محکمہ اطلاعات میرے بچپن کا پیار تھا۔ایک وجہ تو میرے بڑے بھائی اصغرخان تھے جو اس محکمہ میں کام کرتے تھے اوردوسری وجہ رانا اعجاز محمود صاحب تھے جو لیہ میں تعینات تھے۔
میرے ایک بہنوئی لیہ شوگرملز میں اکاونٹنٹ تھے اور میں اکثر بہن سے ملنے جایاکرتاتھا۔جس کالونی میں ان کاگھرتھا وہیں نکڑوالی کوٹھی میں ضلعی دفتر اطلاعات لیہ واقع تھا۔ مجھے بچپن میں بتایاگیاکہ فلم کا ہیروہینڈسم، بڑے قدکاٹھ اور خوبصورت ہوتا ہے اور جب میں انفارمیشن آفس لیہ کے سامنے سے گزرا تو مجھے رانا صاحب نظر آئے اور میں سمجھ گیا کہ اس دفترکا ہیرو یہی شخص ہے۔بڑاقدا،گندمی رنگ،بڑے بال،چوڑاسینہ،بڑی مونچھیں حقیقی ہیرو۔۔اور یو ں میرا پیارمحکمہ کے لیے پلتارہا۔ایف ایس سی کے بعد حالات نے مجھے ادب کی تعلیم کی طرف دھکیل دیا(جس کا آج بھی فقدان ہے)۔ایک مرتبہ پھر بی اے میں فرسٹ ڈویڑن کے باوجود میں یونیورسٹی میں داخلہ نہ لے سکا اور ضلع لیہ میں زکریا یونیورسٹی سے منسلک پوسٹ گرایجویٹ کالج میں انگریزی ادب میں عامیانہ ڈگری لینے کے لیے کمربستہ ہوگیا۔یہ سن 2001ء کی بات ہے۔سالانہ امتحانات کے پارٹ فرسٹ میں 55کی کلاس میں ہم 3سٹوڈنٹ ہی پاس ہوسکے۔دوسرے سالانہ امتحانات میں مجھے جان بوجھ کر ایک سپلی کا شوق چڑھ آیا یوں لیہ میں دو کی بجائے تین سال گزار دیے اور اس دوران ضلعی دفتر اطلاعات میری نظروں میں رہا۔ایک دن ایک پروفیسرنے پوچھا ماسٹرکرنے کے بعداپ کیاکریں گے نثار ”میں انفارمیشن آفیسر بنوں گا“میں نے انہیں جواب دیا۔وہ پریشان ہوکربولے بیٹاپھرآپ کوماس کام کرنا چاہیے تھا۔تب میں ان کی بات نہ سمجھاکہ وہ مس فٹ کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔خیرڈگری لینے کے بعد پریشانیوں کاسلسلہ شروع ہوااور پہلی پریشانی روزگار تھی۔اکیڈمی پڑھاناشروع کیا۔معقول سیلری تھی انہی دنوں محکمہ اطلاعات میں آرٹیکل رائٹر کی پوسٹ مشتہرہوئی اور میں نے درخواست گزار دی کچھ دن بعد تحریری امتحان کے لیے ڈی جی پی آر سے بلاواآیا۔اس دن بارش ہورہی تھی اور ہمارا امتحان لیاجارہا تھا۔تین پوسٹ کے لیے لگ بھگ 60لڑکے،لڑکیاں قسمت آزماتھیں۔مجھے مرحوم ارشد سعید صاحب آج بھی یاد ہیں تب وہ بہت ہینڈسم اور امتحانات کے سپرنٹنڈنٹ تھے۔امتحان کے کچھ عرصہ بعد مجھے انٹرویوکی کال موصول ہوئی اور میں رات بھر کا سفر طے کر کے ڈی جی پی آر پہنچا اتفاق سے اس روز بھی لاہور میں بارش زوروں پر تھی۔انٹرویو کے لیے ہم 20لوگ بلائے گئے تھے۔انٹرویوپینل میں مجھے ایک ہی چہرہ یاد ہے اور وہ مرحوم ارشد سعید صاحب تھے۔مجھ سے 5سوال کیے گئے اور مجھے روانہ کردیاگیا۔یہ جولائی 2005ء کا گرم دن تھا جب میں گھرکے صحن میں جامن کے پیڑکی چھاوں میں لیٹا سوچوں اور پسینے میں غرق تھا کہ مجھے تقررنامہ موصول ہوا۔بہاول پور میراپہلاپڑاوتھا۔میرا لیہ کا خواب چور ہوگیا۔ میں نے بہاول پور میں 10سال گزاردیے۔ میری آدھی زندگی۔پھرمیری پروموشن ہوئی اور اگلاپڑاو ٹوبہ ٹیک سنگھ ڈالنے کاکہا گیا۔اگرچہ بہاول پور اور ٹوبہ کے لوگوں سے بہت پیار ملا۔لیکن جنہیں ہم پیار کرتے تھے وہ لیہ اور آس پاس کے علاقوں میں تھے۔لیہ کیسے جایاجائے۔یہ ایک ایسی پہیلی اورگتھی تھی جس کا حل صرف انتظار بتایا گیا کیونکہ لیہ میں رانا اعجا ز صاحب تعینات تھے اور ان کو لیہ سے ٹرانسفرکرنا لوگ گناہ سمجھتے تھے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ ان جیسے قدکاٹھ اور تعلق والے افسر کو چھیڑنا آ بیل مجھے مار کے مترادف تھا۔
رانا اعجاز صاحب سے میری پہلی ملاقات پی آر ایس پی کے پلیٹ فارم سے ہوئی جب ہم پنجاب بھر کے افسران سے ملنے کے لیے نکلے تو پہلاانتخاب رانا اعجا ز محمود تھے کہ وہ دبنگ افسر ہیں بہترین رہنمائی کریں گے لہذا اْن کا ووٹ اور سپورٹ بہت ضروری ہے۔سہ پہر کا وقت تھا جب ہم چوک اعظم پہنچے۔رانا صاحب سڑ ک پر کھڑے ہمارا انتظار کررہے تھے۔گھر لے گئے اس بیٹھک میں کھانا کھلایا جہاں پچھلے دنوں ہم نے ان کے درجات کی بلندی کے لیے فاتحہ خوانی کی۔رانا صاحب کی ملاقات اور مشوروں سے ہمیں بہت ڈھارس ملی اور ہم بے تکان میانوالی،سرگودھا،پنڈی،لاہوراور ساہیوال تک چلے گئے۔
وقت نے کروٹ بدلی رانا صاحب کی ترقی ہوئی اور میں نے لیہ کے لیے ہاتھ پاوں مارے اور میرا خواب پورا ہوا۔رانا صاحب سے ملتان میں ایک پارٹی میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے مسکراتے ہوئے گلے لگالیا۔پھررانا صاحب سے گاہے بگاہے رابطہ ہوتا رہا۔گزشتہ سردیوں کی جنوری میں دفتر ی معمولات سے فراغت کے بعد دل بوجھل سا محسوس ہوا۔میں نے ڈرائیور سے پوچھا (جو رانا صاحب کے فیملی ممبرکا درجہ رکھتا ہے) کہ رانا صاحب کا کوئی اتہ پتہ۔ڈرائیورنے بتایا کہ گھر آئے ہوئے ہیں۔ہم نے گاڑی نکالی اور عصر کے ٹائم رانا صاحب کے گھر پہنچ گئے۔بیٹھک کے صحن میں ہلکی دھوپ پڑ رہی تھی اور رانا صاحب ایک بڑی چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے سامنے سات لوگ کرسیوں پر براجمان تھے جن میں اکثریت پرنسپل اور پروفیسروں کی تھی۔مجھے دیکھتے ہی رانا صاحب چارپائی سے اترے اور ننگے پاوں میری طرف بڑھ کر مجھے گلے لگاتے ہوئے اپنے پاس چارپائی پر بٹھا لیا۔اس دوران تمام دوستوں کو کینو،فروٹراور مسمی چھیل چھیل کردیتے رہے اور خود شوگر کا کہہ کرکچھ نہ کھایا۔بحث بھی زوروں پرتھی اور ہرشعبہ زندگی پر رانا صاحب کا بے لاگ تبصرہ پروفیسروں کو خاموش کردیتا۔پھرنمکو،حلوہ اور چائے آگئی۔اس دن رانا صاحب نے مجھے میری اوقات سے زیادہ کھلاپلادیا۔اچانک رانا صاحب میرے قریب ہوئے اور میرے کان میں سرگوشی کی”نثار کوئی مسئلہ ہے تو بتاو۔
یہ فروری 2020ء تھا جب رانا صاحب کا تبادلہ ڈی جی خان کردیا گیااور انہی دنوں وزیر اعلی لیہ کا دورہ کرنے والے تھے۔رانا صاحب نے ڈی جی خان کا چارج نہیں سنبھالاتھا لیکن وزیر اعلی کی کوریج ڈیوٹی کے لیے لیہ تشریف لے آئے۔ہم فیلڈ میں چلے گئے اور رانا صاحب دفتر میں اپنی یادیں تازہ کرتے رہے۔ہم جب واپس آئے تو رانا صاحب سابق ضلع ناظم،موجود ہ صوبائی پارلیمانی سیکرٹری مواصلات سردار شہاب الدین خان سیہڑ کو ملنے چلے گئے اور جلدواپس آنے کا کہا۔انتظار جب دو گھنٹے کا طویل ہوا تو میں نے فون کیا کہنے لگے یا رآکرمیری جان چھڑاو۔سومیں گاڑی لے کر ایم پی اے کے ڈیرے پر چلاگیا جنہوں نے رانا صاحب کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑاہوا تھا۔مزید 30منٹ کی منت سماجت کے بعد رانا صاحب کو اجازت ملی۔رانا صاحب اور پوری ٹیم جس میں ڈپٹی ڈائریکٹر جنید صاحب شامل تھے ایک ہوٹل پہنچے اور کھانا کھایا اگرچہ یہ سب میرے مہمان تھے اورجب میں بل کی ادائیگی کے لیے کاونٹرپر پہنچا تو پتاچلا کہ رانا صاحب نے بل ادا کردیا ہے۔ رانا صاحب نے مجھے کہا کہ میں کوشش کررہا ہوں کہ ڈی جی خان نہ جاوں کیونکہ مجھے گردوں کا مسئلہ بھی ہے اور ڈی جی خان کاپانی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے لہذاا گر میں تبادلہ نہ رکوا سکا تو تم دفتر سے دوڑ جانا اورمیرا کمرہ صاف کروا کے فرشی بستر لگوا دینا اور جاتے ہوئے میرا ڈرائیوربھی لے گئے کہ تنہائی کا مقابلہ کرسکیں۔پھر انہوں نے بہاول پور آرٹس کونسل کا چارج سنبھا ل لیا۔میں نے ایک ماہ بعد ڈرتے ڈرتے ڈرائیور کو فون کرکے واپس آنے کا کہا کہ اب تو راناصاحب بہاول پور سیٹل ہوگئے ہیں جو رانا صاحب سن رہے تھے جھٹ سے موبائل پکڑ ااور بولے نثار تو تڑیاں تے آگیاایں۔اور اگلے دن ڈرائیورواپس آگیا رانا صاحب ایک طاقت تھے جس پر سبھی کو مان تھا۔جب میں لیہ آیاتھا تو آفس میں ایک کمرہ تھاجہاں کارپٹ بچھاتھا اس کے علاوہ راناصاحب کی کوئی نشانی نہ تھی۔میں نے آج بھی ایک کمرے میں کارپٹ بچھارکھا ہے اور کمرہ لاک ہے۔