ایم ایم روڈ موٹروے میں کب تبدیل ہوگا ؟
خضرکلاسرا
وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ میانوالی کے ایم ایم روڈ پر بس اور ٹریلر کے تصادم کے نتیجہ میں17 افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ تیس کے قریب زخمی ہیں ۔اطلاعات ہیں کہ ہلاکتوں میں اضافہ کا خدشہ موجود ہے۔حادثہ اسوقت پیش آیا جب میانوالی کے علاقہ ھرنولی کے مقام پر لیہ سے بلوچ ٹرانسپورٹ کمپنی کی آنیوالی بس نمبرایل ای ایکس 6555 سامنے آنیوالے ٹرالر ایم جی آر 1875سے جاٹکرائی جس کے نتیجہ میں متعدد افراد موقعہ پر دم توڑ گئے جبکہ دیگر ہسپتالوں میں جاکر خالق حقیقی سے جاملے۔
عموما ایسے حادثات کے بعد تحقیقات کی بجائے سب کچھ ڈرائیور کی غلطی یاپھر قدرت کے کھاتہ میں ڈال کر قیمتی جانوں کے ضیاع پر حکمرانوں کی طرف سے مٹی ڈال دی جاتی ہے ،اسی طرح کی ملتی جلتی صورتحال بدھ کو میانوالی کے ایم ایم روڈ پر بس اور ٹرالر کے تصادم کے نتیجہ میں جابحق افراد کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیاپر پڑھنے کو ملی ۔پھر ان روڈ حادثات کے شکار افراد کے خاندانوں کیساتھ وفاقی و صوبائی حکومتیں اور اسکے ذیلی اداروں کی طرف سے مالی امداد تو درکنار کوئی اہلکار ان افراد کے گھر جاکر تعزیت تک کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتاہے ۔یوں خاموشی کیساتھ اتنے خاندانوں کے پیاروں کی ہلاکت پر معاملہ کی فائلوں میں غائب کردیاجاتاہے۔ میانوالی حادثہ پر بات چلی ہے تو اس بات کا تذکرہ ازحد ضروری ہے کہ ایم ایم روڈ جوکہ بلکسر تلہ گنگ(چکوال) سے شروع ہوکر میانوالی ، بھکر ،لیہ ، مظفرگڑھ اور ملتان کو جاملتاہے ۔اس ایم ایم روڈ کی خاص اہمیت یوں بھی ہے کہ یہ ایم ایم روڈ میانوالی کے شہر چشمہ کے مقام پر ڈیرہ اسماعیل خان (خیبر پختونخواہ ) کے عوام کو جلد اپنے گھر پہنچنے میں مددگار ہے۔پھر اسی ایم ایم روڈ سے لوگ ڈیرہ غازی خان ،تونسہ شریف اور بلوچستان تک اس روڈ کو اپنی سہولت کی خاطر استعمال کرتے ہیں۔پھر سرائیکی دھرتی بالخصوص میانوالی ،بھکر ، لیہ مظفرگڑھ، علی پور،راجن پور ، ملتان ، بہاولپور اور رحیم یار خان کے عوام کو دیگر زمینی رابطوں کی نسبت جلد پہنچنے کی سہولت فراہم کرتاہے۔اس ایم ایم روڈ کو ذرا اور گہرائی میں دیکھیں تو سندھ کے عوام کو بھی دیگر ساری سٹرکوں کی نسبت مختصر روٹ ایم ایم روڈ ہی ہے اور سندھ کے عوام کو اندرون سندھ اور کراچی تک کئی گھنٹے پہلے سفرمکمل کرنے میں مددملتی ہے۔ادھر سرائیکی دھرتی کے مرکزی علاقوں کو بھی ایم ایم روڈ پنجاب کے صوبائی دارلحکومت لاہور تک رسائی جلد رسائی میں بھی سہولت فراہم کرتاہے۔مطلب ایم ایم روڈ ایک طرف حقیقی معنوں میں پورے ملک کو قریب لانے میں مددگارہے تو دوسری طرف کم وقت میں منزل تک پہنچانے میں بھی اہم کردار اداکرتاہے۔اسی طرح ایم ایم روڈ مال برادرٹرالوں اور ٹرکوں کو منزل تک دیگر راستوں کی نسبت جلدی اور بحفاظت پہنچانے میں یکتایوں ہے کہ اس کے راستہ میں پہاڑی سلسلے(موسی خیل پہاڑی کے علاوہ) نہ ہونے کے برابر ہیں جوکہ بھاری گاڑیوں کو سفر میں کم مشکل میں ڈالتاہے ،یہی وجہ تھی کہ نیٹو فورسز کی افغانستان میں سپلائی کیلئے ایم ایم روڈ کو ہی چناگیاتھا ۔
اب ہم اس بات کو زیر بحث لاتے ہیں کہ آخر پورے ملک کو قریب لانے میں کردار اداکرنے والے ایم ایم روڈ کیساتھ ایشو کیاہے جس کو میں ڈسکس کرنے کی ضرورت ہے ۔معاملہ اصل اس اہم روٹ کیساتھ یہ ہے کہ ایم ایم روڈ اپنے قیام سے لیکر آج تک سنگل ہے اور موٹروے تو دور کی بات ہے اس کو دورویہ کرنے کی زحمت بھی گواردہ نہیں کی گئی ہے ۔ پشاور،کشمیر ،گلگت بلتستان یاپھر شمالی علاقہ جات یاپھر وفاقی دارلحکومت اسلام آباد سے کراچی جانیوالے مسافر یاپھر مال برادر ٹرک اور ٹرالر کراچی جارہاہے تو اس کیلئے مختصر روٹ لاہور اسلام آباد موٹروے سے اترتے ہی براستہ بلکسر تلہ گنگ (چکوال)،میانوالی ،لیہ، بھکر ،مظفرگڑھ،ملتان ،رحیم یارخان ،اندرون سندھ سے لیکر کراچی پہنچنے تک سہولت فراہم کرتاہے، لیکن اس ایم ایم روڈ پر موٹروے بنانے کی حکومتوں کو فرصت نہیں ملی ہے ۔پیپلزپارٹی جوکہ 2008-2013 ء تک اپنے اقتدار کو خوب انجوائے کرکے نکلی ہے ، اسکو بھی سرائیکی دھرتی کے دل پر موجودایم ایم روڈ کو موٹروے بنانے کا خیا ل تک نہیںآیا بلکہ سرائیکی عوام کو نعروں میں الجھائے رکھا ۔ادھر مسلم لیگ نواز جوکہ موٹروے ، میٹرو اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں کی وجہ سے بڑی شہرت رکھتی ہے ، وہ بھی لاہور اور اسلام آباد میں ہی سارے منصوبے مکمل کرنے میں مصروف ہے ، لیگی قیادت کا اس طرف دھیان نہیں گیاکہ پاکستان کے چاروں صوبوں کو قریب لانے والاایم ایم روڈ سنگل ہے اور اس پر حادثات کے نتیجہ میں ایک طرف قیمتی جانوں کی ہلاکتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف اس سے جتنا فائدہ موٹروے بناکر لیاجاسکتاہے ، وہ ملک کی خاطر نہیں لیاجارہاہے ۔سرائیکی دھرتی کی گردن کے گرد رسی تنگ کرنے کے فارمولے پر پیپلزپارٹی اور لیگی قیادت اس حدتک متفق ہیں کہ ایم ایم روڈ کو موٹروے میں تبدیل نہ کرکے سندھ ،بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے عوام کو بھی سنگل ایم ایم روڈ پر ذلیل کیجارہاہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جن کا آبائی شہر اور حلقہ انتخاب میانوالی ہے نے نمل یونیورسٹی بنائی ہے ، اس کیساتھ جڑی موسی خیل پہاڑی بھی ایم ایم روڈ کا حصہ ہے ۔ یہ پہاڑی بھی حادثات کے علاوہ سفر کا وقت بڑھانے کا سبب ہے لیکن مجال ہے کہ عمران خان نے کبھی ایم ایم روڈ کو موٹروے میں تبدیل کرنے اور موسی خیل پہاڑی پر کئی سالوں سے جاری کام کو پایہ تکمیل کا مطالبہ کیاہو۔چاروں اطراف اندھیر نگر ی مچی ہوئی ہے ،اقتدار میں موجود خاندان بالخصوص مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی تو کرپشن اور اقربا پروری میں اس قدر محو ہیں کہ ان کو خبر نہیں ہے کہ کونسے منصوبے عوام اور ملک کی خاطر اہم ہیں بلکہ اب تو ان کی اولاد کی کرپشن کہانیاں عالمی میڈیا کی زنیت بن رہی ہیں ۔ سرائیکی دھرتی کے ارکان اسمبلی کے بارے میں جان بوجھ کر کچھ نہیں لکھارہاہوں کیونکہ ان کے بارے میں پکی اطلاع ہے کہ ان کو ایس ایچ اوز ،پٹواریوں ، اساتذہ اوردرجہ چہارم کے ملازمین کے تبادلوں اور کمیشن جیسے معاملات سے فرصت ہی نہیں ہے کہ وہ ایم ایم روڈ کے سنگل ہونے کیوجہ سے ہونیوالے حاڈثات پر قومی اسمبلی اور سینٹ میں بات کرسکیں ۔
اب ہم اس بات کو زیر بحث لاتے ہیں کہ آخر پورے ملک کو قریب لانے میں کردار اداکرنے والے ایم ایم روڈ کیساتھ ایشو کیاہے جس کو میں ڈسکس کرنے کی ضرورت ہے ۔معاملہ اصل اس اہم روٹ کیساتھ یہ ہے کہ ایم ایم روڈ اپنے قیام سے لیکر آج تک سنگل ہے اور موٹروے تو دور کی بات ہے اس کو دورویہ کرنے کی زحمت بھی گواردہ نہیں کی گئی ہے ۔ پشاور،کشمیر ،گلگت بلتستان یاپھر شمالی علاقہ جات یاپھر وفاقی دارلحکومت اسلام آباد سے کراچی جانیوالے مسافر یاپھر مال برادر ٹرک اور ٹرالر کراچی جارہاہے تو اس کیلئے مختصر روٹ لاہور اسلام آباد موٹروے سے اترتے ہی براستہ بلکسر تلہ گنگ (چکوال)،میانوالی ،لیہ، بھکر ،مظفرگڑھ،ملتان ،رحیم یارخان ،اندرون سندھ سے لیکر کراچی پہنچنے تک سہولت فراہم کرتاہے، لیکن اس ایم ایم روڈ پر موٹروے بنانے کی حکومتوں کو فرصت نہیں ملی ہے ۔پیپلزپارٹی جوکہ 2008-2013 ء تک اپنے اقتدار کو خوب انجوائے کرکے نکلی ہے ، اسکو بھی سرائیکی دھرتی کے دل پر موجودایم ایم روڈ کو موٹروے بنانے کا خیا ل تک نہیںآیا بلکہ سرائیکی عوام کو نعروں میں الجھائے رکھا ۔ادھر مسلم لیگ نواز جوکہ موٹروے ، میٹرو اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں کی وجہ سے بڑی شہرت رکھتی ہے ، وہ بھی لاہور اور اسلام آباد میں ہی سارے منصوبے مکمل کرنے میں مصروف ہے ، لیگی قیادت کا اس طرف دھیان نہیں گیاکہ پاکستان کے چاروں صوبوں کو قریب لانے والاایم ایم روڈ سنگل ہے اور اس پر حادثات کے نتیجہ میں ایک طرف قیمتی جانوں کی ہلاکتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف اس سے جتنا فائدہ موٹروے بناکر لیاجاسکتاہے ، وہ ملک کی خاطر نہیں لیاجارہاہے ۔سرائیکی دھرتی کی گردن کے گرد رسی تنگ کرنے کے فارمولے پر پیپلزپارٹی اور لیگی قیادت اس حدتک متفق ہیں کہ ایم ایم روڈ کو موٹروے میں تبدیل نہ کرکے سندھ ،بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے عوام کو بھی سنگل ایم ایم روڈ پر ذلیل کیجارہاہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جن کا آبائی شہر اور حلقہ انتخاب میانوالی ہے نے نمل یونیورسٹی بنائی ہے ، اس کیساتھ جڑی موسی خیل پہاڑی بھی ایم ایم روڈ کا حصہ ہے ۔ یہ پہاڑی بھی حادثات کے علاوہ سفر کا وقت بڑھانے کا سبب ہے لیکن مجال ہے کہ عمران خان نے کبھی ایم ایم روڈ کو موٹروے میں تبدیل کرنے اور موسی خیل پہاڑی پر کئی سالوں سے جاری کام کو پایہ تکمیل کا مطالبہ کیاہو۔چاروں اطراف اندھیر نگر ی مچی ہوئی ہے ،اقتدار میں موجود خاندان بالخصوص مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی تو کرپشن اور اقربا پروری میں اس قدر محو ہیں کہ ان کو خبر نہیں ہے کہ کونسے منصوبے عوام اور ملک کی خاطر اہم ہیں بلکہ اب تو ان کی اولاد کی کرپشن کہانیاں عالمی میڈیا کی زنیت بن رہی ہیں ۔ سرائیکی دھرتی کے ارکان اسمبلی کے بارے میں جان بوجھ کر کچھ نہیں لکھارہاہوں کیونکہ ان کے بارے میں پکی اطلاع ہے کہ ان کو ایس ایچ اوز ،پٹواریوں ، اساتذہ اوردرجہ چہارم کے ملازمین کے تبادلوں اور کمیشن جیسے معاملات سے فرصت ہی نہیں ہے کہ وہ ایم ایم روڈ کے سنگل ہونے کیوجہ سے ہونیوالے حاڈثات پر قومی اسمبلی اور سینٹ میں بات کرسکیں ۔
خضرکلاسرا