جب آپ کے حد نگاہ پانی ہی پانی ہو کہیں راہ فرار اختیار کرنے کے لیے بھی خشک راستہ نظر نہ آئے کشتی ہو نہ آپ تیراک ہوں پانی گھر کی دہلیز پر دستک دینے لگے مکانوں کی دیواروں میں دراڑیں پڑجائیں اور انسان تو انسان جانور حتی کہ سانپ بھی جائے پناہ تلاش کرتے کرتے آپ
کے گھروں میں داخل ہورہے ہوں درختوں پر حشرات الارض کی اتنی تعداد ہوکہ شیشم کیکر اور سفیدے کے تنوں پر بھی آپ لٹک نہ سکتے ہوں موبائل فون کی بیٹیریاں آخری سانسیں لے رہی ہوں تو پھر انسان اپنی سانسیں گنتے ہوئے صرف خدا کی ذات پر ہی بھروسا کرتا ہے۔؟؟؟
اس صورتحال کا سامنا مجھے دو ہزار دس کے سیلاب میں ہوا تھا جب لیہ کے نشیبی علاقوں میں دریائے سندھ بھر چکا تھا انتہائی خوف کے سائے
میں پتہ نہیں کس طرح اپنی آنکھوں سے میں نے لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت ڈوبتے تیرتے اس دریا سے باہر نکلتے دیکھتا رہا یہ ایک ناقابل فراموش داستان ہے اور اب جب اسی علاقے میں پھر سیلابی موسم آیا ہے تو مجھے وہی گزرے دن پھر سے یاد آگئے ہیں
میڈیا کی خبریں دیکھ کر سیلاب متاثرین کی تکلیفوں کا وہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا جو انہیں کے درمیان کچھ دن گزار کر لگا سکتے ہیں اس لیے امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے والے افسران بند پر کھڑے ہو کر یا فضائی جائزے کی بجائے متاثرہ علاقے کے اندر جاکر تب تک قیام کریں جب تک لوگوں کی زندگی معمول پر نہیں آجاتی ایسی صورت میں انہیں اندازہ ہوگا کہ سیلاب کے دنوں میں دریائی پٹی پر رہنے والوں کے شب و روز کتنے مشکل ہوجاتے ہیں ان کی راتیں کتنی خوفناک اور دن میں کس طرح خطرات کی تلواریں سر پرمنڈلاتی رہتی ہیں۔؟
جب ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا ہے تو پھر انہیں زمین پر صرف پانی اور اوپر نیلا آسمان نظر آتا ہے امید کی کرن ایسے لوگوں کے لیے کیا ہے سوائے اس کے کہ وہ اپنے رب سے اس کا فضل مانگتے رہیں سیلابی پانی میں گھرے لوگ ان دنوں کیا کھاتے اور کیا پیتے ہیں جب وہ بیمار ہوتے ہیں تو پھر ان کا علاج کیسے اور کون کرتا ہے ایمرجنسی کی صورت میں ان کا کون ولی وارث ہوتا ہے یا پھر ایسی صورت میں موت ہی نجات کا واحد راستہ ہے۔؟؟؟
اس وقت بارشوں کے نتیجے میں دریاؤں میں سیلابوں کی آمد جاری ہے اور لوگوں کے دل دھڑک رہے ہیں ایک طرف انہیں اپنی فصلیں
تباہ و برباد ہونے کا خدشہ ہے تو دوسری طرف انہیں اپنے مکان مال مویشی اور اپنی صحت کی فکر دامن گیر ہے تعلیم و آگاہی کی شرح دریائی دیہاتی علاقوں میں انتہائی کم ہے جہاں زیادہ تر لوگوں کو اپنے حقوق سے آگاہی نہیں اور نہ ہی وہ یہ جانتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری کیا ہیں اور رکن اسمبلی ان سے ووٹ لے کر آخر ان کے لیے کرتا کیا ہے۔؟؟؟
پھر وہ اپنی آواز کیا اٹھائیں گے کچھ کو تو علم ہی نہیں اور کچھ بااثر شخصیات کے سامنے اونچا بولنے کی ہمت نہیں کرسکتے آخر ان بھولے شریف لوگوں کے بھی حقوق ہیں مگر کیا انہیں ان کے حقوق خود بخود مل پائیں گے کیا اس بار تمام متاثرین سیلاب کو نقصان کے ازالے کے نام پر وعدے ہی سننا پڑیں گے یا پھر حقیقت میں بھی کچھ ہوگا کیا سیلاب کے دوران انہیں فوری خوراک اور علاج کی سہولت ہوگی یا پھر حکمت عملی بناکر صرف میڈیا کو ہی بتائی جائے گی۔؟؟؟
کیا ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر فضائی جائزہ ہی لیا جائے گا یا پھر کوئی مرد مجاہد افسر خود متاثرین کے درمیان بیٹھ کر ان کی مدد اپنی نگرانی میں کرائے گا سیلاب چاہے ضلع لیہ کی تحصیل کروڑ لعل عیسن کے موضع رکھواں بستی ٹوٹن یا بستی شادو خان کی دریائی پٹی پر علاقہ بستی قاضی کا ہو یا بستی پتافی کا بلکہ پورا پاکستان ہی جہاں جہاں سیلاب سے متاثر ہوتا ہے وہاں ہی لوگوں پر مصیبت بن کر آتا ہے حکومت موثر حکمت عملی بنائے گی تو ہی کسی کو فائدہ ہوگا ورنہ بے چاری عوام انہیں محرومیوں کی دلدل میں پھنسی رہے گی جس میں وہ کئی سالوں سے پھنسی ہوئی ہے