واقعہ کچھ یوں ہے کہ سفر کرتی ہوئی ایک خاتون نے گاڑی روک کر بوڑھے غریب سے پوْچھا . ابلا ہوا انڈہ کتنے کا ہے ؟ 15 روپے کا ایک
بیٹی ۔ ۔ ۔ بزرگ نے سردی سے ٹھٹھرتی آواز میں کہا ۔ پچاس روپے کے 4 دیتے ہو تو بولو ۔ خاتون بولی ، لے لو بیٹی، بزرگ نے یہ سوچ کر کہا کہ کوئی گاہک تو ملا ۔ اگلے دن خاتون اپنے بچوں کو لےکر ایک مہنگے ریسٹورنٹ گئی اور سب بچوں کا من پسند کھانا آرڈر کیا، کھانا کھانے کے بعد جب بل 1900 روپے آیا تو پرس سے 2000 روپے نکال کر دیئے اور keep the change کہہ کر چلی گئی ۔ تو گویا اِس خاتون نے اپنی فتح اِس میں سمجھی کہ جس بوڑھے انڈے بیچنے والے کو زیادہ پیسے دینے چاہیئے تھے تو اِس کا حق مار لیا، اور جو پہلے ہی بڑے ناموں کے ریسٹورنٹس بنا کر عوام کو لوٹ رہے ہیں اْن کو 100 روپے زیادہ دے دیئے ۔
کبھی اِن غریبوں سے یہ سوچ کر ہی خریداری کر لیا کریں کہ شاید ہم کسی کی مدد کا سبب بن جائیں ۔
عمومی تاثر تو یہی بن چکا ہے لیکن اس بجھی راکھ میں چنگاریاں موجود ہیں جو شعلہ بن سکتی ہیں اپنی لو سے روشنی دے سکتی ہیں ،متحرک کر سکتی ہیں ، اخبارات پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم دنیا کے بدبخت لوگ ہیں جنہوں نے کرپشن کو اپنا کر اپنی زندگی کو جہنم و جنت کا فیصلہ ہونے سے پہلے جہنم بنا لیا ہے ، بے شعوری کی انتہا ہے کہ اس پر افسوس اور اصلاح کرنے کی بجائے ڈھٹائی اور بے شرمی سے ڈٹ جاتے ہیں ۔
کل جب احباب سے ملاقات عباس و طاہر و قیصر و ریاض ہوئی تو طاہر نے کچھ لوگوں کا تذکرہ "جہنتی ” کے طور پر کیا یہ لفظ نیا اور اچھا لگا مزید انکشاف واطلاع یہ تھی کہ انگریزی اور اردو کے درمیان فاصلے مٹ چکے ہیں انگریز اردو سیکھیں یا بولیں یا نہ بولیں ہ میں غرض نہیں ہم نے ولی دکنی سے لے کر روح اقبال کو ستانے او ر
تپانے کے لیے اردو کے سوتے سوتے پہ انگریزی اگا دی ہے اب یہ فصل گل کراپ روز بنے یا نہ بنے ہم نے تو کام کر دیا
اگے تیرے بھاگ لچھی اے
برسبیل تذکرہ بتاتے چلیں کہ طب کا نوبل پرائز برطانوی اور امریکی سائنسدانوں کو دیا جارہا ہے یوں سمجھیے یہ وہ ایوارڈ ہے جس میں نوبلٹی یعنی شرافت وضعداری یا خدمت وغیرہ کا عنصر پایا جاتا ہے وہ کافروں کو دیا جائے گا . کیونکہ اب مذکورہ خواص انہی میں پائے جاتے ہیں وہ دور لد گیا جب کہا جاتاتھا کہ
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
دراصل ان کافروں کی شمشیر گردنیں اڑانے پر نہیں لگی ہوئی ہے بلکہ ان کے پاس ایسی شمشیر ہے جس کی نوک سے لے کر دستہ تک علم اور خدمت کی روشنی پھوٹتی ہے یہی وہ کام ہے جس کے لیے خالق کائنات نے سوا لاکھ نبی اورپیغمبر بھیجے اور دنیا کا جدید ترین قابل عمل اور آسان ترین دین، دین فطرت اسلام ہ میں عطا کیا یہ امن و سلامتی کا مذہب ہے جس میں کہیں جبر نہیں اور جو ہر انسانی حاجت کو نہایت احسن طریقے سے پورا کرتا ہے ۔اس ضابطہ حیات کو اپنی پسند و ضرورت کے درجوں میں بانٹ کر ہم نے ذلت و رسوائی کے سوا اور کیا پایا ہے ان حالات میں نوبل پرائز تو کیا نان نوبل پرائز کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی ۔
خیر! مایوسی کی بات نہیں اب ہمارے قائد عمران خان نے دربارنشینوں کے آستانوں پر جس عقیدت و عجز کے ساتھ حاضریاں دینا شروع کی ہیں ، لگتا ہے کہ وہ سیاسی کے ساتھ سماجی تبدیلی بھی لے آئیں گے ان کے ناقدین کے تیرو تفنگ تو تیز سے تیز تر ہوتے جا رہے ہیں لیکن پھر بھی اس قوم ناداں کو مشورہ دیں گے .. کہ
دل آ ٹھر جا یار دا نظارہ لینڑ دے
کیسی جلدی ہے بس خاک کے پتلوں کی مٹی ذرا نم ہو تو ساری ذرخیزی باہر امڈ آئے گی ۔
باطن سے ظاہر کا سفر کوئی اس قدر طویل اور کٹھن بھی نہیں ہے بس صاحب نظر کی ، نظر پڑ جائے تو سب کچھ سدھر سکتا ہے ۔ یہ صاحب نظر ہمارے باطن میں چھپاہے ۔ اس کیلئے ذرا گردن جھکائیں تو صاحب نظر ، نظر آئے گا ۔ گرن کے ساتھ جڑے سر کو جھکا دیں او راپنی پیشانی کو وہیں سجدہ ریز کریں جہاں نبیوں کے امام حضرت محمد مصطفیﷺ ، احمد مجتبی ، سرور کونین ، ہادی برحق ، شافع روز جزاسجدہ نشین ہوا کرتے تھے ۔
یہی ایک سجدہ ہے جو جہاں بھر کی چوکھٹوں پر جھکنے سے بچا دیتاہے
bhatticolumnist99@gmail.com