آٹھ سالہ محمد فیضان جس کی لاش انڈسٹریل اسٹیٹ سے ملی وہ ان چار تازہ ترین بچوں میں سے تھا جن کو غالبا جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر اور پھر اس خوف سے کہ وہ ان قاتلوں کی "عزت” ( وہ اب بھی یہ گمان رکھتے ہیں کہ ان کی عزت ھے ) خراب نہ کردیں ۔ سو انہوں نے یہ مناسب سمجھا کہ مستقبل کی روشن ستاروں کو بجھا دیا ۔
یونیسف کی رپورٹ کے مطابق ہر چار میں سے ایک بچہ دنیا میں ایسا پیدا ھو رہا ھے جس کو جنگ و جدل، ظلم کے ضابطوں، کنفلکٹ زون، بری صحبت ، کسی کی حرص کی نذر ھونا ھے ۔ یعنی موجودہ اور آنے والی انسانوں کی نسل کا 25 فی صد۔
پاکستان میں کم از کم 1300 بچوں کو ریپ، یا جنسی عمل سے گزارا جو رپورٹ ھوا ۔ لیکن معاملہ اس سے زیادہ گھمبیر ھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ مدرسوں میں ھوتا ھے تو یہ زیادتی ھوگی البتہ وہ معلومات جو صحافی کی حیثیت سے اس ٹاپک پر میں نے اس ظلم کا شکار لوگوں سے انٹرویو کیا اس کی بنیاد پر یہ ضرور کہا جا سکتا ھے کہ چونکہ جو انٹرویو میں نے ذاتی حیثیت میں کئے اس کی سچائی میرے نزدیک سو فیصد ھے کیونکہ کوئی انسان اپنے ساتھ ھونے والی زیادتی کے بارے جھوٹ کیوں بولے گا ۔ میرے ایک انٹرویوی کے بقول وہ ملتان کے 6 مدرسوں میں پڑھا ھے اور اس کےساتھ ہر مدرسے میں بڑے سے لیکر اس کے ھم عمر تک نے زیادتی کی ۔ مدرسوں کے نام اس لئے نہیں لکھتے کیونکہ یہ والدین اور حکومت کی ذمہ داری ھے کہ وہ اس معاملے کو پوری توجہ سے دیکھے ۔
اور یہ صرف پاکستان تک محدود نہیں اور نہ مدرسوں تک۔ وہ سکول جو بورڈنگ سہولت رکھتے ہیں اور دن کے اوقات میں بھی اگر بچے سکول سے دیر سے آنے کی سہولت ھے یا اور لوگوں کو علم ھے کہ اس بچے پر ظلم کے لئے ان کا ہاتھ کھلا ھے ۔ بہت سے بچے اور بچیاں گھر کے اندر کام کرنے والی خاتون، مرد کے ظلم کا شکار ھوتے ہیں اور اس بارے میں میرے ذاتی تجربے میں آیا کہ میرے بچوں کو صرف محدود وقت میں ایک بڑی خاتون کے حوالے کیا گیا اور اس نے بچوں پر تشدد کرنے کی کوشش کی اور اللہ کے کرم سے ھمارے علم میں آ گیا اور ھم نے اس خاتون سے معذرت کرلی۔ یہ ضروری نہیں کہ پر گھر میں کام کرنے والا مرد یا عورت یا بچی کسی ظلم کا شکار ھوتا ھے بلکہ اکثر ایسا ھوتا ھے امیر لوگ اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پاتے اور وہ ملازمین پر انحصار کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ بچے بھی ان ملازمین کے ظلم کا شکار ھوتے ہیں۔ جن گھروں میں اب سی سی ٹی وی کا رواج آیا تو کئی کیس پکڑے گئے۔
تشدد پسند ھونا بھی ایک نفسیاتی مرض ھے جو کئی وجوہات کی بنیاد پر ھو سکتا ھے ۔ تشدد اور جسمانی اور جنسی تشدد کا شکار کرنے والے گہری نفسیاتی مرض تو نفسیات دان ہی بتا سکتے ہیں لیکن عام وجوہات میں ان کو خود بچپن میں تشدد کا شکار ھونا اور بڑے ھو کر بدلہ لینا ھو سکتا ھے ۔ یا والدین اور مالکان سے نفرت، بدسلوکی جس کا اظہار وہ والدین سے تو کر نہیں سکتے اور اس کا بدلہ معصوم بچے ھو جاتے ہیں ۔
ہر بچہ جو پیدا ھوتا ھے وہ کم از کم چند سہولیات کا حق دار ھے۔ اس کو صاف پانی، صاف ھوا اور صاف کائنات ملنی چاہیے ۔ اردگان نے یونائٹڈ نیشن کے اجلاس میں درست کہا کہ صرف یمن میں پانچ لاکھ بچے پیدا ھو گئے ہیں جن کے پاس بنیادی خوراک نہیں ھے کوئ سہولت نہیں ھے اسی طرح کم ازکم اس وقت بچوں کی تعداد تین کروڑ ھے جو اپنے گھروں سے سفر کرکے کسی نہ کسی خطے میں بنیادی سہولتوں کے لئے پہنچے ہیں یعنی انہوں نے ہجرت کی ھے
اسی طرح پاکستان میں موزوں خوراک اور گھر تو بہت دور کی بات ہے بچوں کو پانی اور وہ صاف پانی دستیاب نہیں ۔ روہی ھو یا تھر، وہ ڈی جی خان ھو یا بلوچستان کے ہزاروں گاوں ، سندہ ھو یا KPK کا کوئی اور کئی علاقے ، پانی، بچوں کی تعلیم، ان کی صحت اور ان کے سر چھپانے کی جگہ نہیں ھے ۔ اور اس پر طرہ امتیاز یہ کہ بچوں کی حفاظت کا مسئلہ ھے ۔ اگر والدین دل کڑا کرکے ان کو سکولوں اور مدرسوں میں پڑھنے کے لئے چھوڑ آتے ہیں تاکہ سفر کی صعوبتوں سے روزانہ کی بنیاد پر بچ سکیں۔ اور یہ ایک سال سے نہیں جلد ہی یہ آواز آئے گی کہ صدی گزر گئی۔ سیاستدانوں ، افسروں کی ظفر موج اور سیکورٹی اداروں کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں ھے کہ حادثات ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے۔ سیاستدان جو براہ راست یہ تمام انتظامات کے ذمہ دار ہیں۔ ابھی فضیہ کی لاش کو چھت سے اتارے چند لمحات نہیں گزرے تھے کہ لاڑکانہ کا بچہ ایسے سانس لیتا موت کی آغوش میں چلا گیا کہ خدا گواہ ھے نہ کی ویڈیو دیکھنے کی ھمت نہیں بنا پایا۔ ابھی وہ حادثہ خبروں کی گونج میں ہی کہ چار ماوں کے لالوں کی لاشیں کھنڈرات سے نکلیں ۔ ابھی وہ دکھ دھندلایا نہیں کہ وہاڑی کے بچوں کا سیکس سکینڈل باہر آ گیا ۔
کیا ھمارے بچے صرف اس لئے پیدا ھوتے ہیں کہ وہ کسی جنسی مریض کا شکار ھوں ،کسی بد طینت استاد کا شکار ھو جائیں، کسی ہسپتال میں ماں کی گود جو دنیا کی محفوظ ترین جگہ میں تڑپ تڑپ کر جان دے دیں، کیا وہ اس لئے پیدا ھوتے ہیں کہ ان کی لاشیں پنکھوں سے لٹکی ملیں، کیا وہ اس لئے پیدا ھوتے ہیں کہ ان کی لاشیں ویرانوں اور بیابانوں میں ملیں ۔ اس پر شدید نظر ثانی کی ضرورت ھے ۔ وہ چاہے کوئی مولوی ھو، استاد ھو ،ملازم ھو یا بڑی عمر کا رشتہ دار اس سے بچوں کو بچانے کی ضرورت ھے ۔ یہ اوپر بیان کردہ پیشے اور رشتے گناہ گار نہیں ہیں لیکن کئی کریمنلز ان مقدس پیشوں میں گھس آئے ہیں۔ اس کے لئے والدین، اساتذہ، مدرسوں اور سکولوں کے مالکان اور ایڈمنسٹیٹرز کی قومی اور انسانی ذمہ داری ھے کہ وہ
والدین ————————-
1- آپ کی زندگی کا سب سے اھم حصہ ، سب سے اھم ترین فریضہ آپ کا بچہ ھے ۔ آپ کی کمائی ، آپ کا واویلا کہ بس بچوں کی روزی روٹی کے لئے محنت کر رہا/ کر رہی ھوں، کسی کام کا نہیں اگر آپ کا بچہ محفوظ نہیں ۔ سب سے پہلی ذمہ داری آپ کی ھے کہ آپ بچے کو اولین ترجیح دیں۔ اس کی سیفٹی پہلا پوائنٹ ھے ۔ وہ سکول جائے، سکول سے واپس آئے ، گھر میں اکیلا ھو ،وہ ٹی وی دیکھے یا فون استعمال کرے آپ کا فرض ھے کہ آپ اس پر پیرنٹل کنٹرول رکھیں ۔ یہ قانونی ھے اور آپ کو فرض۔ قانون کو آپ بلیم کر سکتے ہیں لیکن جب تک آپ قانون کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے آپ کا بچہ ضروری نہیں زندہ ھو، یا اس کے ساتھ وہ کچھ ھو چکا ھو جو نہیں ھونا چاہیے ۔
2- جوں جوں بچہ بڑا ھوتا ھے اس کو بتائیں کہ وہ کیسے پیدا ھوا ھے ، کن لوگوں سے کس طرح بچنا ھے ۔ کن ہر اعتماد رکھنا ھے اور آپ پر فرض ھے اس کو بتائیں کہ وہ صرف اور صرف محرم رشتوں پر اعتبار کر سکتا ھے بلکہ آج کا ماحول دیکھ کر اس حد تک کہنا کوئی گناہ نہیں ٹھہرے گا کہ نانا، نانی، دادا دادی ماں اور باپ کے علاوہ کسی ہر بھروسہ مت کریں ۔
3- بچہ بھوکا ھے، وہ بیمار ہے ، اس کو کوئی ضرورت ھے یہ آپ کی ذمہ داری ھے اسے پورا کریں ۔ اس کو خالہ، چاچی، مامی، ملازمہ یا ملازم پر مستقل dependent مت بنائیں۔ میں رشتوں کا احترام ختم نہیں کروا رہا لیکن خود میرے بھائیوں اور بچوں کو ان کی۔سگی پھوپھیوں، چاچیوں، چاچوں نے گھر کی ، نالیوں کی صفائی پر لگا دیا تاکہ وہ میری ماں سے بدلہ لے سکیں اور یہ اعتراف اس لئے ضروری ھے کہ آپ معاملے کی۔سنگینی کو سمجھ جائیں۔
4- آپ کے بچے کو کسی استاد، مولوی ،بڑی عمر کے لڑکے یا لڑکی کے پاس اکیلا چھوڑنا اس کے ساتھ زیادتی کی ابتدا کروانا ھے ۔ اگر بچہ ٹیوشن پڑھتا ھے تو کھلی جگہ پر اس کو انتظام کریں ۔ اور اگر آپ کی بیٹی کسی کالج، سکول یا حتی کہ یونیورسٹی میں بھی پڑھتی ھے تو اس کے لئے اپنا کان اور کندھا حاضر رکھیں۔ سیمسٹر سسٹم نے کچھ اساتذہ کو اس فرعونیت اور بھیڑیا پن سکھا دیا ھے کہ وہ چند نمبر وں کے عوض ان کی عزت تار تار کر سکتے ہیں اور اس کا ثبوت چند ہفتے یا مہینے پہلے بچیوں کے کئی سکینڈل سامنے آئے ہیں ۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ھم اور ھمارے کئی دوست ذاتی طور پر اس استحصالی گروہ کو دیکھتے رہے ہیں جو بڑے پن اور وقار کی آڑ میں بچیوں کی عزت سے کھیل گئے ہیں۔ بچوں کا اعتماد دیں کہ وہ آپ کو اپنا دوست سمجھیں نہ کہ پیسے پیدا کرنے والی مشین اور ایک مہربان سمجھیں نہ کہ جلاد۔ ماں کا رول اس میں زیادہ ھے وہ اگر کوئی پرابلم نوٹ کرے اس کو اپنے پارٹنر، شوہر سے ڈسکس کرے اور بچہ یا بچی کو تماشا نہیں بلکہ چھتری بن کر اس کی حفاظت کریں
5- بازار جانا ھے تو بچے کو روکنے کی بجائے اس کی ضرورت کا خیال رکھیں اور اگر جانا ضروری ھو تو اس کے لئے وقت نکالیں۔
6- خود بچوں کا ماڈل بنیں۔ اگر گھر کی گھنٹی بجنے پر آپ بیٹی کو کہیں کہ کہو پاپا گھر پر نہیں ہیں تو آپ نے اس کے جھوٹ بولنے کی بنیاد رکھ دی پھر بچوں کو الزام نہ دیں ۔اگر آپ شراب، چرس یا کوئی نشہ کرتے ہیں تو بچوں کا نشہ کا عادی بننے کا انتظار کریں ۔ اگر آپ اپنی کمائی سے زیادہ گھر لاتے ہیں تو بچوں کو ایک عمر تک اس سے لاتعلق رکھا جاسکتا ھے پھر چاہے آپ وزیراعظم ہی کیوں نہ رہے ھوں آپ کے بچے ایفیڈرین بیچتے پکڑے جائیں گے
7- ماں اگر کہنی تک زیور پہنے اور بچی کو سادگی کا درس دے ،ماں اگر گھر میں حرام کا مال لانے پہ شوہر کی سرزنش نہ کرے اور وہ سمجھے اس کی بیٹی اللہ میاں کی گائے بنے گی تو آپ جھوٹ زندگی جی رہے ہیں۔ بچیاں دونوں والدین کی ضرورت ہیں صرف ماں کی نہیں باپ کی بھی اتنی ہی ذمہ داری ہیں بلکہ زیادہ ۔ اگر بچیوں کے آپ دوست نہیں بنائیں گے تو وہ کسی ایسے کو بنائیں گی جو آپ کو گوارا نہیں ھوگا۔ گھر میں اگر آپ کی بیوی خوش نہیں تو شاد و آباد اولاد کی توقع ایک جھوٹی خواہش کے علاوہ کچھ نہیں ۔ بچیوں اور بچوں کو برابر کا درجہ دیں۔ اگر آپ لڑکے کو سب کچھ کرنے دیں گے تو وہ باہر کسی کا گھر تباہ کرے گا تو ویسا ہی کسی اور کا لڑکا آپ کا گھر تباہ کرے گا۔ اعتماد اچھی چیز ھے لیکن اندھا اعتماد بالکل غلط ھے۔ جب بزرگ یہ کہتے ہیں کہ نوالہ سونے کا اور آنکھ شیر کی تو اس کا مطلب جلاد نہیں باپ بنانا ھے جو ہر ضرورت کی چابی ہے اور بچوں کو محنت کا درس دیں نہ کہ محنت کے خلاف کندھا فراہم کریں-
8- بچوں کو عمر کے حساب سے جنس کی معلومات والدین کی ذمہ داری ھے نہ کہ شہر کے اشتہار یا دوست ٹائپ عطائی ان کے استاد بن کر ان کی زندگی تباہ کریں۔
سکول ،ادارے اور اداروں کے مالکان
استاد ،ادارے یا ان کے مالکان کی اخلاقی ، معاشی اور پروفیشنل ذمہ داریاں ہیں۔
1- پیسے بچانے کے لئے کبھی ایسے مرد یا عورت کو ملازمت نہیں دینی چاہیے جو اپنے مضمون کو نہ جانتا ھو۔ سکول یا تعلیمی ادارہ کوئی خیراتی تنظیم نہیں کہ نااہل لوگوں کو بھرتی کیا جائے کہ چلو ان کو روزگار چل جائے ۔ یہ نسل کی تربیت اور قوم کی تعمیر کا معاملہ ھے۔ آپ جوتے تو مہنگے ترین پہننا چاہتے ہیں ، ڈاکٹر تو اچھے کو چیک اپ کرانا چاہتے ہیں ۔کھانا تو اعلی ریسٹوران میں کھانا چاہتے ہیں ۔ لیکن بچوں کو پڑھانے والوں کا معاملہ آئے تو ایسے لوگ جو ملاحظہ اور ملاخطہ میں فرق نہیں کر سکتے وہ پی ایچ ڈی کے مستحق بنا دئیے جاتے ہیں اور اگر سکول، کالج کی انتظامیہ کے طور پر آپ نے ایسے نورے رکھے تو آپ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں وہاں سے بھی نورے ہی نکلیں گے ۔ اس لئے استاد مہنگا لیکن اس کی قابلیت پر رکھیں
2- استاد یا ایسا شخص جس کو آپ ادارے میں آنے کی اجازت دیں اس کو کریمنل ریکارڈ چیک کریں۔ بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں تو اس کو کہتے ہیں کہenhanced back Ground check
اگر کسی کو بھی رکھا جا رہا ھے تو سمجھیں آپ اپنی نسل اس کے حوالے کر رہے ہیں۔ جس طرح کسی کو سی ایس ایس کا امتحان دینے کے بعد ملٹری انٹیلی جینس سے لیکر آئ بی اور پولیس کی انکوائری کرانا ضروری ھے تو استاد کے لئے اس سے بھی زیادہ چیک اپ کی ضرورت ھے ۔ اس کا گھر، اس کا محلہ، اس کا ریفرنس اور اس کا انٹرویو جنئین کروایں۔ بے شک سفارش پر نوکری دینی ہیں دیں لیکن صرف اس کو جو کردار کا یہ کڑا امتحان پاس کرے
3- آج کا دور انتہائی ماڈرن ھے اس میں بچوں کا بہت ہی خیال رکھا جانا ضروری ھے ۔ وہ صرف آمدنی کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ وہ والدین کے بعد آپ کی ذمہ داری ہیں۔ ان کی آمد و رفت ان کی ادارے میں چال چلن اسی طرح اھم جیسے اس کا فرسٹ آ کر اخباروں کی زینت بن کر آپ کے ادارے کو مشہور کرنا اور مزید پیسے کمانا ۔
4- ہر ادارے میں اب کمپیوٹر کی تعلیم دی جارہی ھے ۔ کمپیوٹر ایک بہت ہی سود مند لیکن بہت ہی خطرناک ڈیوائس بھی ھے ۔ بچوں کا اس کا استعمال انتہائی ذمہ داری کا کام ہے اس پر فلٹرز اور سیکورٹی کا ھونا بہت ضروری ھے۔
تاکہ بچے کسی بھی ممکن بیرونی یا کسی سائبر کرائم اور کریمنلز کا شکار نہ ھو جائیں ۔ آج ایسا دور ھے کہ ہزاروں میل دور بیٹھے انتہائی ٹرینڈ کریمنل اپنے مقاصد کے لئے ھمارے، آپ کے بچوں کا استعمال کر سکتے ہیں۔
حکومت، سیکورٹی ادارے ،پولیس اور سوشل ویلفئیر اداروں کا کردار
جب بھی کوئی حادثہ ھوتا ھے، بچہ اغوا ، قتل یا ریپ ھوتا ھے ،وہی گھڑے گھڑے ، template سوال اور جواب اور ملمع کاری ۔ اپنی کوتاہی چھپانے کے لئے جھوٹ پر جھوٹ۔ سفارشی کلچر نے معاشرے کا کباڑا کر دیا ھے ۔ وہ اھم ترین معاملات میں بھی گھٹیا پن سے باز نہیں آتے ۔ مانا کہ نااہلی گورنمنٹ کے اداروں کی گھٹی میں ھے لیکن کچھ معاملات میں وہ جیسے کہتے ہیں کہ ایک گھر تو ڈائن بھی چھوڑ دیتی ھے ۔ اللہ کے بندو جہاں معاملہ کسی انسان یا انسان کے بچے کے قتل کا آجائے ، جہاں ریپ اور تشدد کا آ جائے کم از کم اس میں تو شرم کرو۔ آپ خود بچوں والے ھو کل اگر خدا نے آپ کے بچوں کا کوئی مسئلہ نکال دیا کون بچائے گا آپ کو ۔ جب بھی کوئی مجرم بچوں کے کسی غلط کام یا کرائم میں مبتلا ھو، قتل یا جنسی تشدد کا مجرم ھو اس کو قرار واقعی سزا دی جانی چاہیے تاکہ دوسروں کو دوبارہ ایسی ھمت نہ ھو۔ اسی طرح گورنمنٹ ، کورٹس کا فرض ھے کہ وہ ایسے مقدمات کے لئے انتہائی موثر قانون پاس کریں اور عدالتیں اداروں کو ذلیل کرنے کی بجائے ان کو قانون پر عمل کرنے کے لئے مجبور کرکے آنے والی نسل کا 25 فی صد تشدد کو صفر پر لا سکتے ہیں
منصور حسن ھاشمی