معصوم بچے سکول کب جائیں گئے ؟؟؟؟؟
تحریر۔۔۔۔۔ محمد عمر شاکر
پاکستان میں شرح خواندگی بڑھانے اور بچوں کو سکول میں داخل کرانے کے لئے ہر حکومت مختلف پلان ترتیب دیتی ہے ایوان اقتدار اور بیوروکریسی کے اعلی آفیسران اپنے دفاتر میں بیٹھ کر پروگرام ترتیب دیتے ہیں سیمینار ہوتے ہیں ریلیاں نکلتی ہیں حکومتی اور سماجی تنظیموں کے عہدیداران شرکت کرتے ہیں بل بنتے ہیں سرمایہ خرچ ہوتا ہے مگر معصوم بچے سکول جانے کی بجائے ورکشاپش دکانوں اینٹوں کے بھٹوں فیکٹریوں ہوٹلز اورجاگیرداروں کی فصلوں میں کام کرتے نظرآتے
ہیں ان جگہوں میں کام کرنے والے ہر بچے کی اپنی انوکھی کہانی ہو گی مگرکبھی ہر بچہ سکو ل میں اور کبھی پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب جیسے دلفریب نعروں سے پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں سکول کی بجائے چائلڈ لیبر کا شکار ہونے والے بچوں کی اکثریت غیر معمولی صلاحیتوں کی مالک ہوتی ہے ان بچوں میں مختلف اقسام کے بچے ہوتے ہیں جن پہلی قسم کے وہ بچے ہوتے ہیں جوانتہائی غریب ہوتے ہیں اور انکے پاس وسائل نہیں ہوتے سرکاری تعلیمی اداروں میں مفت کتابیں تو مل جاتی ہیں مگر وہ یونیفارم شوز بھی نہیں خرید سکتے ہیں گھر کا چولہا چلانے کے لئے انہیں تعلیم کی بجائے کام کرنا پڑتا ہے یہ طلبہ جب سکول جاتے ہیں تو پرانے جوتوں اور پھٹے پرانے جوتوں کے سبب انہیں اپنے کلاس فیلوز کیساتھ ساتھ اساتذہ کی بھی طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے سبب سکول سے ان کا دل اچاٹ ہو جاتا ہے ان میں سے جو بچے حساسیت اور خود داری کے حامل ہوتے ہیں وہ کسی دوسرے شخص کے پاس کام کرنے کی بجائے اپنے کام کو ترجیح دیتے ہیں جس میں سب سے آسان کا جوتے پالش کرنا اور کوڑا کے ڈھیروں سے ردی اکھٹی کرنا ہوتا ہے آلو چھولے یا دیگر چھوٹی چھوٹی چیزیں فروخت کرناہے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کوکئی سال اخراجات کرنے کے بعد جب ڈگری ملتی ہے تو نوکریاں نہیں ملتی کیونکہ انکے پاس شفارش یا آفیسران کو دینے کے لئے رشوت نہیں ہوتی کاشف نے میٹرک کے بعد تین سالہ سول کا ڈپلومہ کیا مگر پھر نوکری نہ ملنے کی وجہ سے وہ موبائل لوڈ اور اسسریز فروخت کر رہا ہے رضوان ایم ایس سی اکنامکس کرنے کے بعد ملازمت نہ ملنے کے بعدپینا فلیکس مشین چلاکر زندگی کے شب و روز گزارنے پر مجبور ہے جبکہ ندیم تین سالہ ڈپلومہ کرنے کے بعد پرنٹنگ پریس پر کام کرنے پر مجبور ہیں ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں مگر ریاست ریاستی ادارے حکمران طلبہ کی یہ ترجیحات ہی شائد نہیں ہیں جس وجہ سے نوجوانوں میں بد دلی مایوسی پھیل رہی ہیں کسی بھی قوم ریاست قبیلے کے نوجوانوں میں جب مایوسی پھیل جائے مایوسی جسے اسلامی تعلیمات میں کفر کے مترادف گردانا گیا ہے تو وہ معاشرہ قوم قبیلہ زوال پذیری کی طرف چلا جاتا ہے شائد پاکستان میں امن عامہ کے بد ترین خراب حالات کی یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو جب عملی زندگی میں تعلیم کی تکمیل کے بعد ملازمت نہیں ملتی تو وہ ملک دشمن طاقتوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں یا منشیات نوشی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ملک دشمن طاقتوں کے آلہ کار بن جانے کے بعد انکے دیے گے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں جس سے آئے روز ملک کے حالات امن و عامہ کے لحاظ سے خراب ہو رہے ہیں جبکہ حالات سے دلبراشتہ نوجوان نشہ کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور گزشتہ چند سالوں سے نشہ کی طرف مائل ہونے والے نوجوانوں میں سے اکثر تعلیم یافتہ ہی نوجوان ہیں جنہیں ملازمتیں نہ ملنے پر اپنے عزیزو اقارب کی طرف سے طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آخر کا ر یہ نوجوان نشہ کی طرف مائل ہو جاتے ہیں یہ بھی ایک المیہ ہے کہ نا اہل نکمے غیر تعلیم یافتہ لوگ شفارش اور سرمائے کے بل بوتے پر اعلی عہدوں پر فائز ہو جاتے وہ نوجوان جو جنہیں ملازمتیں نہیں ملتی وہ حالات سے دل برداشتہ ہو کر نشے کی طرف مائل ہو تے ہیں تو انکی لاشیں کوڑے کے ڈھیروں سے ملتی ہیں ملازمتوں کا نہ ملنا ذہین نوجوانوں کی حوصلہ افزائی نہ کرنے سے بھی مایوسی پھیل رہی ہے معاشرے میں جس کی وجہ سے بچوں کو سکول کی بجائے کام پر لگا دیا جاتا ہے سرمایہ دار جاگیرداروں سیاستدانوں گدی نشینوں جن کے بچے تو انگلش میڈیم اداروں میں پڑھتے ہیں اور وہ اپنے علاقے کے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کے بچوں کو اپنی فصلوں فیکٹریوں یا دوسرے کاموں میں لگا دیتے ہیں کہ کہیں ان لوگوں کے بچے پڑھ کر ہمارے برابر نہ آجائیں صوبہ پنجاب کے پسماندہ ضلع لیہ میں گزشتہ ماہ حکومت پنجاب کی پالیسی کے مطابق بھٹہ خشتوں پر چائلڈ لیبر کے خلاف چھاپے مار کر مقدمات درج کر رہے تھے مگر ڈی سی او لیہ رانا گلزار کی سرکاری رہائش گاہ کے سامنے آفس اور گھر کے راستے پر ورکشاپس میں معصوم بچوں جن کے ہاتھوں میں قلم گلے میں بستے ہونے چاہیے تھے انکے ہاتھوں میں اوزار اور گلے میں گاڑیاں صاف کرنے والیاں ٹاکیاں تھیں پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب کے نعرے کو عملی شکل دینے کے لئے یخ بستہ کمروں نرم گداز صوفہ سیٹوں پر بیٹھ کر فرضی اعدادو شمار پر بحث کرنے مخصوص ایریے میں سخت سیکورٹی حصار میں ہر بچہ سکول میں کے نام پر واک کرنے کی بجائے حکمرانوں اور آفیسران کو پسماندہ گلی محلوں میں جانا ہو نہیں تو سکول ویران جبکہ ورکشاپس فیکٹریاں اور ہوٹل معصوم بچوں سے آبا د ہوجائے گئے اس کی ذمہ کس پر ہو گی اس کا ذمہ دار کون ہو گا ۔۔۔ ریاست اور ریاستی اداروں کو ایسی پالیسیاں ترتیب دینا ہو گی کہ معصوم بچے سکول میں جائیں اور یہ کل کا روشن پاکستان ہوں