• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

بڑھتی عمر کے نوجوان ,تحریر . مہر کامران تھند

webmaster by webmaster
اگست 27, 2020
in کالم
0
بڑھتی عمر کے نوجوان  ,تحریر . مہر کامران تھند

چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک تحریر گردش کرتی رہی جس میں ایک لائن پر میری نظر رک گئی کہ کچھ بچے اپنی تعلیم کم عمری میں مکمل کرلیتے ہیں اور کچھ دیر بعد ، کچھ کو سرکاری  نوکری جلدی مل جاتی ہے اور کئی بڑھتی عمر کے ساتھ اور بزرگی میں بھی سرکاری نوکری کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔

تب میں نے غور کیا کہ ہمارے نوجوان واقعی بوڑھے ہوتے جارہے ہیں ، عمریں بڑھ رہی ہیں تو کہیں ڈھل بھی رہی ہیں، لیکن سرکاری و غیر سرکاری ادارے ، کالجز ، یونیورسٹیاں سالانہ سینکڑوں ہزاروں نوجوانوں کے ہاتھوں میں ڈگریاں تھما کر بے روزگاری کے جہنم میں دھکیل رہی ہیں۔تعلیم کے مکمل ہونے کی خوشی جہاں نوجوانوں کو ہوتی ہے تو اس سے کہیں زیادہ خوشی ماں نے چادر اور بہن نے دوپٹہ کے پلو سے باندھ رکھی ہوتی ہے اور جب یہ خوشی والد کی پگ میں گھستی ہے تو پگ میں ایک الگ سا تناو محسوس کرتا ہے ، ایسی ہی خوشی کہیں بھائی کی نظر میں تو کہیں چاچا ، ماما اور دیگر بزرگ رشتہ داروں کی آنکھوں میں ایک چمک لے کر آتی ہے ایسی ہی خوشی کو لے کر بچے چہک رہے ہوتے ہیں تو کہیں دور یا نزدیک بیٹھی خواتین آنگن میں اٹھکیلیاں کرتی لڑکیوں کو جاگتے ، سوتے خوابوں میں سرسبز و ست رنگی فضائیں ، بادلوں کی سفیدی کے پیچھے گرتی سورج کی لال پیلی کرنوں اور بارش کے قطروں سے نکلتی قوس قزاح اچھی لگنے لگتی ہے۔ تو ایسے میں خاندانوں کے درمیان تعلیم یافتہ نوجوانوں کی عزت و تکریم میں اضافہ ہوجاتا ہے ،کچھ دنوں کی ان خوبصورت وادیوں سے جب واپسی ہوتی ہے تو سرکاری اداروں کے اخبارات اشتیہارات، فوٹو سٹوڈیو پر ٹائی لگی تصویریں اور فوٹو سٹیٹ سے سرٹیفکیٹ کی کاپیوں کے بنڈل ، ڈاکخانوں اور کورئیر دفاتر کی لائینوں میں لگ کر درخواستیں بھیجی جارہی ہوتی ہیں تو ٹائپ رائٹر کی ٹک ٹک ، اسٹامپ کی ٹھاہ ٹھاہ اور ہاتھ میں پکڑے اس امید پر جمع کرادیتے ہیں کہ مستقبل میں اچھی نوکری ہوگی ۔ لیکن جب دن ہفتوں ، اور ہفتے مہینوں کے بعد سالوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں لیکن کوئی چٹھی واپس نہیں آتی اور کہیں قسمت والوں پر خدا مہربان ہوجاتا ہے تو جلائے گئے تمام دئیے بجھنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ لیکن پھر کہیں علم ہوتا ہے کہ اب تو تعلیم 16 جماعتاں سے اوپر چلی ہے اب آپکو 21,22اور 24 تک بھی پڑھنا پڑتا ہے تب ایک بار پھر نوجوانوں کو ماں کے کانوں کی بالیاں یا بہن کے ہاتھ میں بڑی چاہت سے بنائی سونے کی چوڑیاں کام آتی ہیں اور ایم فل ، پی ایچ ڈی ، سپیشل کورسز میں داخلہ لیا جاتا ہے تو تب جب بزرگ پوچھتے ہیں کہ اب کونسی کلاس میں پڑھ رہے ہو تب بتانا پڑتا ہے کہ جی ستارہویں ، اٹھارویں کلاس تو بستی کے بزرگ سوچ میں ہڑ جاتے ہیں کہ سولہ جماعتوں کا تو سنا تھا یہ ستاروہیں اور اٹھارویں کب سے شروع ہوگئی ہے۔لیہ میں اس وقت لاکھوں کی تعداد میں نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنی تعلیم مکمل کرچکی ہیں یعنی سولہ جماعتاں پڑھ چکی ہیں اور اب ہزاروں نوجوان ستارویں اور اٹھارویں یعنی ایم فل بھی کرچکے ہیں ، تو سینکڑوں نوجوان اکیسیوں اور بائیسویں کلاس ( پی ایچ ڈی) تک پہنچ چکے ہیں ، لیکن حکومت کی جانب سے سابقہ دور سے نوکریوں کے مواقع کم ہیں ، پرائیویٹ سیکٹر میں بھی مواقع کم ہوگئے ہیں۔تو یہ نوجوان پریشان ہیں ، سابقہ ادوار حکومت میں محکمہ تعلیم نے ہزاروں نوجوانوں کے لئیے نوکریاں نکالی لیکن اب یہ سہولت بھی کم کم ہے تو ساتھ میں ان نوجوانوں کی عمر میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے پھر سرکاری نوکریوں کے لئیے عمر کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ کہیں زیادہ نہ ہوجائے ، مجھے یاد ہے میں نے ٹیکنالوجی کالج میں انسٹرکٹر کے لئیے اپلائی کیا تھا لیکن انٹرویو والے دن میری عمر کم سے کم جو اس وقت 23 سال درکار تھی تین ماہ کم ہونے سے انٹرویو نہیں لیا گیا ، اب میں اپنے اردگرد دیکھتا ہوں تو مجھے بڑھتی عمر کے نوجوان نظر آتے ہیں جو روزگار کے لئیے پریشان ہیں۔۔میرے والد محترم کو اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا بہت شوق تھا اور ہم بھائیوں کو تعلیم دلوائی ۔ اب میں سوچ رہا تھا کہ جو تعلیم کا پودہ ہمارے والد صاحب نے مشکل حالات میں لگایا تھا اب وہ ایک تناور درخت بن چکا ہے ، کیونکہ میں دیکھ رہا تھا کہ ہمارے گھر میں بھتیجے ، بھتیجیوں ، بھانجے بھانجیوں کے ساتھ بھابھیوں اور اب تو بہو میں زیادہ تر ماسٹر ، ایم فل ہیں ۔ لیکن سب بے روزگار ہیں یا انکو پرائیویٹ سیکٹر نے سنبھالا ہوا ہے، میں سوچ رہا تھا کہ تبدیلی کی حکومت میں زیادہ تر یہی نوجوان شامل رہے لیکن اب انکے لئیے نوکریوں کے مواقع نہیں آرہے اب تو کورونا نے تمام اقدامات کو روک رکھا ہے ، اگلے پانچ سالوں میں ایسی کوئی نوکریاں نہ ملی تو ان نوجوانوں کا کیا بنے گا ، انکی عمریں تو بڑھتی جائیں گی۔ اور کہیں  ائندہ پانچ سالوں بعد بڑھتی عمر کے نوجوان مشکلات میں نہ ہوں۔ کیونکہ ماں کی بالیاں ، بہن کی چوڑیاں اور باپ کی جھکی کمر اب انکو مزید نہیں تعلیم نہیں دلوا سکتیں۔۔۔۔۔۔

Tags: column by kamran thind
Previous Post

ملتان . لاک ڈائون سے متاثرہ 200 فنکاروں میں 10 لاکھ روپے تقسیم

Next Post

لیہ۔ترقی پولیس افسران کی محنت کا ثمر ہے۔ڈی پی او

Next Post
لیہ۔ترقی پولیس افسران کی محنت کا ثمر ہے۔ڈی پی او

لیہ۔ترقی پولیس افسران کی محنت کا ثمر ہے۔ڈی پی او

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک تحریر گردش کرتی رہی جس میں ایک لائن پر میری نظر رک گئی کہ کچھ بچے اپنی تعلیم کم عمری میں مکمل کرلیتے ہیں اور کچھ دیر بعد ، کچھ کو سرکاری  نوکری جلدی مل جاتی ہے اور کئی بڑھتی عمر کے ساتھ اور بزرگی میں بھی سرکاری نوکری کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ تب میں نے غور کیا کہ ہمارے نوجوان واقعی بوڑھے ہوتے جارہے ہیں ، عمریں بڑھ رہی ہیں تو کہیں ڈھل بھی رہی ہیں، لیکن سرکاری و غیر سرکاری ادارے ، کالجز ، یونیورسٹیاں سالانہ سینکڑوں ہزاروں نوجوانوں کے ہاتھوں میں ڈگریاں تھما کر بے روزگاری کے جہنم میں دھکیل رہی ہیں۔تعلیم کے مکمل ہونے کی خوشی جہاں نوجوانوں کو ہوتی ہے تو اس سے کہیں زیادہ خوشی ماں نے چادر اور بہن نے دوپٹہ کے پلو سے باندھ رکھی ہوتی ہے اور جب یہ خوشی والد کی پگ میں گھستی ہے تو پگ میں ایک الگ سا تناو محسوس کرتا ہے ، ایسی ہی خوشی کہیں بھائی کی نظر میں تو کہیں چاچا ، ماما اور دیگر بزرگ رشتہ داروں کی آنکھوں میں ایک چمک لے کر آتی ہے ایسی ہی خوشی کو لے کر بچے چہک رہے ہوتے ہیں تو کہیں دور یا نزدیک بیٹھی خواتین آنگن میں اٹھکیلیاں کرتی لڑکیوں کو جاگتے ، سوتے خوابوں میں سرسبز و ست رنگی فضائیں ، بادلوں کی سفیدی کے پیچھے گرتی سورج کی لال پیلی کرنوں اور بارش کے قطروں سے نکلتی قوس قزاح اچھی لگنے لگتی ہے۔ تو ایسے میں خاندانوں کے درمیان تعلیم یافتہ نوجوانوں کی عزت و تکریم میں اضافہ ہوجاتا ہے ،کچھ دنوں کی ان خوبصورت وادیوں سے جب واپسی ہوتی ہے تو سرکاری اداروں کے اخبارات اشتیہارات، فوٹو سٹوڈیو پر ٹائی لگی تصویریں اور فوٹو سٹیٹ سے سرٹیفکیٹ کی کاپیوں کے بنڈل ، ڈاکخانوں اور کورئیر دفاتر کی لائینوں میں لگ کر درخواستیں بھیجی جارہی ہوتی ہیں تو ٹائپ رائٹر کی ٹک ٹک ، اسٹامپ کی ٹھاہ ٹھاہ اور ہاتھ میں پکڑے اس امید پر جمع کرادیتے ہیں کہ مستقبل میں اچھی نوکری ہوگی ۔ لیکن جب دن ہفتوں ، اور ہفتے مہینوں کے بعد سالوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں لیکن کوئی چٹھی واپس نہیں آتی اور کہیں قسمت والوں پر خدا مہربان ہوجاتا ہے تو جلائے گئے تمام دئیے بجھنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ لیکن پھر کہیں علم ہوتا ہے کہ اب تو تعلیم 16 جماعتاں سے اوپر چلی ہے اب آپکو 21,22اور 24 تک بھی پڑھنا پڑتا ہے تب ایک بار پھر نوجوانوں کو ماں کے کانوں کی بالیاں یا بہن کے ہاتھ میں بڑی چاہت سے بنائی سونے کی چوڑیاں کام آتی ہیں اور ایم فل ، پی ایچ ڈی ، سپیشل کورسز میں داخلہ لیا جاتا ہے تو تب جب بزرگ پوچھتے ہیں کہ اب کونسی کلاس میں پڑھ رہے ہو تب بتانا پڑتا ہے کہ جی ستارہویں ، اٹھارویں کلاس تو بستی کے بزرگ سوچ میں ہڑ جاتے ہیں کہ سولہ جماعتوں کا تو سنا تھا یہ ستاروہیں اور اٹھارویں کب سے شروع ہوگئی ہے۔لیہ میں اس وقت لاکھوں کی تعداد میں نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنی تعلیم مکمل کرچکی ہیں یعنی سولہ جماعتاں پڑھ چکی ہیں اور اب ہزاروں نوجوان ستارویں اور اٹھارویں یعنی ایم فل بھی کرچکے ہیں ، تو سینکڑوں نوجوان اکیسیوں اور بائیسویں کلاس ( پی ایچ ڈی) تک پہنچ چکے ہیں ، لیکن حکومت کی جانب سے سابقہ دور سے نوکریوں کے مواقع کم ہیں ، پرائیویٹ سیکٹر میں بھی مواقع کم ہوگئے ہیں۔تو یہ نوجوان پریشان ہیں ، سابقہ ادوار حکومت میں محکمہ تعلیم نے ہزاروں نوجوانوں کے لئیے نوکریاں نکالی لیکن اب یہ سہولت بھی کم کم ہے تو ساتھ میں ان نوجوانوں کی عمر میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے پھر سرکاری نوکریوں کے لئیے عمر کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ کہیں زیادہ نہ ہوجائے ، مجھے یاد ہے میں نے ٹیکنالوجی کالج میں انسٹرکٹر کے لئیے اپلائی کیا تھا لیکن انٹرویو والے دن میری عمر کم سے کم جو اس وقت 23 سال درکار تھی تین ماہ کم ہونے سے انٹرویو نہیں لیا گیا ، اب میں اپنے اردگرد دیکھتا ہوں تو مجھے بڑھتی عمر کے نوجوان نظر آتے ہیں جو روزگار کے لئیے پریشان ہیں۔۔میرے والد محترم کو اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا بہت شوق تھا اور ہم بھائیوں کو تعلیم دلوائی ۔ اب میں سوچ رہا تھا کہ جو تعلیم کا پودہ ہمارے والد صاحب نے مشکل حالات میں لگایا تھا اب وہ ایک تناور درخت بن چکا ہے ، کیونکہ میں دیکھ رہا تھا کہ ہمارے گھر میں بھتیجے ، بھتیجیوں ، بھانجے بھانجیوں کے ساتھ بھابھیوں اور اب تو بہو میں زیادہ تر ماسٹر ، ایم فل ہیں ۔ لیکن سب بے روزگار ہیں یا انکو پرائیویٹ سیکٹر نے سنبھالا ہوا ہے، میں سوچ رہا تھا کہ تبدیلی کی حکومت میں زیادہ تر یہی نوجوان شامل رہے لیکن اب انکے لئیے نوکریوں کے مواقع نہیں آرہے اب تو کورونا نے تمام اقدامات کو روک رکھا ہے ، اگلے پانچ سالوں میں ایسی کوئی نوکریاں نہ ملی تو ان نوجوانوں کا کیا بنے گا ، انکی عمریں تو بڑھتی جائیں گی۔ اور کہیں  ائندہ پانچ سالوں بعد بڑھتی عمر کے نوجوان مشکلات میں نہ ہوں۔ کیونکہ ماں کی بالیاں ، بہن کی چوڑیاں اور باپ کی جھکی کمر اب انکو مزید نہیں تعلیم نہیں دلوا سکتیں۔۔۔۔۔۔
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.