اہل چمن ذرا توجہ فرمائیے !
انسانیت کی قضا کر کے لوگ مصلے اٹھائے پھرتے ہیں
رب کے فیصلے برحق اور بروقت ہوتے ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگو ں کو ادراک نہیں ہوتا
قصہ حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھ لیجیے
اللہ اپنی سکیم میں مداخلت پسند نہیں کرتا،وہ اپنے ٹارگٹ تک بڑے لطیف اور غیر محسوس طریقے سے پہنچتا ھے !یوسف علیہ السلام کو بادشاھی کا خواب دکھایا ،، باپ کو بھی پتہ چل گیا ، ایک موجودہ نبی ھے تو دوسرا مستقبل کا نبی ھے ! مگر دونوں کو ھوا نہیں لگنے دی کہ یہ کیسے ھو گا !
خواب خوشی کا تھا ،، مگر چَکر غم کا چلا دیا !یوسف علیہ السلام دو کلومیٹر دور کنوئیں میں پڑا ھے ،،خوشبو نہیں آنے دی !
اگر خوشبو آ گئی تو باپ ھے رہ نہیں سکے گا ،، جا کر نکلوا لے گا ! جبکہ بادشاھی کے لئے سفر اسی کنوئیں سے لکھا گیا تھا !
اگر یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کو پتہ ھوتا کہ اس کنوئیں میں گرنا بادشاہ بننا ھے اور وہ اس کی مخالفت کر کے اصل میں اسے بادشاہ بنانے میں اللہ کی طرف سے استعمال ھو رھے ھیں تو وہ ایک دوسرے کی منتیں کرتے کہ مجھے دھکا دے دو !
یوسف علیہ السلام عزیز مصر کے گھر گئے تو نعمتوں بھرے ماحول سے اٹھا کر جیل میں ڈال دیا کہ ، ان مع العسرِ یسراً ،،
جیل کے ساتھیوں کی تعبیر بتائی تو بچ جانے والے سے کہا کہ میرے کیس کا ذکر کرنا بادشاہ کے دربار میں ،،مگر مناسب وقت تک یوسف علیہ السلام کو جیل میں رکھنے کی سکیم کے تحت شیطان نے اسے بھلا دیا یوں شیطان بھی اللہ کی سکیم کو نہ سمجھ سکا اور بطورِ ٹول استعمال ھو گیا ،،اگر اس وقت یوسف علیہ السلام کا ذکر ھو جاتا تو یوسف سوالی ھوتے اور رب کو یہ پسند نہیں تھا ،، اس کی سکیم میں بادشاہ کو سوالی بن کر آنا تھا ، اور پھر بادشاہ کو خواب دکھا کر سوالی بنایا اور یوسف علیہ السلام کی تعبیر نے ان کی عقل و دانش کا سکہ جما دیا ،، بادشاہ نے بلایا تو فرمایا میں : این آر او کے تحت باھر نہیں آوَں گا جب تک عورتوں والے کیس میں میری بے گناھی ثابت نہ ھو جائے ،،عورتیں بلوائی گئیں ،، سب نے یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کی
گواھی دی اور مدعیہ عورت نے بھی جھوٹ کا اعتراف کر کے کہہ دیا کہ : انا راودتہ عن نفسہ و انہ لمن الصادقین ،،،
وھی قحط کا خواب جو بادشاہ کو یوسف علیہ السلام کے پاس لایا تھا ،، وھی قحط یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کو بھی ان کے دربار میں لے آیا ،، اور دکھا دیا کہ یہ وہ بے بس معصوم بچہ ھے جسے تمہارے حسد نے بادشاہ بنا دیا ، فرمایا پہلے بھی تم میرا کرتہ لے کر گئے تھے ،جس نے میرے باپ کی بینائی کھا لی کیونکہ وہ اسی کرتے کو سونگھ سونگھ کر گریہ کیا کرتے تھے ،، فرمایا اب یہ کرتہ لے جاوَ ،، یہ وہ کھوئی ھوئی بینائی واپس لے آئے گا !
اب یوسف علیہ السلام نہیں ان کا کرتا مصر سے چلا ھے تو : کنعان کے صحراء مہک اٹھے ھیں ، یعقوب علیہ السلام چیخ پڑے ھیں : انی لَاَجِدْ ریح یوسف لو لا ان تفندون ،، تم مجھے سٹھیایا ھوا نہ کہو تو ایک بات کہوں ;34; مجھے یوسف کی خوشبو آ رھی ھے : سبحان اللہ ،،جب رب نہیں چاھتا تھا تو 2 کلومیٹر دور کے کنوئیں سے خبر نہیں آنے دی ،،جب سوءچ آن کیا ھے تو مصر سے کنعان تک خوشبو سفر کر گئی ہے ;252;
واللہ غالب علی امرہ ولٰکن اکثر الناس لا یعلمون ! اللہ جو چاھتا ھے وہ کر کے ھی رھتا ھے مگر لوگوں کی اکثریت یہ بات نہیں جانتی !
یاد رکھیں ! ہم سب کے دشمنوں ، عزیز رشتہ داروں کی چالیں اور حسد شاید ہمارے بارے میں اللہ کی خیر کی سکیم کو ھی کامیاب بنانے کی کوئی خدائی چال ھو ،، انہیں کرنے دیں جو وہ کرتے ھیں ، آپ بس اللہ پاک سے خیر ہی خیر مانگیں , اپنے لیے بھی اور دوسروں کیلئے بھی۔۔۔
ہوتی اگر وفا خون کے رشتوں میں تو یوسف یوں نہ بکتا مصر کے بازاروں میں
وقت اپنی سبک رفتاری کے ساتھ منزل کی طرف رواں دواں ہے اس روانی میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جنہوں نے خدمت انسانیت میں شعبدی بازی کی رنگینیاں نہیں بھری ہوتیں وہ سچے رنگوں سے ماحول کی مصوری کرتے ہیں
پنجاب ، پاکستان کا کثیرالعوام صوبہ ہے یہاں بسنے والوں نے گزشتہ 40برسوں میں جو کھیل بار بار دیکھا ہے وہ اس کے عادی ہو چکے ہیں . وہ ایسے اداکاروں ، فنکاروں کو ہی اپنا قائد مانتے ہیں جن کے بارے میں وہ خود ہی کہتے ہیں کہ وہ لگاتے کم اور کھاتے زیادہ تھے . ہماری اس نادان منطق پر دنیا ہ میں کیاکہتی ہے ہ میں اس کی ذرہ برابرپرواہ نہیں ہم جس کی وجہ سے بیمار پڑے ہیں آج بھی انہیں عطار کے لونڈوں سے علاج کے طلبگار ہیں
سچ یہ ہے کہ رب نے اپنی حکمت و مصلحت کے شاہکار روز ازل سے اپنی مخلوق کو دکھائے ہیں خلق پنجاب نے چند ماہ پہلے تک یہ سوچا بھی نہ ہو گاکہ کوہ سلیمان کی سنگلاخی دھرتی ، بارتھی سے ایک بکریاں چرانے والوں کا سردار تخت لاہو ر پر بٹھا دیا جائے گا . بزداری محض بکریاں چرانے کا پیشہ نہیں بلکہ نبیوں کی سنت ہے اب اس سنت کو خالق دوجہاں اگر عزت بخشے تو نام نہاد اشرافیہ کو سمجھ لینا چاہیئے کہ خدا ابھی دنیا سے گیا نہیں .ہماری آنکھیں ، دل او ردماغ کھل جانا چاہئیں کہ غیر ملکی قرضوں پر پرواز کرنے والی قومی معیشت کی دکانیں سجانے والوں کی دکانیں بڑھ چکی ہیں اب سادگی سے خدمت وطن کرنے کا آغاز ہو چکا ہے یہ اس صبر و شکر کا تسلسل ہے جو جناب یعقوب علیہ السلام کے گھر سے پھوٹتا ہوا چاہ یوسف تک پہنچا . قبل ازیں اس کی تجدید جدالانبیاء جناب ابراہیم و اسماعیل علیھم السلام اپنی بے مثال اطاعت سے کر چکے تھے . یہ صبر جاری تھا او ررہے گا کہ مدینہ سے کوفہ جانے والے آقا ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک اہل بیت علیھم السلام نے صبر وشکراور اطاعت کی مثال قائم کرتے ہوئے نقش یوسف علیہ السلام کو مزید روشن کر دیا
عمران خان کا انتخاب عثمان بزدار اس کی ادنی ترین مثال کی صورت ہمارے سامنے ہے . بس ہم یاد یہ رکھیں کہ رب جب جس سے کام لینا چاہے وہ لے لیتا ہے او رہ میں اس بات کا یقین ہے کہ اس پاک دھرتی پہ بسنے والی اشرافیہ کا کفارہ ادا کرتے رہیں گے
bhatticolumnist99@gmail.com