اللہ تعالی نے زمین پر کاروبار زندگی چلانے کے لیے ایک سسٹم متعارف کروایا جس میں مختلف قوموں پر نعمتوں کی بارش کی جاتی اور بعدازاں کفران نعمت خداوندی پر اسی قوم کو مختلف سزائیں دی جاتیں لیکن پاکستان اور پاکستانی قوم شاید اللہ کے محبوب ملکوں اور قوموں میں سے ہے۔ہم نے شروع میں لہو کا خراج دیا۔پاکستان کی صورت میں انعام پایالیکن جلد ہی ہم کفران نعمت کر بیٹھے۔گزشتہ 70سالوں سے زائد عرصہ سے مختلف صورتوں میں سزائیں بھگت رہے ہیں۔پیاز کھانے کے بعد ڈنڈے کھانے کی عادت سی ہوگئی۔ملک غیروں کا اور ہم ملک کے مقروض ہوتے گئے لیکن بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔شایدپاکستان کی شرح خواندگی کم تھی کہ ہم باربار ایک ہی سوراخ سے ڈسے جاتے رہے۔لیکن پھر اللہ کو ہم پر رحم آیا اور پھر سے نعمت عطاکردی گئی۔ا س بار یہ نعمت لیڈر شپ کی صورت میں دی گئی۔عمران خان ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے اور انہوں نے اس ملک کی بہتری کے لیے سچی نیت سے بہترین ٹیم کا انتخاب کیا اور ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کا کپتان ایک ایسے شخص کو بنایا جس نے مسائل کے بھنور میں آنکھ کھولی۔سرکاری سکولوں اور کالجوں سے تعلیم حاصل کی۔تھڑوں اور ڈھابوں پر بیٹھ کر چائے پی۔ایک ایسا شخص جو احساس محرومی سے بخوبی واقف تھا۔وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کم گو اور دھیمے عاجزانہ مزاج کے آدمی ہیں۔انہیں کسی کا پیٹ پھاڑنا،سڑکوں پر گھسیٹنا،کھمبوں سے لٹکانا اور دوران گفتگو جلال میں آکر ڈائس اور مائیک توڑنانہیں آتا۔کیونکہ ہم مولاجٹ سٹائل کے عادی ہوچکے ہیں اس لیے اغیار کے ساتھ ساتھ اپنے بھی وزیر اعلی کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔اگر کارکردگی کا معیارمولاجٹ سٹائل ہے تو ہمیں ایک بار پھر پیاز اور جوتے کھانے کے لیے تیار رہنا چاہیے حالانکہ گزشتہ 15ماہ کے انتہائی قلیل مدت میں بزدار حکومت نے زندگی کی پہلی باری میں انتہائی خاموشی سے وکٹ پر جم کرکھیلتے ہوئے گراں قدر عملی اقدامات اُٹھائے ہیں۔وزیر اعلی عثمان بزدار نے ناتجربہ کاری کے باوجود صوبہ بھر اور خصوصاًپسماندہ ترین اضلاع پر بھر پور توجہ دے کر وسائل کی مساویانہ تقسیم کی اعلی مثال قائم کی ہے۔بزدار حکومت نے وزیر اعظم کے وژن کے مطابق زبردست ایجوکیشن اور ہیلتھ ریفارمز شروع کیں تاکہ سکولوں سے باہر دو کروڑ سے زائد بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہو سکیں اس سلسلہ میں پہلااقدام میرٹ اور شفافیت پر 16یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کا تقر رتھا۔انصاف سکولوں کا قیام اوراساتذہ کے آن لائن تبادلوں کاسسٹم رائج کیاگیاجس سے سیاسی تبادلوں اورکرپشن کادروازہ ہمیشہ کے لئے بند کردیاگیاہے۔اسی طرح سرکاری املاک کی قبضہ مافیہ سے واگذاری ایک سنجیدہ مسئلہ تھا۔قبضہ مافیا اس ملک کو دیمق کی طرح چاٹ رہے تھے ان پرکوئی ہاتھ ڈالنے کی جراٗت نہیں کرسکتاتھالیکن وزیراعلی بزدارنے اس برائی کوجڑسے اکھاڑنے کافیصلہ کیااوراب تک 1 لاکھ ایکڑ سے زائدرقبہ سے قبضہ ختم کروادیاگیاہے۔کسان اس ملک کا سب سے بڑا اورقیمتی اثاثہ ہیں لیکن ان کااستحصال ہمارا شیوہ بن گیاتھا۔وزیراعلی بزدارنے کسانوں کی فلاح کے لئے بھرپورعملی اقدامات اٹھائے جس کی بدولت پہلی بار کسانوں کو فصلوں کا پورا ریٹ ملاہے اورآنے والے دنوں میں ان اقدامات کے مزیدثمرات سے کاشتکارمسفید ہوں گے۔ملک بھر کی طرح صوبہ پنجاب میں بھی ٹیکس چوری کارواج تھالیکن بزدارنہ خود سرمایہ کارہے اورنہ ہی ٹیکس چورلہذاپنجاب میں ٹیکس کولیکشن کی شرح بڑھ کر 104÷ ہو گئی ہے۔ 14 ٹیکسز آن لائن کردئے گئے ہیں۔عوام کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لئے ادویات کے لئے فنڈمیں اضافہ کے ساتھ ساتھ ان15مہینوں میں 15ہزار ڈاکٹرز بھرتی کیے گئے۔194 دیہی ہسپتالوں کو 24/7 کیا۔ 9 نئے ہسپتالوں کے قیام پر کام شروع کیاگیاجس میں لیہ کامدراینڈ چائلڈہسپتال قابل ذکرہے۔صوبہ بھر میں 43نئے کالجزکی تعمیرکاآغاز ہوچکاہے جد میں لیہ کے دیہی علاقہ راجن شاہ میں گورنمنٹ گرلزکالج راجن شاہ بھی شامل ہے۔اسی طرح ہائرایجوکیشن سے طلبہ کومستفیدکرنے کے لئے صوبہ بھرمیں 8یونیورسٹیوں پر کام شروع ہواہے جس سے شرح خواندگی کاگراف مزیدبہتر ہوگا۔بزدارحکومت نے پندرہ ماہ کی قلیل مدت میں پنجاب اسمبلی سے 30 نئے اور ریفارمز بل پاس کروائے جو ایک ریکارڈہے۔بزدارحکومت میں معیشت کو ایک درست سمت مل گئی ہے۔ککس بیک کاقلعہ قما کیاجارہاہے اور صرف پہلے سال میں ہی صوبہ میں سرمایہ کاروں نے 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کردی ہے اوراس کی اولین وجہ گڈگورننس اور پرامن ماحول ہے۔پرامن ماحول اورمہذب معاشرے کی تشکیل کے سلسلہ میں تھانوں اور حوالات میں کیمرے لگائے گئے ہیں اور ہر ضلع میں پولیس خدمت مراکز بنا کر 80فی صد سروسز تھانے سے شفٹ کر دی گئی ہیں۔اسی طرح بنکوں کو زمین کے ڈیٹا تک فراہمی دی گئی ہے تاکہ کسانوں کو قرضہ آسانی سے ملے۔ 10 سال بعد نہروں کی ٹیل تک پانی کی فراہمی اور نئی نہروں کی تعمیرپر کام شروع کیاگیاہے۔ سکول ایجوکیشن میں انقلابی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔بزدارحکومت نے دیہی علاقوں خصوصآٓکسانوں کی مارکیٹ تک رسائی کے لئے 1500 کلومیٹر سڑکوں کی دسمبر تک تعمیرمکمل کرنے کا ٹاسک پورا کرناہے جس کے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔بزدار حکومت نے اب تک1 لاکھ 60 ہزار کسانوں کو قرض کی فراہمی کی ہے جو ایک خوش آئند امر ہے۔اسی طرح صوبہ بھرمیں 9 انڈسٹریل زونز کی 10ہزار ایکڑ زمین کی ڈویلپمنٹ 117 نئے اراضی سینٹرز کی دسمبر تک تکمیل ہوگی۔وزیراعلی عثمان بزدار کی علم دوست پالیسی کے تحت دسمبر تک 10ہزار8سو سکول سولر پر منتقل کردئے جائیں گے جبکہ ای ٹرانسفر پالیسی کے تحت اب تک20 ہزار اساتذہ کا بغیر سفارش ٹرانسفرکیاگیا ہے۔مسنگ سہولیات کو مدنظر رکھتے ہوئے سکولوں میں 2800 نئے کمرے بھی تعمیرکئے گئے ہیں۔نوجوانوں کو کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی اوران کے ٹیلنٹ کوضائع ہونے سے بچانے کے لئے 14 نئے سپورٹس کمپلیکسزکی تعمیر کا آغازکیاگیا ہے۔ چولستان میں آبادکاری کے لیے سرکاری زمین کی فراہمی اور4 اضلاع میں پائلٹ ہاؤسنگ سکیمز کا آغاز،پناہگاہوں کا قیام، 3 لیبر کالونیوں کی تعمیر، خواتین کے لیے 60 ڈے کیئر سنٹرز کا آغازاور سب سے بڑھ کر ملک کو موسمیاتی تبدیلیوں اورپانی کے بحران سے بچانے کے لئے صوبہ بھرمیں شجرکاری کے تحت1 کروڑ پودے لگائے گئے ہیں جو ایک صدقہ جاریہ بھی ہیں۔
اسی مختصرعرصہ میں ضلع لیہ میں 5ارب،87کروڑ،77لاکھ روپے کی لاگت سے 19نئی ترقیاتی سکیمیں شروع کی جارہی ہیں جس میں پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کے تحت چا رارب روپے کی لاگت سے مدر اینڈ چائلڈ کیئرہسپتال کا منصوبہ قابل ذکر اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اسی طرح ہائرایجوکیشن کے تحت راجن شاہ کالج،سپیشل ایجوکیشن سنٹر چوک اعظم،فتح پوراور سپیشل سنٹرکروڑ لعل عیسن کی اپ گریڈیشن شامل ہے۔ضلع لیہ میں 10کروڑ روپے کی لاگت سے سپورٹس سٹیڈیم لیہ کی اپ گریڈیشن،سپورٹس کمپلیکس چوبارہ کی تعمیر،60کروڑ روپے کی لاگت سے کوٹلہ حاجی شاہ تا لسکانی والا 35کلومیٹر طویل پختہ سٹرک کی تعمیر، 20کروڑ 50لاکھ روپے سیلیہ سٹی،چک سہو،بستی واڑہ،چک 224ٹی ڈی اے میں سیوریج،ڈرینیج اور ٹف ٹائل کے منصوبے مکمل کئے جائیں گے۔
وزیراعلی عثمان بزدارکی مختصر مدت میں کارکردگی قابل دید ہے اور جو لوگ صبح سے شام تک بزدار کے آوٹ ہونے کا انتظار کررہے ہیں شاید وہ انتظار ہی کرتے رہیں گے کیونکہ عثمان بزدارٹیسٹ میچ کھیلنے کے لئے منتخب کئے گئے تھے اور وہ جم کرکھیلنے کی اپنی صلاحیت ثابت کرچکے ہیں اور کپتان نے انہیں اسی نمبر پر کھیلنے کی ہدایت کی ہے۔
نثار احمدخان،لیہ