گلاب چہرہ، روشن آنکھیں، دبیز و متین مسکراہٹ کے ساتھ صوبائی سیکرٹری اطلاعات و ثقافت راجہ جہانگیر ا نور نے رواں ہفتہ نظامت تعلقات عامہ ڈیرہ غازیخان کا غیر روایتی دورہ کیا. یہ غیر روایتی دورہ یوں تھا کہ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار کی ڈیرہ میں آمد گزشتہ تین چار ماہ سے متوقع تھی لیکن بے پناہ مصروفیات کے باعث پروگرام بار بار تبدیل ہوتا رہا. دم شکر وہ تشریف لے آئے اور صد شکر کہ ان کی آمد کے طفیل ہمارے محبوب سیکرٹری نے بھی ہمیں شرف ملاقات بخشا. عام طو ر پر ہماری سیکرٹری صاحبان یعنی محکمہ اطلاعات و ثقافت کے سربراہان اپنی غیر معمولی کمٹ منٹس کے سبب ایسا کرنے سے قاصر رہتے ہیں. بہر طور
وہ آئے گھر میں ہمارے،خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو، کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں……
راجہ صاحب کی قدم رنجائی پر اہل نظامت تعلقات عامہ نے بتایا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور تاریخی دورہ تھا کیونکہ اس سے قبل ان کے کسی پیشرو نے ایسی کوئی روایت نہیں چھوڑی. یہ راجہ جی کا امتیاز ہے کہ وہ نئے ا چھوتے اور خوش رنگ انداز سے کار سرکارانجام دے رہے ہیں. انہیں تجربات کرنا اچھا لگتا ہے خاص طو رپر ا یسے تجربات کہ جن میں
رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے
درد پھولوں کی طرح مہکے اگر تو آئے……
وزیر اعلی کی آمد قیام اور روانگی تک کے انتظامی امور جہاں سرکار کے دیگر سینئر افسران سرانجام دے رہے تھے وہاں سیکرٹری اطلاعات نے لمحہ، لمحہ کی خبر سے میڈیا کو باخبر رکھا. میڈیا کو باخبر رکھنا ہی تو عوام کو باخبر رکھنا ہے اگر ہم یہ کہیں کہ اس باخبری میں خبریت سے زیادہ آگاہی تھی تو بے جا نہ ہو گا کہ گزشتہ حکومتوں نے تین چار دہائیوں کے دوران میڈیا میں جو دہائی ڈال رکھی تھی جس میں رنگ برنگ اور بدرنگ کے پھوکے اور کھوکھلے نعروں کے ڈھول بجائے جا رہے تھے. اس کے مقابلے میں عثمان بزدار نے نہایت ہی وضعدارانہ طرز حکومت و حکمت اختیار کیا ہوا ہے. اب کسی دورہ پر کم ہی ہوا ہے کہ وزیر اعلی پانچ دس افسران کا صبحانہ، ظہرانہ، عصرانہ یا عشائیہ کریں. ان کی ضیافت نہایت سادہ ہوتی ہے دعوتوں اور استقبالوں کی بجائے وہ اپنی تمام تر توانائی خدمت عوام پر صرف کرتے ہیں ان کی طرف سے اٹھائے جانے والے لاتعدادفلاحی اقدامات بارے کسی اور دن آپ کو کھل کر بتائیں گے.
ویسے تو زیادہ کھلنا بھی اچھانہیں. بس ہولے، ہولے آپ کو یہ بتائے دے رہے ہیں کہ سادگی کا جو کلچر اپنایاگیا ہے اس کے اثرات و ثمرات آپ وزارت اطلاعات و ثقافت میں دیکھ سکتے ہیں جس نے محض ڈیڑھ سال کے عرصے میں کروڑ وں روپے اشتہاری اخراجات بچا کر قومی خزانہ کے تحفظ میں اپنا حصہ پورا، پورا ادا کردیاہے.
راجہ جہانگیر انورسیکرٹری اطلاعات و ثقافت ہونے کے باوجود نمود و نمائش کے قائل نہیں ہیں. نہایت خاموشی کے ساتھ اپنے ٹیم ممبران کی خبرگیری کرتے رہتے ہیں. اس ٹیم میں سرکاری، صحافتی، ادبی، فنکار و دستکاربرادری سے تعلق رکھنے والے سبھی افراد شامل ہیں مجھے یاد ہے کہ دو سال قبل ہمارے دفتر کے مقالہ نگار منصور احمد خان سکھانی کی ناگہانی موت کے موقع پر انہو ں نے فوری طور پر اپنی جیب سے ایک معقول رقم مرحوم کی بیوہ او ربچوں کیلئے بھجوائی تھی اور ساتھ کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ منصور کی ترقی جو اس وقت آخری مراحلہ پر تھی وفات کے بعد بھی ضرور کریں گے. راجہ صاحب کی مصروفیات تو ہیں ہی، ہم بھی بھول گئے. آج جب قلم سنبھالا تو یاد آیا کہ ہم روح منصور کے مقروض ہیں سو ہم اپنا فرض ان سطروں میں ادا کیے دیتے ہیں. تازہ چٹھی بطرف سرکار روانہ کر دی ہے اس کامل یقین کے ساتھ کہ ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر صاحب کے توسط سے سیکرٹری محترم اس کار خیر کو مکمل کردیں گے.
چلیے! اب چند جملے تشکر و تحسین کے ساتھ اس جذبہ بے مثال کو سلام شوق کہ نوکری او رنمائندگی کا واضح فرق راجہ جہانگیر انور نے نہایت خوبصورتی و مہارت کے ساتھ ہم پر واضح کیا ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ کام کرنے میں عزت وتکریم ہے اور لمحہ موجود کے تقاضوں میں کچھ نیا پن جو روایتی و غیر روایتی قدروں کے بین، بین، قدم در قدم آگے بڑھتا رہنا چاہیئے جبکہ یہاں مدت تک حال یہ تھا کہ
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اور
لوگ اپنے دیئے جلانے لگے…
اگلے مصرع کے مطابق ہم نے داغ دل نہیں جلانا کیونکہ ہم نے تو اب کی بار گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے.
جگ، جگ جیو راجہ جی…. ہم آپ کی رہنمائی میں خدمت ملک و ملت کرتے رہیں گے. اس موقع پر ہمارے ساتھی عمران اسلم اور غیر سرکاری رفیق طور خان بزدار کا طرز عمل نہایت قابل تعریف رہا.ان کیلئے بھی محبت و اخلاص کے گلاب حاضر ہیں
bhatticolumnist99@gmail.com