مجھے یقین ہے کہ میرے ہم عصر لوگوں نے ابو ظہبی کا نام دو بئی سے پہلے سنا ہوگا ۔ اگر نہیں تو کم از کم مجھے تو سب سے پہلے آ شنائی ابو ظہبی سے ہو ئی۔ وہ اس لئے کہ 70 کی دہائی میں ابو ظہبی کے الشیخ زیدبن سلطان النہیان کسی بھی اور عرب والی ریاست سے زیادہ پا کستا نیوں میں متعارف تھے ۔ویسے سقوط ڈحاکہ کے بعد لا ہور میں وزیر اعظم ذو لفقار علی بھٹو کی جانب سے بلائی جانے والی پہلی اسلامی کا نفرنس میں شریک ہو نے والے سعودی عرب کے شاہ فیصل، اردن کے شاہ حسین اور لیباء کے معمر قذافی بھی پا کستا نیوں کے دلوں کے قریب آ ئے اور آ نکھوں کا تارا بنے ۔ لیکن اس سے بھی پہلے ابو ظہبی کے الشیخ زیدبن سلطان النیہان کا نام پا کستا نیوں میں زبان زد عام تھا ۔
الشیخ زید بن سلطان النیہان 6 مئی 1918 سے 2 نو مبر 2004 تک ابو ظہبی کے حکمران رہے ، متحدہ عرب آ مارات کی تشکیل کے اصل محرک بھی الشیخ زید بن سلطان النیہان ہی تھے ۔یو اے ای کے بانی صدر ہو نے کی حیثیت سے انہیں UAE کا فادر آف نیشن بھی کہا جاتا ہے ۔الشیخ زید بن سلطان النیہان UAE کے 1971 سے 2004 تک صدر بھی رہے
الشیخ زید بن سلطان النیہان پا کستان کو اپنا دوسرا گھر کہا کرتے تھے اکثر وہ پا کستان کے صحراؤں میں شکار کھیلنے آ تے تھے ، انہوں نے رحیم یار خان میں شہر سے باہر اپنے لئے ایک ڈیزرٹ محل تعمیر کرایا جسے ابو ظہبی پیلس بھی کہا جاتا ہے ۔ الشیخ زید انٹر نیشنل ایئر پورٹ رحیم یار خان بھی شیخ زید بن سلطان کی طرف سے پا کستان کے لئے ایک بڑا تحفہ ہے ۔شیخ زید انٹر نیشنل ایئر پورٹ سے ایک سڑک شہر سے باہر بنے ابو ظہبی پیلس کے لئے مخصوص ہے ۔
یوں تو عرب شہزادے اب بھی پا کستان میں تلور کا شکار کھیلنے آ تے ہیں، ماضی میں ہمارے لیہ کے علاقہ چو بارہ میں بھی عرب شہزادوں کی خاصی آ مدو رفت رہی ہے لیکن یہ اس زمانے کی بات ہے جب چراہ گا ہیں شکار سے آ باد ہوا کرتی تھیں اور شکار کو دیکھ کر شکاری آ یا کرتے تھے۔ مگر اب تو زمانہ بدل گیا ہے نہ وہ چرا گاہیں رہیں اور نہ وہ شکار ۔۔ شکاری اب بھی آ تے ہیں لیکن سرکار کے محکمہ وائلڈ لائف کو شکار ڈھونڈ ڈھونڈ کر مہمانوں کا شوق پورا کر نا پڑتا ہے ۔
یہ سب باتیں مجھے یاد آ رہی تھیں جب بیٹے کی گاڑی ہمیں ابو ظہبی کی طرف لے کے دوڑے چلے جا رہی تھی
با با جی، یہ شیخ زید روڈ ہے ۔ دو بئی سے ابو ظہبی کا سفر تقریبا ڈیڑھ پو نے دو گھنٹے کا ہے ، آپ اسی سڑک کے ذریعے سعودی عرب بھی جا سکتے ہیں ۔ نعمان نے میری معلومات میں اضافہ کیا ۔ دو بئی سے نکلتے ہی چند لمحوں بعد دور بہت دور سمندر کا نیلگوں پانی نظر آ نے لگا ۔۔
وہ دیکھیں با با سمندر ۔۔ عا ئشہ نے اپنے مو بائل کیمرے کا فوکس سمند کی طرف سیٹ کرتے ہو ئے کہا ۔۔
ابو جی ! میں ابو ظہبی میں سب سے پہلے آپ کو لوور میوزیم (louvre museum) لے چلوں گا ۔ یہ میوزیم بھی سمندر کنارے بنایا گیا ہے اور اس کے بعد ابوظہبی مسجد دیکھیں گے ۔۔ نعمان نے بات مکمل کرتے کرتے کسی نمبر پر کال کی ۔
ہاں عمران کہاں ہو؟۔۔۔ کب آئے ؟۔۔
اچھا۔۔ ابو امی آئے ہو ئے ہیں۔۔ ہم سب ابو ظہبی آ رہے ہیں ۔
نہیں فیملی ساتھ نہیں ہے، امی ابو ہیں اور میں ہوں ۔۔ ہم میوزیم پہنچ رہے ہیں ۔۔ اگر وقت ہے تو آ جا ؤ تم بھی وہیں مل لیں گے ۔۔ او کے چلیں ملتے ہیں ۔۔
ابو یہ عمران ہے وہی جو میرے ساتھ اسلام آباد میں ڈین کام میں ہوا کرتا ہے ۔۔ آپ ملے ہو ئے ہیں اس سے۔۔فون بند کر کے نو می نے وضاحت کی ۔
جب ہم ابو ظہبی لوور میوزیم پہنچے تو عمران اور اس کا ایک اور دوست ہمارے منتظر تھے ، سمندر کنارے لوو میوزیم(louvre museum) کے ا ستقبا لیہ سے نعمان نے ٹکٹ لئے اور ایک خاص تر تیب اور نظم کے ساتھ ہم لوور میوزیم کی دنیا میں کھو گئے ۔
بلا شبہ لوور میوزیم(فرانس) کی تاریخ صدیوں پرانی ہے ۔ لوور پیلس میں موجود پہلے سے قائم یہ میوزیم انقلاب فرانس کے بعد 1793 میں عوام کے لئے کھولا گیا، حالات کے مدو جز اور یہ میوزیم 1796 میں بند کرنا پڑا۔ اور تعمیر نو کے بعد 1801میں لوور میوزیم کو دوبارہ عوام کے لئے کھول دیا گیا ۔
کہتے ہیں کہ 600 ملین سے زیادہ کی لاگت سے مکمل ہو نے والے ابو ظہبی میوزیم کے لئے لوور کا لفظ استعمال کر نے کے لئے ابو ظہبی حکو مت نے فرا نسیسی حکومت کو 525ملین ڈالر ادا کئے۔ تیس سالہ معاہدہ کے تحت ابوظہبی لوور میوزیم کا سارا انتظام و انتصرام آج بھی فرا نسیسیوں کے ہاتھ میں ہے ۔ کہا جا سکتا ہے کہ ابو ظہبی لوور میوزیم نہ صرف عرب امارات بلکہ دنیا میں آرٹ اور تہذیب کے نادر فن پاروں اور شا ہکاروں کا ایک عظیم خزانہ اپنے دامن میں سمو ئے ہو ئے ہے، ابو ظہبی لوور میوزیم کے منتظمین نے دنیا بھر سے آرٹ اور تہذیب کے نادر فن پارے اور شا ہکار اکٹھے کر کے ایک عظیم کارنامہ انجام دیا ہے، بلو چستان، گندھارا تہذیب پر مبنی ہزاروں سال پرانے فن پارے اور شا ہکار بھی پا کستان کے عظیم ثقافتی ورثہ کے نمایاں اظہار کے طور پر میوزیم میں مو جود تھے۔
میرے گھر والے میری ایک بری یا اچھی عادت سے بہت نالا ں ہیں وہ یہ کہ میں جہاں بھی جاتا ہوں نئے لوگوں سے ملنے اور ان سے کچھ جاننے کا مو قع ہا تھ سے نہیں جانے دیتا ۔ دو بئی گو گل ویلج میں یہی ہوا میں وہاں بھارت سے آ ئے ہو ئے کئی سکھ بزر گوں اور نو جوانوں سے ملا ، مجھے سا مانہ (ریاست پٹیالہ انڈیا) سے آ ئے ہو ئے سرداروں کی تلاش تھی کہ میرے بزر گوں نے تقسیم کے بعد سا مانہ سے ہی پا کستان کے لئے ہجرت کی تھی اور مار دحاڑ اور افراتفری میں ہو نے والی ہجرت کے اس سفر میں میرے والد مرحوم کی دو جوا ن بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی اپنے خاندان سے بچھڑ گئے تھے ۔ میں چا ہتا تھا کہ سامانہ سے آ یا ہوا کو ئی بزرگ سردار ملے تو ان سے حال احوال کر لوں شا ئد وہ جانتا ہو ۔۔ مگر میری خواہش پوری نہیں ہو ئی ۔
ابو ظہبی لوور میوزیم میں بھی میں نے اپنے شوق کی تکمیل یوں کی کہ مجھے ایک شریف وزیٹر نظر آ گئے مجھے یقین تو نہیں لیکن میرا اندازہ ہے کہ ان کا تعلق یورپ کے کسی ملک سے تھا وہ ہا تھ میں قلم، کیمرہ اور نوٹ بک لئے انتہائی انہماک سے ریسرچ ورک میں مصروف تھے وہ میوزیم میں رکھی ہر فن پارے کو گہری نگاہ سے دیکھتے، اپنے مو بائل میں اس کی تصویر محفوظ کرتے اور اس بارے تفصیلات اپنی نوٹ بک پر تحریر کرتے ، وہ خا صا مشکل کام کر رہے تھے ۔۔ شا ئد انہیں میوزیم میں آ ئے کا فی وقت ہو گیا تھا اور مسلسل کام نے انہیں تھکا دیا تھا تبھی وہ سستانے کے لئے گیلری میں پڑے ایک کاؤچ پر جا بیٹھے اور پا نی پینے لگے ۔میں بھی ان کے پاس جا بیٹھا اور مسکراتے ہو ئے ان کی طرف ہا تھ بڑھا یا ۔۔ شریف سیاح نے مسکراتے ہو ئے میرا ہاتھ تو تھام لیا مگر ان کی آ نکھوں میں الجھن خاصی نمایاں تھی، مجھے زیادہ انگریزی نہیں آ تی لیکن اتنی آ تی ہے کہ کچھ لفظوں سے اور کچھ اشاروں سے اپنی بات سننے والوں کو سمجھا سکتا ہوں ۔ سو یہاں بھی ایسا ہی ہوا ۔۔
میں نے کہا
sir, i want a pic with you
وہ میرا سوال سن کر میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے بھی مجھے اجنبی نظروں سے دیکھتا رہا ، جیسے پوچھ رہا ہو ۔ کیوں؟
please a pic for world freindship
میں نے ایک بار پھر گلابی انگلش بکھیرتے ہو ئے عالمی دوستی کی بات کی۔ اور عا ئشہ سے کہا کہ بیٹا جی، ایک تصویر لینا۔۔ اور تصویر بن گئی ماننا پڑے گا وہ ایک شریف شخص تھا جس نے مجھے بغیر اجازت تصویر بنانے دی اپنے ساتھ ۔۔ میں اسے نہیں جا نتا کہ وہ کون تھا …مگر ۔۔ سوری دوست
ابو ظہبی لوور میوزیم کی خوبصورت اور تجسس آ میز گیلریوں میں گھو متے ہو ئے بندہ صد یوں قبل کی تاریخ میں یو ں گم ہو جاتا ہے کہ اسے وقت گذرنے کا احساس ہی نہیں رہتا اورکچھ ایسا ہی ہمارے ساتھ ہوا وقت گذر گیا اور پتہ بھی نہیں چلا ۔
باقی احوال اگلی قسط میں