چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک تحریر گردش کرتی رہی جس میں ایک لائن پر میری نظر رک گئی کہ کچھ بچے اپنی تعلیم کم عمری میں مکمل کرلیتے ہیں اور کچھ دیر بعد ، کچھ کو سرکاری نوکری جلدی مل جاتی ہے اور کئی بڑھتی عمر کے ساتھ اور بزرگی میں بھی سرکاری نوکری کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔
تب میں نے غور کیا کہ ہمارے نوجوان واقعی بوڑھے ہوتے جارہے ہیں ، عمریں بڑھ رہی ہیں تو کہیں ڈھل بھی رہی ہیں، لیکن سرکاری و غیر سرکاری ادارے ، کالجز ، یونیورسٹیاں سالانہ سینکڑوں ہزاروں نوجوانوں کے ہاتھوں میں ڈگریاں تھما کر بے روزگاری کے جہنم میں دھکیل رہی ہیں۔تعلیم کے مکمل ہونے کی خوشی جہاں نوجوانوں کو ہوتی ہے تو اس سے کہیں زیادہ خوشی ماں نے چادر اور بہن نے دوپٹہ کے پلو سے باندھ رکھی ہوتی ہے اور جب یہ خوشی والد کی پگ میں گھستی ہے تو پگ میں ایک الگ سا تناو محسوس کرتا ہے ، ایسی ہی خوشی کہیں بھائی کی نظر میں تو کہیں چاچا ، ماما اور دیگر بزرگ رشتہ داروں کی آنکھوں میں ایک چمک لے کر آتی ہے ایسی ہی خوشی کو لے کر بچے چہک رہے ہوتے ہیں تو کہیں دور یا نزدیک بیٹھی خواتین آنگن میں اٹھکیلیاں کرتی لڑکیوں کو جاگتے ، سوتے خوابوں میں سرسبز و ست رنگی فضائیں ، بادلوں کی سفیدی کے پیچھے گرتی سورج کی لال پیلی کرنوں اور بارش کے قطروں سے نکلتی قوس قزاح اچھی لگنے لگتی ہے۔ تو ایسے میں خاندانوں کے درمیان تعلیم یافتہ نوجوانوں کی عزت و تکریم میں اضافہ ہوجاتا ہے ،کچھ دنوں کی ان خوبصورت وادیوں سے جب واپسی ہوتی ہے تو سرکاری اداروں کے اخبارات اشتیہارات، فوٹو سٹوڈیو پر ٹائی لگی تصویریں اور فوٹو سٹیٹ سے سرٹیفکیٹ کی کاپیوں کے بنڈل ، ڈاکخانوں اور کورئیر دفاتر کی لائینوں میں لگ کر درخواستیں بھیجی جارہی ہوتی ہیں تو ٹائپ رائٹر کی ٹک ٹک ، اسٹامپ کی ٹھاہ ٹھاہ اور ہاتھ میں پکڑے اس امید پر جمع کرادیتے ہیں کہ مستقبل میں اچھی نوکری ہوگی ۔ لیکن جب دن ہفتوں ، اور ہفتے مہینوں کے بعد سالوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں لیکن کوئی چٹھی واپس نہیں آتی اور کہیں قسمت والوں پر خدا مہربان ہوجاتا ہے تو جلائے گئے تمام دئیے بجھنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ لیکن پھر کہیں علم ہوتا ہے کہ اب تو تعلیم 16 جماعتاں سے اوپر چلی ہے اب آپکو 21,22اور 24 تک بھی پڑھنا پڑتا ہے تب ایک بار پھر نوجوانوں کو ماں کے کانوں کی بالیاں یا بہن کے ہاتھ میں بڑی چاہت سے بنائی سونے کی چوڑیاں کام آتی ہیں اور ایم فل ، پی ایچ ڈی ، سپیشل کورسز میں داخلہ لیا جاتا ہے تو تب جب بزرگ پوچھتے ہیں کہ اب کونسی کلاس میں پڑھ رہے ہو تب بتانا پڑتا ہے کہ جی ستارہویں ، اٹھارویں کلاس تو بستی کے بزرگ سوچ میں ہڑ جاتے ہیں کہ سولہ جماعتوں کا تو سنا تھا یہ ستاروہیں اور اٹھارویں کب سے شروع ہوگئی ہے۔لیہ میں اس وقت لاکھوں کی تعداد میں نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنی تعلیم مکمل کرچکی ہیں یعنی سولہ جماعتاں پڑھ چکی ہیں اور اب ہزاروں نوجوان ستارویں اور اٹھارویں یعنی ایم فل بھی کرچکے ہیں ، تو سینکڑوں نوجوان اکیسیوں اور بائیسویں کلاس ( پی ایچ ڈی) تک پہنچ چکے ہیں ، لیکن حکومت کی جانب سے سابقہ دور سے نوکریوں کے مواقع کم ہیں ، پرائیویٹ سیکٹر میں بھی مواقع کم ہوگئے ہیں۔تو یہ نوجوان پریشان ہیں ، سابقہ ادوار حکومت میں محکمہ تعلیم نے ہزاروں نوجوانوں کے لئیے نوکریاں نکالی لیکن اب یہ سہولت بھی کم کم ہے تو ساتھ میں ان نوجوانوں کی عمر میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے پھر سرکاری نوکریوں کے لئیے عمر کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ کہیں زیادہ نہ ہوجائے ، مجھے یاد ہے میں نے ٹیکنالوجی کالج میں انسٹرکٹر کے لئیے اپلائی کیا تھا لیکن انٹرویو والے دن میری عمر کم سے کم جو اس وقت 23 سال درکار تھی تین ماہ کم ہونے سے انٹرویو نہیں لیا گیا ، اب میں اپنے اردگرد دیکھتا ہوں تو مجھے بڑھتی عمر کے نوجوان نظر آتے ہیں جو روزگار کے لئیے پریشان ہیں۔۔میرے والد محترم کو اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا بہت شوق تھا اور ہم بھائیوں کو تعلیم دلوائی ۔ اب میں سوچ رہا تھا کہ جو تعلیم کا پودہ ہمارے والد صاحب نے مشکل حالات میں لگایا تھا اب وہ ایک تناور درخت بن چکا ہے ، کیونکہ میں دیکھ رہا تھا کہ ہمارے گھر میں بھتیجے ، بھتیجیوں ، بھانجے بھانجیوں کے ساتھ بھابھیوں اور اب تو بہو میں زیادہ تر ماسٹر ، ایم فل ہیں ۔ لیکن سب بے روزگار ہیں یا انکو پرائیویٹ سیکٹر نے سنبھالا ہوا ہے، میں سوچ رہا تھا کہ تبدیلی کی حکومت میں زیادہ تر یہی نوجوان شامل رہے لیکن اب انکے لئیے نوکریوں کے مواقع نہیں آرہے اب تو کورونا نے تمام اقدامات کو روک رکھا ہے ، اگلے پانچ سالوں میں ایسی کوئی نوکریاں نہ ملی تو ان نوجوانوں کا کیا بنے گا ، انکی عمریں تو بڑھتی جائیں گی۔ اور کہیں ائندہ پانچ سالوں بعد بڑھتی عمر کے نوجوان مشکلات میں نہ ہوں۔ کیونکہ ماں کی بالیاں ، بہن کی چوڑیاں اور باپ کی جھکی کمر اب انکو مزید نہیں تعلیم نہیں دلوا سکتیں۔۔۔۔۔۔