تھل جیپ ریلی کے پیچھے دھندے کی کیا کہانی ہے؟ اس بارے میں عرض کرتا ہوں لیکن پہلے میری درخواست پر لیہ کے معروف صحافی ملک مقبول الہی نے جو ایک خبر فائل کی ہے، اس کو پڑھ لیں تاکہ سند رہے۔ ملک مقبول کی خبر کے مطابق ضلع لیہ کے شہر کوٹ سلطان میں گورنمنٹ کامرس کالج ہے جہاں 160طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان کیلئے حکومت پنجاب کا ایک کلاس روم ہے، جی ایک کلاس روم ہے جبکہ طلبا کی تعداد 160 ہے ، مطلب وہی صورتحال ہے کہ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا ؟ بچے بیٹھیں گے کہاں اور پڑھیں گے کہاں؟ کامرس کالج کوٹ سلطان کے اکلوتے کمرے کا سائزلکھوں تو آپ کے قہقتے نکل جائینگے اور راقم الحروف کے پاس خاموشی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا، یوں کامرس کالج کوٹ سلطان کا اکلوتا کالج جوکہ مجموعی طور پر 11 مرلہ زمین پر وجود میں لایا گیا ہے، افسوناک پہلو یہ ہے کہ کوٹ سلطان جوکہ تاریخی حیثیت کا حامل شہر ہے، اس کے لوگوں کے بچوں کیلئے تعلیم کے حصول کیلئے سرکارکے پاس ایکٹر نہیں تو چند کنال زمین بھی نہیں تھی کہ یہاں کے طالب علم سردیوں اور گرمیوں میں کمروں میں بیٹھ کر تعلیم کی پیاس بجھاسکتے،کوٹ سلطان کے بارے میں اور کیا لکھوں کہ لڑکیوں کے کالج کو مناسب جگہ پر زمین دینے کی بجائے محکمہ انہار کے دفاتر میں گھسیڑ دیا گیا، مطلب اس کیلئے بھی زمین نہیں تھی، یہاں میرا مقصد وہی لکھنا ہے جوکہ ہے ناکہ سابق وزیراعلی پنجاب شہبازشریف سے لیکر عثمان بزدار کے دعوں سے پردہ اٹھانے کا متمنی ہوں اور نہ ہی چودھری پرویز الہی جوکہ آجکل سنبھالے نہیں جارہے ہیں، ان کی حکومتی کارناموں سے پرد ہ اٹھانا چاہتاہوں کہ ان کے دور میں لیہ کیساتھ کیا سوتیلی ماں جیسا سلوک برتا گیا تھا۔ عرض اتنا کررہا تھا کہ کامرس کالج کوٹ سلطان 11مرلہ رقبہ پر بنایا گیا ہے۔ادھر گورنمنٹ وویمن کامرس انسٹیوٹ لیہ،گورنمنٹ ٹیکنکل کالج لیہ کے ہاسٹل میں وجود میں لایا گیا تھا اور آج تک اس کیلئے ضلعی انتظامیہ سے لیکر پنجاب حکومت تک اسکی اپنی عمارت بنانے کی طرف کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی، اب آپ اندازہ کریں کہ ہاسٹل کے کمروں میں کیسے تعلیم دی جاتی ہوگی لیکن یہ کارنامہ لیہ میں سرانجام دیا جارہا ہے ؟ اور چاروں اطراف شانتی ہے؟جی ضلعی ہسپتال لیہ، تحصیل ہیڈکوارٹر لیہ کی بلڈنگ میں کام کررہا ہے، ضلعی ہسپتال لیہ کیلئے مختص رقبہ کے بارے میں بار بار سوال اٹھانے کے باوجود ضلعی انتظامیہ لیہ کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملاہے مطلب پنجاب حکومت جوکہ نوازشریف، منظور وٹو سے لیکر چودھری پرویز الہی، شہبازشریف اور پھر حضرت عثمان بزدار تک چلی آرہی ہے، کوئی وزیراعلی اس بارے میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا کہ لیہ کا ضلعی ہسپتال اس جگہ پر ہونا چاہیے جہاں پر اس کیلئے لیہ کے ضلع بننے کے بعد زمین الاٹ کی گئی تھی، نہ کہ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں ٹھونس دیا جائے ، ادھر ایک اور کاروائی لیہ میں یہ چل رہے کہ وویمن ٹیکنکل کالج لیہ جس کی عمارت کو بنتے بنتے کئی سال لگ گئے اور پھر خدا خدا کرکے عمارت مکمل ہوئی تو اب ڈرامہ لیہ کے والدین اور بچیوں کیساتھ یہ کیاگیا کہ ابھی تک وہاں ڈپلومہ کلاسز کا اجرا نہیں کیاگیا ہے، اور شارٹ کورسز کے نام پر ٹیکنکل کالج کے دن پورے کرائے جارہے ہیں ؟ اب ٹیکنکل ایجوکیشن کہاں اور شارٹ کورسز کہاں لیکن کوئی سنے تو اس کو بتایا جائے کہ لیہ میں تعلیم کا بیڑا غرق کیا جارہا ہے۔ مطلب مذاق کی کوئی حد ہوتی ہے۔ لیہ کے عوام کو اس حد تک بھی پسماندگی کی دلدل میں دھکیلنے کی سرکاری سطح پر کوشش کی جارہی ہے کہ یقین نہیں آتا ہے۔ چوک اعظم کے معروف صحافی عطا صابر پچھلے دنوں میں ملے تو انہوں نے چوک اعظم شہر سے تھوڑا پیچھے لیہ چوک اعظم روڈ پر احمد علی اولکھ کا ایک زرعی یونیورسٹی کے کمیپس کیساتھ ایک فارسٹ کالج اور لائیو سٹاک کالج کے بارے میں لگا تختہ دکھایا جوکہ وزیر احمد علی اولکھ نے وزرات کے آخری دن لگایا تھا اور آج تک وہی تختہ ہی لگا ہوا ہے، اس سے آگے ایک اینٹ بھی نہیں لگائی گئی ہے، عطا صابر نے بتایا کہ صرف چوک اعظم کے ارد گرد 21 ہزار ایکڑ سرکاری زمین موجود ہے لیکن یہاں فارسٹ کالج سے لیکر زرعی یونیورسٹی کیمپس وجود میں نہیں آسکا، مطلب بے حسی کی انتہاء ہے۔ پچھلے دنوں وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار، اوقاف کی جہاں زمین موجود ہے، وہاں یوینیورسٹیاں بنائیں، بڑا اعلان تھا۔ میں نے فیس بک پر پوسٹ کی کہ تھل میں اوقاف کی زمینوں میں سے کسی ایک پر وزیراعظم عمران خان کے اعلان کے مطابق پہلی یونیورسٹی بنائی جائے، تھوڑی دیر بعد پوسٹ پر لیہ کی معروف سیاسی وسماجی شخصیت ڈاکٹر جاوید اقبال کنجال نے لکھا کہ لیہ کے موضع سمرا نشب میں اوقاف کی 40 ایکٹر زمین موجود ہے لیکن اس پرایک سیاسی شخصیت کا قبضہ ہے، کہانی آگے بڑھی تو ایک اور لیہ مستند سیاسی ورکرسید گلزار شاہ نے لکھا جی واقعی اوقاف کی زمین موضع سمرا نشب میں موجود ہے لیکن اس پر سابق ضلع ناظم ملک غلام حیدر کا قبضہ ہے، ا س زمین کا قبضہ چھڑا کر پنجاب حکومت یونیورسٹی قائم کرسکتی ہے، اس کیساتھ یہ بھی پتہ چلاہے کہ موضع سمرا نشیب سمیت لیہ کے دیگر مقامات پر اوقاف کی زمین موجود ہے لیکن آج تک غلام حید ر سے لیکر دیگر قابضیں سے اوقاف کی زمینوں کا قبضہ چھڑانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے(ملک غلام حیدر اور ضلعی انتظامیہ لیہ اس بارے میں اپنے موقف سے آگاہ کرسکتی ہے)۔ اسی طرح ایک اور واردات لیہ صدر بازار اور ریلوے اسٹیشن لیہ سے تھوڑے فاصلے پر گلبرگ ہوٹل کیساتھ جڑے جی ٹی ایس کے کمرشل پلاٹ پر یوں ڈالی کہ اس کو لہور کے فون پر ضلعی انتظامیہ لیہ نے کاغذوں کی کہانی ڈال کر ایک ملتانی کی پارٹی کو لیز پرعطاکردیا تھا، مقامی صحافیوں کا کہنا تھاکہ پلاٹ پر ہاتھ صاف کرنیوالی پارٹی بھی ملتان کی تھی اور ڈپٹی کمشنر بھی ملتان کا تھا اور ادھر اربوں کے پلاٹ کو اونے پونے دینے کے پیچھے سفارش لہور کی تھی، لیہ کے صحافیوں نے جی ٹی ایس کے پلاٹ کواوقاف کے کھاتے میں ڈالنے کی کہانی پر خوب لکھا لیکن آج تک ضلعی انتظامیہ لیہ فائل دبا کر بیٹھی ہے، حقائق چھپائے جارہے ہیں (اس پلاٹ کے حوالے سے بھی ضلعی انتظامیہ موقف دے سکتی ہے)، ادھر نیب جیسے ادارے کی طرف سے بھی لیہ کے اس سمیت دیگر میگا سیکنڈلز پر کوئی کاروائی نہیں ہوئی ہے، جسٹس(ر)جاوید اقبال کی بحیثیت نیب چیرمین کاروائیوں کی طویل پریس کانفرنس تو سننے کو ملتی ہیں لیکن لیہ میں پتہ نہیں کیوں ان کی طرف سے کوئی کاروائی کا حکم جاری نہیں ہورہا ہے ؟ لیہ کے دکھ اور درد کی کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ کہانی آگے چلتی ہے، مائی ماتاں مندر جوکہ لیہ ریلوے اسٹیشن سے تھوڑے سے فاصلے پر ہے، اسکی زمین کا بڑا حصہ قابضیں کے قابو میں آچکا ہے اور باقی ماندہ پر ہاتھ کی صاف دکھانے کیلئے مناسب وقت کا انتظار ہے۔ لیہ کی اور کہانیاں بھی لکھتا ہوں لیکن تھل کے بارے میں آپ کو تھوڑا آگاہ کردوں، تھل جوکہ خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ، جھنگ اور چینوٹ تک پھیلا ہوا ہے، تھل کے ان 7 اضلاع میں ایک میڈیکل کالج، ایک ڈینٹنل کالج تک نہیں ہے، اسی طرح تھل میں ایک زکریا یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی جیسا تعلیمی ادارہ نہیں ہے، تھل میں وویمن یونیورسٹی سے لیکر انجئینرنگ یونیورسٹی بھی نہیں ہے، تھل کے 7 اضلاع میں ایک ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر سے لیکر ہائی کورٹ کا بنچ تک نہیں ہے۔ پورے تھل میں کوئی ائرپورٹ نہیں ہے، دوسری طرف ڈیرہ غازی خان، ملتان، رحیم یار خان اور بہاولپور میں جوکہ ایک دوسرے سے جڑے ضلع ہیں، وہاں پر ائرپورٹ ہیں، اسی طرح ڈیرہ غازی خان، ملتان، رحیم یارخان اور بہاولپور میں میڈیکل کالج موجود ہیں، اسی طرح صرف لہور ضلع میں سرکاری اور پرائیوٹ 26 میڈیکل کالج موجود ہیں لیکن تھل کا جیسے میں عرض کیا 7 اضلاع میں ایک میڈیکل کالج نہیں ہے، اسی طرح تھل میں کوئی ٹیچنگ ہسپتال بھی نہیں ہے۔ پورے تھل میں سے کہیں بھی موٹروے نہیں بنایاگیا ہے، اور نہ ہی ایکسپریس ہائی وے جیسے روڈ کی سہولت دی گئی ہے، تھل کیلئے ایک میانوالی مظفرگڑھ روڈ ہے جوکہ اب قاتل روڈ کی پہنچان یوں پاچکاہے کہ آئے روز حادثات میں لوگ کٹ مر رہے ہیں لیکن پنجاب حکومت کی ترجیحات میں یہ قاتل روڈ اتنا تھا کہ اس کیلئے ہر حادثے کے بعد اخباری داغے جاتے ہیں اور عثمان بزدار تو چودھری پرویز الہی اور شہبازشریف سے اتنا آگے نکلے ہیں کہ قاتل روڈ کو دورویہ کرنے کا اعلان کیا اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی مطلب آج تک اس کیلئے فنڈز جاری نہیں کیے ہیں، یوں عوام کو چکر دے کر آگے نکل گئے جب کہ ان کے اعلان کے بعد بھی خاصے دردناک حادثات قاتل روڈ پر ہوچکے ہیں، کروڑ (لیہ) کی ایک فیملی قاتل روڈ پر یوں لقمہ اجل بن گئی کہ کار اور ٹرالے کے حادثہ میں ماں، بیٹی اور بیٹا مارے گئے، اسی طرح اور بہت ہیں لیکن کیا لکھوں؟ غمزدہ خاندانوں کو اور کیا تکلیف دوں؟ جیسے میں نے عرض کیا ہے کہ تھل جیپ ریلی کے پیچھے دھندے کی کہانی لکھتا ہوں لیکن اس سے پہلے یہ ضروری تھا کہ تھل بالخصوص لیہ کی اس صورتحال کے بارے میں آپ کو آگاہ کیاجائے، جس سے اس کے عوام دوچار ہیں؟ ابھی تھل جیپ ریلی سمیت کافی سارے ایشوز باقی ہیں جوکہ ایک کالم میں نہیں لکھے جاسکتے ہیں؟ یوں لیہ کے نجی اور پرائیوٹ اداروں سے تھل جیپ ریلی کے نام پر اکٹھا ہونے والے مال اور دیگر وارداتوں کے بارے میں کہانی کو اگلے کالم پر اٹھارکھتے ہیں۔اس وقت تک اس بات کا انتظارکرلیتے ہیں وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار اور ڈپٹی کمشنر لیہ کالم میں اٹھائے گئے ایشوز کے بارے میں کیا پریس ریلیز جاری کرتے ہیں؟ اسی طرح اس بات کی خوشخبری کا وزیراعلی عثمان بزدار اور ڈپٹی کمشنر لیہ کی طرف سے انتظار کرتے ہیں کہ موضع سمرا نشیب میں اوقاف کی 40 ایکٹر زمین کا قبضہ حاصل کرلیا ہے اور جلد یہاں وزیراعظم کے اعلان کے مطابق پنجاب حکومت سندھ یونیورسٹی لیہ بنانے جارہی ہے۔یا پھر وہی تھل جیپ ریلی جیسی کہانی دیکھنے کو ملے گی؟ انتظار کرتے ہیں۔
خضرکلاسرا
جی خضر کلاسرہ صاحب آپ نے ٹھیک کہا ہے لیکن ہماری عوام تماشا دیکھتی ہے سچ کا ساتھ نہیں دیتی ہے اگر ساری عوام مل کر اپنے حق کے لیے آواز بلند کریں تو اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کے لیے اچھے ادارے بنواسکتی ہے ۔۔۔۔۔۔
حضور صہ کا فرمان ہے
” جب تم دیکھو کہ میری امت ظالم کو ظالم کہنے سے ڈر رہی ہو تو ایسی امت کو الوداع کہے دوں "( یعنی ایسی امت کا خاتمہ قریب ہے)۔۔۔۔۔