پاکستان میں خط غربت سے نیچے رہنے والوں کی تعداد سات کروڑ سے زائد ہے جو خوراک سے لے کر تعلیم اور علاج تک کی سہولیات حاصل کرنے سے قاصر ہیں یہ ایک بہت بڑی الارمنگ پوزیشن ہے جو ملک کو غربت کی دلدل میں دھکیل رہی ہے جس پر کسی بھی سیگمنٹ میں کام نہیں کیا جا رہا کہ انہیں کس طرح سے اوپر لایا جائے ہمارا ہر روز ایک طبقہ کو غربت کی لکیر کے نیچے لے جا رہا ہے جس کا بنیادی سبب ملک میں معاشی و سیاسی عدم استحکام اور اس کے نتیجہ یعنی پیدا ہونے والے عوامل ہیں جنہیں ایڈریس کرنے کی بجائے حکومت وقت اپنے زور جبر اور ایسے ہتھکنڈوں سے جو عوام میں پذیرائی کے بجائے نفرت کا باعث بنتے ہیں عمل پیرا ہے جس کے سبب فرسٹریشن ذہنی دباؤ کے امراض میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور حکومتی عدم مساوات کی وجہ سے ملک میں دائمی بیماریاں موت کا سبب بن رہی ہیں جن کی روک تھام محکمہ صحت کے ساتھ ساتھ حکومتی ایمرجنسی لانے سے ممکن ہے کیونکہ طبی ایمرجنسی جس میں ہسپتالوں میں ادویات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ملک کی اگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے جو شہریوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کی جانب راغب کر سکتی ہے ملاوٹ شدہ اشیاء کی فروخت کے لیے پاکستانی قوانین انتہائی کمزور ہیں جنہیں اتنا پاور فل بنانا ہوگا اور سخت نافذ کرنا ہوگا جس طرح سے دنیا میں ملاوٹ کی روک تھام کے لیے قوانین پر عمل کیا جا رہا ہے جس کے سبب ان میں شرح اموات اور بیماریوں کی شرح میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے اور اسودہ حال معاشرے تشکیل پا رہے ہیں لیکن پاکستان میں معاشی و سیاسی عدم استحکام شہریوں کو غربت کے ساتھ ساتھ بیماریوں کی لپیٹ میں لے رہا ہے جو ایک خطرناک صورتحال اختیار کر جائے گا کیونکہ ڈبلیو ایچ او کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غیر متعدی امراض این سی ڈی اب پاکستان میں سالانہ 60 فیصد تک پہنچ چکی ہے جو زیادہ اموات کا سبب بنتی ہیں وبائی امراض سے لے کر دائمی صحت کی حالتوں جیسے زیابطیس ،قلبی امراض سی وی ڈی اور موٹاپا کی طرف یہ اہم وبائی تبدیلی ملک کے صحت کے مرض میں ایک خطرناک تبدیلی کا اشارہ دیتی ہے پاکستان اب زیابطیس کے پھیلاؤ میں عالمی سطح پر سرے فہرست ہے دل کی بیماری جو کہ این سی ڈی سے متعلق 55 فیصد اموات کا باعث بن رہی ہے سالانہ ساڑھے چار لاکھ سے زائد جانیں لینے کا سبب ہے طبی ماہرین ابادی کی ناقص غذائی عادات بدلتے ہوئے طرز زندگی اور جسمانی سرگرمی کی کمی کو کلیدی معاون قرار دیتی ہے پاکستان کا صحت کا بنیادی ڈھانچہ پہلے ہی بہت کمزور ہے اور این سی ڈیز کے بڑھتے ہوئے واقعات مزید وسائل کا مطالبہ کرتے ہیں پاکستان میں متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ سے نمٹنے میں ضرور پیشرفت ہوئی ہے جبکہ توجہ دائمی بیماریوں کی روک تھام اور انتظام پر مرکوز کرنی چاہیے کیونکہ جہاں عام بیماریوں کی روک تھام کے لیے کوششیں باراور ثابت ہو رہی ہیں وہاں اگر دائمی بیماریوں کی روک تھام کے لیے حکومت اپنا فنڈ مختص کرتی ہے اور دنیا بھر کے باہر ڈاکٹرز کی مدد لیبارٹیز کی سہولیات سے ایسا کرنے میں پیشرفت کرے گی تو پاکستان میں دائمی بیماریوں کے سبب شرح اموات میں خاطرخواہ کمی واقع ہوگی جو حکومت کی نیک نامی کے ساتھ ساتھ ان کی اصولی ذمہ داری بھی بنتی ہے ایسا کرتے ہوئے حکومتی صحت پالیسی اس طرز پر مرتب کی جائے کہ متعدی امراض کے خاتمے پر توجہ کے ساتھ ساتھ دائمی بیماریوں کی روک تھام پر بھی توجہ دی جائے اور اسے ختم کرنے کے لیے شہریوں میں غذائی استعمال کی اگاہی اور علاج معالجہ کی معیاری سہولیات گراس روٹ لیول تک پہنچائی جائیں