ارضِ پاک :غنڈوں میں پھنسی رضیہ
محمدعماراحمد
جس روز ایرانی صدر جناب حسن روحانی صاحب پاکستان کے دورے پر آئے اسی روز ہی میڈیا پر بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے حاضر سروس آفیسر کلبھوشن یادیوکی گرفتاری کی خبر نشر ہوئی ۔کلبھوشن نے اعتراف کیا کہ وہ راہداری منصوبے کو ناکام بنانے ،گوادر ،کراچی میں بد امنی پھیلانے،مذہبی فسادات کرانے ، علیحدگی پسندوں کے ساتھ روابط اور ’ را ‘ کی پاکستان میں سرگرمیوں کی مانیٹرنگ پر مامور تھا۔کل بھوشن نے ایرانی بندر گاہ ’ چاہ بہار ‘ سے 2013میں پاکستان مخالف سرگرمیوں کا
محمدعماراحمد
جس روز ایرانی صدر جناب حسن روحانی صاحب پاکستان کے دورے پر آئے اسی روز ہی میڈیا پر بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے حاضر سروس آفیسر کلبھوشن یادیوکی گرفتاری کی خبر نشر ہوئی ۔کلبھوشن نے اعتراف کیا کہ وہ راہداری منصوبے کو ناکام بنانے ،گوادر ،کراچی میں بد امنی پھیلانے،مذہبی فسادات کرانے ، علیحدگی پسندوں کے ساتھ روابط اور ’ را ‘ کی پاکستان میں سرگرمیوں کی مانیٹرنگ پر مامور تھا۔کل بھوشن نے ایرانی بندر گاہ ’ چاہ بہار ‘ سے 2013میں پاکستان مخالف سرگرمیوں کا
آغاز کیا اور اب بھی اس کے ساتھی وہاں تعینات ہیں ۔انہوں نے ’ را ‘ ’ این۔ڈی۔ایس ‘ اور ایرانی بارڈر فورسز کے گٹھ جوڑ کے متعلق بھی انکشافات کئے ۔کلبھوشن کے ان انکشافات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان 3ہمسایوں کے درمیان پھنسا ہوا ہے اور یہ ممالک ارضِ پاک کو غیر مستحکم کرنے کے ایجنڈے پر مبینہ طور پر متفق ہیں۔
جغرافیائی اہمیت کے پیشِ نظر پاکستان پہلے دن سے ہی دشمن طاقتوں کی سازشوں کا محور و مرکز رہا ہے۔پاکستان کے ہمسایہ ممالک ،چین،بھارت،ایران اور افغانستان میں سے چین کے علاوہ کسی ہمسائے سے مثالی تعلقات نہیں ۔بھارت کے ساتھ روز اول سے ہی ہمارے تعلقات خطرناک حد تک خراب رہے ہیں اور جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان اہم مسئلہ ہے جو اب تک حل نہیں ہو پایا جس کے سبب معاملات درست سمت نہیں چل پاتے۔پانی کا مسئلہ بھی زیرِ بحث رہتا ہے اور سیلاب کے موسم میں بھارت پاکستانی دریاؤں میں پانی چھوڑدیتا ہے جس سے دریائی علاقوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑتاہے۔ ہتھیاروں کی دوڑ میں دونوں ممالک ایک دوسرے سے برتری حاصل کرنے کے لئے بجٹ کابڑا حصہ دفاعی معاملات پر لگاتے ہیں اور تعمیر وترقی کی طرف سفر سست روی کا شکار ہے۔سرحدوں پر دراندازی معمول کا حصہ ہے جبکہ دہشتگردی کے واقعات پر ایک دوسرے کو ہی تنقید کانشانہ بنایاجاتا ہے۔بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور الزام تراشی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔
افغانستان ایک غیر مستحکم ریاست کے طور پر موجود ہے ۔پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات اچھے رہے ہیں مگر طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد کرزئی انتظامیہ پاکستان کی مخالف رہی اور پاکستان پر دشنام طرازی کرتی رہی ۔بھارت سے اچھے تعلقات رہے اور پاکستان کے خلاف بھارت کا ساتھ دیا۔موجودہ افغان انتظامیہ بھی کرزئی کی طرح پاکستان مخالف لابی کے نزدیک ہے ۔سرحدوں پر دراندازی،پاکستانی طالبان کی موجودگی ،بارڈر ز کی نگرانی، سمنگلنگ اور ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے افغانستان کا متنازعہ مؤقف باہمی تعلقات میں استحکام ۔اہم مسئلہ افغان سر زمین پر ’ را ‘ کی سرگرمیاں ہیں جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں مصروف ہے۔ افغان انتظامیہ پاکستان پر الزام عائد کرتی ہے کہ وہ افغان شدت پسندوں کی معاونت کرتا ہے نیز افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کا ذمہ دار بھی پاکستان کو سمجھتی ہے ۔موجودہ حکومت سے پاکستان کے تعلقات کچھ بہتر ہوئے ہیں اور الزامات کی بھر مار کرنے کی بجائے دونوں ملکوں کی اعلیٰ عسکری و سیاسی قیادت نے باہم بات چیت کر کے مسائل کے حل کی کوششیں کی ہیں اور ان کوششوں کو بار آور کرنے کے لئے سنجیدگی سے کام کرنے کا عزم بھی کیا ہے ۔
تیسرا پڑوسی ایران ہے جس سے پاکستان کے تعلقات ہمیشہ بہتر رہے ہیں ۔انقلاب ایران سے پہلے کی حکومتوں کے ساتھ بھی تعلقات میں استحکام رہا ہے اور دونوں ممالک باہمی تعاون کرتے رہے ہیں ۔انقلاب کے بعد بھی پاکستان ایران تعلقات میں کوئی منفی تبدیلیاں نہیں آئیں بلکہ تعلقات درست سمت چلتے رہے ہیں۔چند روز قبل ایرانی صدر حسن روحانی پاکستان کے دو روزہ دورے پر آئے اورسیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتیں کیں۔دونوں ملکوں کی قیادت نے باہمی تعلقات کو مزید وسعت دینے پر اتفاق کیا جبکہ خطے میں امن و امان کی صورتحال پر بھی گفتگو کی۔ایرانی انقلاب کو پاکستان برآمد کرنے کی کوششوں کے بعد پاکستاں میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی جس میں اب تک ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں ۔ ایران کے حمایت یافتہ طبقے کو حکومت پاکستان کی طرف سے کسی خاص رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ ایران مخالف جماعتیں ہی زیر عتاب رہیں ۔پاکستان میں ایرانی مداخلت کوئی نئی یا ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ ایران کے تعاون سے چلنے والی تنظیمیں یہاں آزادانہ کارروائیاں کرتی رہی ہیں ۔کچھ عرصہ قبل پولیس آفیسر نے کراچی میں پریس کانفرنس کر کے ایرانی حمایت یافتہ تنظیموں کے ٹارگٹ کلرز کے بارے میں تفصیلات فراہم کیں کہ وہ ایران سے تربیت حاصل کر کے یہاں بد امنی پھیلانے میں ملوث ہیں ۔اسی طرح ایرانی بارڈر فورسز بھی سرحدی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتی ہیں اور گزشتہ روز پاکستانی سروے ٹیم کی موجودگی میں بھی ایرانی سرحد سے مارٹر گولے برسائے گئے مگر پاکستان اس سب کو کچھ مصلحتوں کی وجہ سے برداشت کرتا آرہا ہے۔ایران بھی بھارت اور افغانستان کی طرح اپنے ملک میں ہونے والی دہشتگردی کا الزام پاکستان پر عائد کرتا ہے یہاں تک کہ کئی مواقع پر ایرانی سپریم لیڈر بھی پاکستان کو دھمکی آمیز لہجے میں مخاطب کر چکے ہیں ۔حالانکہ پاکستان نے ہمیشہ ہی ایران سے بہتر تعلقات کی کوشش کی ہے اور ایران مخالف جماعتوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں ،ریکی برادران کو پکڑ کر ایران کے حوالے کیا ہے۔ایران کے جوہری پروگرام کی حمایت کی اور عالمی سطح پر ایران کا ساتھ دیا۔ایران عراق جنگ میں ایران کی وجہ سے ہی غیر جانب دار رہااور حال ہی میںیمن کے معاملے پر اور اسلامی عسکری اتحاد میں بھی ایرانی تحفظات کا خیال رکھتے ہوئے محتاط رویہ اپنایا ۔
ایرانی قیادت سے ملاقات میں آرمی چیف اور وزیرِ داخلہ نے کل بوشن کے اعتراف پر بات چیت کی جبکہ ایرانی صدر نے آئی ایس پی آر کے ٹویٹ پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ’’جب بھی پاکستان اور ایران قریب آنے لگتے ہیں تو لوگ اسی طرح کی افواہیں پھیلانا شروع کر دیتے ہیں ۔‘‘کمزور خارجہ پالیسی کے سبب پاکستان بھارت کے خلاف عالمی سطح پر آواز بلند کرنے میں ناکام رہا ہے ۔جبکہ ایران کے ساتھ تعلقات کو بہتر رکھنے کے لئے پاکستان ایران کی سرگرمیوں کو نظر انداز کرتا آیا ہے اور کبھی ایران سے اس حوالے سے بڑی سطح پر احتجاج نہیں کیا ۔یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت نے ایران کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے پر بات کی اور ایرانی قیادت کو پیغام دیا کہ وہ ’ را ‘ کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے میں ہماری مدد کرے ۔آئی ایس پی آر نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں بھی اس بات کو دہرایا کہ ’’اگر برادر ملک کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے تو اسے اس کا نوٹس لینا چاہئے ۔‘‘پاکستان نے ہمیشہ پڑوسی ممالک خصوصاََ ایران سے بہتر تعلقات کی کوشش کی ہے تا کہ اپنی توجہ بھارت اور افغانستان سے منسلک سرحدوں پر مرکوز رکھے اور اسی لئے ہی پاکستان میں ایرانی حمایت یافتہ تنظیموں کے خلاف کبھی سخت کارروائی سے گریز کیا ۔ایران کی پاکستان مخالف بیان بازی کو بھی برداشت کیامگر اب ایک دشمن ایجنسی کے آفیسر کے بیانات پر پاکستان نے ایران سے بات کی ہے تو ایران کو چاہئے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور برادر اسلامی ملک کے اعتماد پر پورا اترے ۔پاکستان اور اس کے پڑوسی ممالک کے مقتدر طبقوں کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ خطے کا امن سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور اس کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کی راہ ہموار کرنی چاہئے نہ کہ ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف رہ کر خطے کو خون آلود بنانے کی کوشش کریں ۔
اگر پڑوسی ممالک اپنی ذمہ داری کو نہیں نبھاتے تو پاکستان کو چاہئے کہ وہ اپنی کمزوریوں کا جائزہ لے اور مضبوط خارجہ پالیسی تشکیل دے کر عالمی سطح پر اپنا مقدمہ پوری ذمہ داری سے لڑے ۔خود بھی ہمسایہ ممالک میں مداخلت نہ کرے اور ان ممالک پر بھی واضح کرے کہ ان کی مداخلت کو قطعی برداشت نہیں کیا جائے گا۔بیرونی ممالک کے آلہ کاروں کو سخت سزائیں دی جائیں تاکہ آئندہ کوئی بھی دشمن ہمارے لوگوں کو ہمارے خلاف استعمال نہ کرے ۔اس کے ساتھ ان وجوہ پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور ان کا سد باب کرنا چاہئے جن کے سبب سے بیرونی عناصر ہمارے لوگوں کو ہمارے خلاف اکساتے ہیں ۔عوام کو بنیادی سہولیات کی مکمل فراہمی ضروری بنائی جائے اس کے بغیر بیرونی مداخلت کا سد باب نا ممکن ہی رہے گا۔
جغرافیائی اہمیت کے پیشِ نظر پاکستان پہلے دن سے ہی دشمن طاقتوں کی سازشوں کا محور و مرکز رہا ہے۔پاکستان کے ہمسایہ ممالک ،چین،بھارت،ایران اور افغانستان میں سے چین کے علاوہ کسی ہمسائے سے مثالی تعلقات نہیں ۔بھارت کے ساتھ روز اول سے ہی ہمارے تعلقات خطرناک حد تک خراب رہے ہیں اور جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان اہم مسئلہ ہے جو اب تک حل نہیں ہو پایا جس کے سبب معاملات درست سمت نہیں چل پاتے۔پانی کا مسئلہ بھی زیرِ بحث رہتا ہے اور سیلاب کے موسم میں بھارت پاکستانی دریاؤں میں پانی چھوڑدیتا ہے جس سے دریائی علاقوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑتاہے۔ ہتھیاروں کی دوڑ میں دونوں ممالک ایک دوسرے سے برتری حاصل کرنے کے لئے بجٹ کابڑا حصہ دفاعی معاملات پر لگاتے ہیں اور تعمیر وترقی کی طرف سفر سست روی کا شکار ہے۔سرحدوں پر دراندازی معمول کا حصہ ہے جبکہ دہشتگردی کے واقعات پر ایک دوسرے کو ہی تنقید کانشانہ بنایاجاتا ہے۔بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور الزام تراشی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔
افغانستان ایک غیر مستحکم ریاست کے طور پر موجود ہے ۔پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات اچھے رہے ہیں مگر طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد کرزئی انتظامیہ پاکستان کی مخالف رہی اور پاکستان پر دشنام طرازی کرتی رہی ۔بھارت سے اچھے تعلقات رہے اور پاکستان کے خلاف بھارت کا ساتھ دیا۔موجودہ افغان انتظامیہ بھی کرزئی کی طرح پاکستان مخالف لابی کے نزدیک ہے ۔سرحدوں پر دراندازی،پاکستانی طالبان کی موجودگی ،بارڈر ز کی نگرانی، سمنگلنگ اور ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے افغانستان کا متنازعہ مؤقف باہمی تعلقات میں استحکام ۔اہم مسئلہ افغان سر زمین پر ’ را ‘ کی سرگرمیاں ہیں جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں مصروف ہے۔ افغان انتظامیہ پاکستان پر الزام عائد کرتی ہے کہ وہ افغان شدت پسندوں کی معاونت کرتا ہے نیز افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کا ذمہ دار بھی پاکستان کو سمجھتی ہے ۔موجودہ حکومت سے پاکستان کے تعلقات کچھ بہتر ہوئے ہیں اور الزامات کی بھر مار کرنے کی بجائے دونوں ملکوں کی اعلیٰ عسکری و سیاسی قیادت نے باہم بات چیت کر کے مسائل کے حل کی کوششیں کی ہیں اور ان کوششوں کو بار آور کرنے کے لئے سنجیدگی سے کام کرنے کا عزم بھی کیا ہے ۔
تیسرا پڑوسی ایران ہے جس سے پاکستان کے تعلقات ہمیشہ بہتر رہے ہیں ۔انقلاب ایران سے پہلے کی حکومتوں کے ساتھ بھی تعلقات میں استحکام رہا ہے اور دونوں ممالک باہمی تعاون کرتے رہے ہیں ۔انقلاب کے بعد بھی پاکستان ایران تعلقات میں کوئی منفی تبدیلیاں نہیں آئیں بلکہ تعلقات درست سمت چلتے رہے ہیں۔چند روز قبل ایرانی صدر حسن روحانی پاکستان کے دو روزہ دورے پر آئے اورسیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتیں کیں۔دونوں ملکوں کی قیادت نے باہمی تعلقات کو مزید وسعت دینے پر اتفاق کیا جبکہ خطے میں امن و امان کی صورتحال پر بھی گفتگو کی۔ایرانی انقلاب کو پاکستان برآمد کرنے کی کوششوں کے بعد پاکستاں میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی جس میں اب تک ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں ۔ ایران کے حمایت یافتہ طبقے کو حکومت پاکستان کی طرف سے کسی خاص رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ ایران مخالف جماعتیں ہی زیر عتاب رہیں ۔پاکستان میں ایرانی مداخلت کوئی نئی یا ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ ایران کے تعاون سے چلنے والی تنظیمیں یہاں آزادانہ کارروائیاں کرتی رہی ہیں ۔کچھ عرصہ قبل پولیس آفیسر نے کراچی میں پریس کانفرنس کر کے ایرانی حمایت یافتہ تنظیموں کے ٹارگٹ کلرز کے بارے میں تفصیلات فراہم کیں کہ وہ ایران سے تربیت حاصل کر کے یہاں بد امنی پھیلانے میں ملوث ہیں ۔اسی طرح ایرانی بارڈر فورسز بھی سرحدی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتی ہیں اور گزشتہ روز پاکستانی سروے ٹیم کی موجودگی میں بھی ایرانی سرحد سے مارٹر گولے برسائے گئے مگر پاکستان اس سب کو کچھ مصلحتوں کی وجہ سے برداشت کرتا آرہا ہے۔ایران بھی بھارت اور افغانستان کی طرح اپنے ملک میں ہونے والی دہشتگردی کا الزام پاکستان پر عائد کرتا ہے یہاں تک کہ کئی مواقع پر ایرانی سپریم لیڈر بھی پاکستان کو دھمکی آمیز لہجے میں مخاطب کر چکے ہیں ۔حالانکہ پاکستان نے ہمیشہ ہی ایران سے بہتر تعلقات کی کوشش کی ہے اور ایران مخالف جماعتوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں ،ریکی برادران کو پکڑ کر ایران کے حوالے کیا ہے۔ایران کے جوہری پروگرام کی حمایت کی اور عالمی سطح پر ایران کا ساتھ دیا۔ایران عراق جنگ میں ایران کی وجہ سے ہی غیر جانب دار رہااور حال ہی میںیمن کے معاملے پر اور اسلامی عسکری اتحاد میں بھی ایرانی تحفظات کا خیال رکھتے ہوئے محتاط رویہ اپنایا ۔
ایرانی قیادت سے ملاقات میں آرمی چیف اور وزیرِ داخلہ نے کل بوشن کے اعتراف پر بات چیت کی جبکہ ایرانی صدر نے آئی ایس پی آر کے ٹویٹ پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ’’جب بھی پاکستان اور ایران قریب آنے لگتے ہیں تو لوگ اسی طرح کی افواہیں پھیلانا شروع کر دیتے ہیں ۔‘‘کمزور خارجہ پالیسی کے سبب پاکستان بھارت کے خلاف عالمی سطح پر آواز بلند کرنے میں ناکام رہا ہے ۔جبکہ ایران کے ساتھ تعلقات کو بہتر رکھنے کے لئے پاکستان ایران کی سرگرمیوں کو نظر انداز کرتا آیا ہے اور کبھی ایران سے اس حوالے سے بڑی سطح پر احتجاج نہیں کیا ۔یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت نے ایران کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے پر بات کی اور ایرانی قیادت کو پیغام دیا کہ وہ ’ را ‘ کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے میں ہماری مدد کرے ۔آئی ایس پی آر نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں بھی اس بات کو دہرایا کہ ’’اگر برادر ملک کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے تو اسے اس کا نوٹس لینا چاہئے ۔‘‘پاکستان نے ہمیشہ پڑوسی ممالک خصوصاََ ایران سے بہتر تعلقات کی کوشش کی ہے تا کہ اپنی توجہ بھارت اور افغانستان سے منسلک سرحدوں پر مرکوز رکھے اور اسی لئے ہی پاکستان میں ایرانی حمایت یافتہ تنظیموں کے خلاف کبھی سخت کارروائی سے گریز کیا ۔ایران کی پاکستان مخالف بیان بازی کو بھی برداشت کیامگر اب ایک دشمن ایجنسی کے آفیسر کے بیانات پر پاکستان نے ایران سے بات کی ہے تو ایران کو چاہئے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور برادر اسلامی ملک کے اعتماد پر پورا اترے ۔پاکستان اور اس کے پڑوسی ممالک کے مقتدر طبقوں کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ خطے کا امن سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور اس کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کی راہ ہموار کرنی چاہئے نہ کہ ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف رہ کر خطے کو خون آلود بنانے کی کوشش کریں ۔
اگر پڑوسی ممالک اپنی ذمہ داری کو نہیں نبھاتے تو پاکستان کو چاہئے کہ وہ اپنی کمزوریوں کا جائزہ لے اور مضبوط خارجہ پالیسی تشکیل دے کر عالمی سطح پر اپنا مقدمہ پوری ذمہ داری سے لڑے ۔خود بھی ہمسایہ ممالک میں مداخلت نہ کرے اور ان ممالک پر بھی واضح کرے کہ ان کی مداخلت کو قطعی برداشت نہیں کیا جائے گا۔بیرونی ممالک کے آلہ کاروں کو سخت سزائیں دی جائیں تاکہ آئندہ کوئی بھی دشمن ہمارے لوگوں کو ہمارے خلاف استعمال نہ کرے ۔اس کے ساتھ ان وجوہ پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور ان کا سد باب کرنا چاہئے جن کے سبب سے بیرونی عناصر ہمارے لوگوں کو ہمارے خلاف اکساتے ہیں ۔عوام کو بنیادی سہولیات کی مکمل فراہمی ضروری بنائی جائے اس کے بغیر بیرونی مداخلت کا سد باب نا ممکن ہی رہے گا۔