پرائس کنٹرول و کموڈیٹیز مینجمنٹ سلمیٰ بٹ کاایک روزہ دورہ لیہ

معاون خصوصی وزیراعلیٰ پنجاب برائے پرائس کنٹرول و کموڈیٹیز مینجمنٹ سلمیٰ بٹ کاایک روزہ دورہ لیہ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025

چینی کی پاکستان بھر میں ملیں تین ہاتھوں تک محدود ہیں اور وہ تینوں ہاتھ اس وقت پاکستان کے حکمران ہیں یا تو پنجاب میں وزیراعظم پاکستان کی ہیں سندھ میں صدر پاکستان اور چینی کی قیمتوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے اتھارٹی کے چیئرمین کی بھی اپنی شوگر ملز ہیں تو پاکستانی عوام کس طرح سے یہ سوچ سکتے ہیں کہ چینی کی قیمتیں کم ہوں گیں یا انہیں مناسب نرخوں پر چینی دستیاب ہوگی مصنوعی بحران پیدا نہیں ہوگا مصنوعی قلت نہیں ہوگی مصنوعی طور پر قیمتیں نہیں بڑھائی جائیں گی ہینڈلنگ کہاں کہاں پر ہوگی ڈیلرز کس طرح سے فائدہ اٹھا پائیں گے یہ سب کچھ کا دائرہ صرف ان تین قوتوں کے ارد گرد گھومتا ہے اور مالکان ہی یہ فیصلہ کر پاتے ہیں کہ قوم کو چینی کس نرخ پر دینی ہے 80 روپے والی چینی سستے رمضان بازاروں کے ذریعے تو 130 روپے میں محدود پیمانے پر دستیاب ہے لیکن مارکیٹ میں دیہی علاقوں میں 200 سے 210 اور شہری علاقوں میں 190 روپے تک چینی فی کلو مل رہی ہے یہ اچانک قیمتوں کا بڑھنا اربوں روپے کا یک دم فائدہ اور قوم سے قیمتوں کی مد میں اربوں روپے زیادہ وصولی اس زمرے میں آتی ہے جیسا کہ بجلی کی قیمتیں آگے پیچھے کر کے ائی پیز جن کے مالکان بھی اسمبلی میں موجود ہیں کو دی گئی اور قوم چیختی چلاتی رہ گئی جن کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اگر وہ کہیں احتجاج بھی کریں تو ان پر مقدمات کی بھرمار اور پولیس کے ڈنڈے سر توڑ دیتے ہیں انہیں بولنے کا بات کرنے کا اپنے حقوق مانگنے کا کہیں کوئی اختیار نہیں ہے 26 ویں ترمیم کے بعد عدالتوں کے اختیارات بھی محدود ہو چکے ہیں وہاں سے بھی انہیں کچھ حاصل وصول نہیں ہوگا جیسا کہ تیزی سے خوردہ چینی کی قیمتوں میں جنوری کے بعد سے ایک بار پھر غیر معمولی سے 130 روپے فی کلو گرام سے 180 روپے تک اضافہ ہوا ۔ ہے۔ یہ جاری کرشنگ سیزن کے باوجود ہے اور حکومت کے ساتھ انڈسٹری کے اس عزم کے باوجود کہ گزشتہ سال اپنے اضافی اسٹاک کو برآمد کرنے کی زیادہ اجازت کے بدلے میں خوردہ نرخوں کو 140-145 روپے سے آ گےنہیں جانے دیا جائے گا۔ مینویلچر رز کو ان کے وعدے پر قائم رکھے گا کون ان کے بجائے یا وقتا فوقتا قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا باعث بننے والے بنیادی ساختی مسائل کو حل کرنے کے بجائے حکومت نے خام چینی کی درآمد کے منصوبوں کا اعلان کرتے ہوئے جواب دیا۔ چینی کو درآمد کرنا اور اسے رمضان بازاروں میں سبسڈی دینا صرف عارضی اور مہنگا حل ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت چینی کی تجارت کو مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کرے۔ اور گنے کی فصل اور چینی کی قیمتوں کے تعین کے ساتھ ساتھ اجناس کی درآمد اور برآمد کو کنٹرول کر کے مارکیٹ میں مداخلت بند کرے۔ اگر ان تجاویز پر عمل نہ کیا گیا اور مل مالکان کے فائدے کو ہی مدنظر رکھا گیا تو پھر یہی حال رہے گا اور جس طرح سے کرشنگ سیزن کے اخر میں کچھ رقم گنے کے کاشتکاروں کو معقول ملی ہے اسی طرح اربوں روپے عام صارفین کی بدولت چینی کے بڑے ڈیلرز ہینڈلنگ کرنے والے اور مل مالکان کو وصول ہوں گے اگر درست طریقہ سے ریگولیٹ کر کے بروقت عمل درآمد کرایا جاتا تو چینی کا یہ مصنوعی قیمتوں کا بحران پیدا نہ ہوتا اور ہم سارے ماہ رمضان میں بھی کم قیمت پر چینی حاصل کر کے اپنا گزارا کرتے 85 فیصد دیہی ابادی جو چینی کا زیادہ استعمال کرنے کی مارکیٹ ہے ان سے ہی سب سے زیادہ پیسے وصول کیے جا رہے ہیں جبکہ شہروں میں چیکنگ کی بنا پر کہیں نہ کہیں مقررہ نرخوں پر چینی دستیاب ہے لیکن یہ بھی 190 سے آگے ملتی ہے جبکہ دیہات میں 200 روپے سے بھی آگے ملتی ہے یوں فائدے میں کون رہا مل مالکان اور ریگولیٹ کرنے والے جبکہ گھاٹے میں کون رہا وہ یہ عوام ہے جس نے ہمیشہ بجلی گیس پانی زرعی مداخل سے لے کر چینی پر بھی زیادہ قیمتیں ادا کی ہیں

No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.