پاکستان ائرفورس سے ریٹائرمنٹ اور پی آئی اے کی خدمات کے بعد ائرمارشل محمد اصغر خان نے ایک سیاسی جماعت *”تحریک استقلال”* کی بنیاد اس عزم کے ساتھ رکھی کہ مملکت خداداد پاکستان کی سماجی ترقی، سیاسی استحکام ، ملکی تعمیر و ترقی ، یکجہتی، امن اور سیاسی اداروں کی مضبوطی کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کیا جائے۔
قائد محترم ائرمارشل محمد اصغر خان جو کہ 17 جنوری 1921ء کو جموں کشمیر میں پیدا ہوئے، اپنی تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے مکمل کرنے کے بعد رائل انڈین ائرفورس کو جوائن کرتے ہیں۔ اور 1947ء میں پاکستان ائرفورس میں شامل ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب پی اے ایف کے انگریز چیف میک ڈونلڈ کا وقت ختم ہوا تو محمد اصغر خان ائرمارشل پرموٹ ہوتے پاکستان ائرفورس کے پہلے پاکستانی چیف بنے۔ اسی لیے وہ پاکستان ائرفورس کے باپ کہلاتے ہیں۔ ائرمارشل محمد اصغر خان صاحب کا یہ اعزاز بھی ہے کہ آپ ائرفورس کے کم عمر ترین چیف تھے اس وقت آپ کی عمر صرف 36 سال تھی۔ آپ کی پیشہ وارانہ زندگی میں بےشمار کامیابیاں اور ان گنت کارنامے تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے ہیں۔ گو کہ آپ 22 جولائی 1965ء کو ریٹائر ہو گئے تھے لیکن پھر بھی 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں آپ نے شامل ہوتے دشمن کو وہ سب سکھایا کہ وہ آج بھی نہ بھولے۔ آپ کی بہادری اور پیشہ ورانہ خدمات کے عوض حکومت پاکستان نے آپ کو ہلال پاکستان اور ہلال قائداعظم تو دیے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کو اور بھی بہت سے اعزازات پاکستان اور بیرونی دنیا سے بھی ملے۔ پاکستان کے اس عظیم ہیرو کو پاکستانی عوام نے *” شاہین پاکستان”* کے نام سے پکارتے اپنی محبت کا اظہار کیا۔
جب ایک ایماندار، مخلص اور باصلاحیت شخص ملک میں سیاسی افراتفری، ملٹری ڈکٹیٹر کا حکومت پہ قبضہ دیکھے گا تو یقیناً وہ اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہے گا۔ کچھ ایسی ہی کیفیت نے جناب ائرمارشل محمد اصغر خان صاحب کو بھی سیاسی طور متحرک کرتے تحریک استقلال کے قیام کی طرف مائل کیا۔ اسی سچے اور مخلص شخص نے اچھے سرگرم افراد کے ساتھ مل کر انصاف، امن، سیاسی استحکام اور ملٹری عمل دخل کے بغیر سیاسی ٹیم بنائی اور جدوجہد شروع کردی۔ جس کے نتیجے میں بہت سی مثبت تبدیلیاں بھی آئیں۔
تحریک استقلال گو کہ 1970ء کے انتخابات میں خاطرخواہ کامیابی نہ حاصل کر سکی لیکن یہ پاکستان کی واحد پارٹی تھی جس نے سیاسی افراتفری اور پاکستان کی سالمیت کی خاطر حکومت وقت پہ بارہا دباؤ ڈالا کہ وہ الیکشن میں جیتنے والی پارٹی کو اقتدار منتقل کرکے پاکستان کو دولخت ہونے سے بچائے۔ اپنا ملٹری بیک گراؤنڈ ہونے کے باوجود ائرمارشل محمد اصغر خان نے ملٹری کے فوج میں عمل دخل کو سب سے زیادہ ہدف تنقید بنایا۔ تحریک استقلال نے ہمیشہ ایک سیاسی انسٹیٹیوٹ کا رول ادا کیا جہاں ممبران کو ایک مثبت اور صاف ستھری سیاست کی ترغیب ملی۔ اسمبلی میں طاقتور نہ ہونے کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو ایک ٹف ٹائم تحریک استقلال نے ہی ائرمارشل محمد اصغر خان صاحب کی قیادت میں دیا۔ تحریک استقلال کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ قائد محترم ائرمارشل محمد اصغر خان صاحب مغربی پاکستان کے واحد لیڈر تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان میں سیاسی افراتفری کے دوران بھی جلسہ کیا اور وہاں کی عوام کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان سے علیحدگی کی طرف نہ جائیں جبکہ اس دور میں حکومت کے پجاری ادھر تم ادھر ہم کی لہر چلارہے تھے۔
بھٹو کی ظالمانہ حکومت کے خلاف ایک مضبوط اتحاد ( پاکستان قومی اتحاد ، پی این اے) بنانے میں بھی تحریک استقلال اور قائد محترم کا بہت اہم کردار رہا۔ گو کہ ذوالفقار علی بھٹو سے سیاسی اختلاف تھا لیکن 5 جولائی 1977ء کے جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لاء کی بھی سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر مخالفت تحریک استقلال اور قائد محترم نے ہی کی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کی حکومت میں شمولیت اور وزیراعظم بننے کی پیشکش کو بھی ماننے کی بجائے اس کی مخالفت کرنے کو ائرمارشل محمد اصغر خان صاحب نے ہی ترجیح دی۔ اس مخالفت اور مزاحمت کے نتیجے میں ائرمارشل محمد اصغر خان صاحب کو 16 اكتوبر 1979ء سے 2 اکتوبر 1984ء تک ہاوس اریسٹ (House Arrest) کیا گیا۔ گو کہ مفادات سیاست کا بازار دن بدن بڑھتی گیا لیکن تحریک استقلال نے اپنے اصولوں پہ قائم رہتے سیاسی کمزوری کو تو قبول کر لیا لیکن سودے بازی بھی نہ کی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں قائد محترم ائرمارشل محمد اصغر خان اور تحریک استقلال سے عشق ہے۔
تحریک استقلال کی بحالی اور ائرمارشل صاحب کی انہی کے اصولوں پر چلاتے سرگرم ہونا انتہائی خوش آئند عمل ہے۔
تحریر: افتخار علی خان مغل( دبئی)