ڈی سی ہاؤس کے پڑوس میں چا ئلڈ لیبر کے مرا کز
تحریر محمد عمر شاکر
برصغیر میں مغلیہ حکومت کے خاتمے اور قیام پاکستان سے قبل برصغیر میں انگریز کے وضع کردہ نظام میں ڈپٹی کمشنر کو ضلع کی سطح پرلا محدود اختیارات سے نوازا گیا قیام پاکستان کے بعد بھی ڈی سی صاحبان انگریز کے اسی وضع کردہ نظام کے تحت ضلع کی حد تک سیاہ و سفید کے مالک ہوتے تھے مگر سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے ضلعی نظام حکومتوں میں ڈپٹی کمشنر کے عہدے کو ڈسٹرکٹ کوارڈینیشن آفیسر کے نام میں تبدیل کرتے ہوئے ضلعی ناظم کے ڈی سی او کو ماتحت کر دیا گیا بیوروکریسی کی چالیں یا غیر ملکی ایجنڈا تھا کہ صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سے رخصت ہوتے ہی مقامی
تحریر محمد عمر شاکر
برصغیر میں مغلیہ حکومت کے خاتمے اور قیام پاکستان سے قبل برصغیر میں انگریز کے وضع کردہ نظام میں ڈپٹی کمشنر کو ضلع کی سطح پرلا محدود اختیارات سے نوازا گیا قیام پاکستان کے بعد بھی ڈی سی صاحبان انگریز کے اسی وضع کردہ نظام کے تحت ضلع کی حد تک سیاہ و سفید کے مالک ہوتے تھے مگر سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے ضلعی نظام حکومتوں میں ڈپٹی کمشنر کے عہدے کو ڈسٹرکٹ کوارڈینیشن آفیسر کے نام میں تبدیل کرتے ہوئے ضلعی ناظم کے ڈی سی او کو ماتحت کر دیا گیا بیوروکریسی کی چالیں یا غیر ملکی ایجنڈا تھا کہ صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سے رخصت ہوتے ہی مقامی
حکومتوں کا وہ پلان بھی عوامی نظروں سے اوجھل ہو گیا ضلع لیہ میں لیہ شہر میں داخل ہوتے ہی فوارہ چوک میں ہی ڈی سی او اور ڈی پی او ہاؤسز ہیں چند روز قبل جب چائلڈ لیبر کے خلاف پنجاب بھر میں خشت بھٹوں پر آپریشن جاری تھا کہ دبئی پلٹ ایک دوست نے کھانے پرلیہ شہر میں مدعو کیا دوست کیساتھ کھانے گپ شپ سے فراغت کے بعد جب وہ مجھے گاڑی میں بٹھانے جا رہا تھا تو فوارہ چوک سے ملحقہ ورکشاپس کے سامنے اس نے گاڑی کھڑی کہ گاڑی میں کچھ کام ہونے والا ہے کرا لوں اسی بہانے مزید کچھ وقت اکٹھے گزارنے کا موقع مل جائے گا جو نہی ہم نے گاڑی کھڑی کی تو استاد کیساتھ دو معصوم کم عمر بچے آئے اور جو کام کہا کرنے میں مصروف ہو گے میں نے دبئی پلٹ دوست سے پوچھا کہ دبئی میں بھی کیا اسی طرح بچوں سے مشقت لی جاتی ہے تو اس دوست نے کہا میں نے دنیا کے کئی ممالک کے سفر کیے مگر بچوں کیساتھ جو ظلم چائلڈ لیبر کے قانون کی جس بری طرح مخالفت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کی جاتی ہے اس کی کو ئی مثال دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہے کرائم قانون کی خلاف ورزی دنیا کے ہر کونے میں شیطانی آلہ کار کرتے ہیں مگر ڈی سی او ہاؤس کے سامنے چائلڈ لیبر ان بچوں جن کے ہاتھوں میں قلم کتاب ہونی چاہیے تھی پیچ کس پلاس ہتھوڑیاں ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے ؟؟؟؟ کیا کبھی اسکا خاتمہ بھی ہو گا ؟؟؟دوست کے ساتھ میں یہی گفتگو کر رہا تھا تو میرے ذہن میں آیا کہ ڈی سی ہاؤس سے ڈی سی او آفس تک جانے والے راستے میں بھی ورکشاپس ہیں لیہ سے سینکڑوں میل دور لاہور میں بیٹھے ہوئے آفیسران بالا نے حکم دیا انتظامیہ متحرک ہوئی خشت بھٹوں پر آفیسران نے چڑھائی کر دی کہ اٹھارہ سال سے کم عمر کوئی بچہ کام کرتا ہو نظر نہ آئے اینٹوں کے بھٹوں کے سرمایہ دار مالکان نے مختلف یونین کونسل کے سیکرٹری صاحبان سے رابطہ کیا سیاسی شخصیات متحرک ہوئی اور بارہ تیرہ سالوں کے بچوں کو بھی اٹھارہ سال کا برتھ کمپیوٹرائزڈ سرٹیفکیٹ جاری ہونے کی خبریں منظر عام پر آگئیں ڈی سی او ضلع کا حاکم ہوتا ہے جب تک کوئی ضلعی چئیرمین منتخب نہیں ہوتا اس وقت تک بلا شرکت غیرے اقتدار کا مالک ہے واقفان قوانین کا کہنا ہے کہ ڈی سی او اتنے اختیارات کا مالک ہے کہ وہ کسی بھی شخص کی جائیداد بحق سرکار ضبط کر سکتا ہے کسی بھی شہری کو ضلع بدر کر سکتا ہے جو درخت جتنا اونچا ہوتا ہے اسے اتنے ہی مسائل کا سامنا ہوتا ڈی سی او رانا گلزار کے فرائض منصبی میں شامل ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھر کے سامنے گھر سے آفس جانے والے راستے میں ورکشاپس اور ہوٹلز یا دوسری جگہوں پر ہونے والی چائلڈ لیبرز کی خلاف ورزی کا خاتمہ اولین اور ضلع بھر میں اس کا خاتمہ کرنے کے اقدامات کریں بلاشبہ بڑھتی ہوئی مہنگائی بیروزگاری سے حالات روز بروز ابتر صورت احوال اختیار کیے ہوئے ہیں مگر پھر بھی ۔۔۔۔۔۔ ان بچوں جن کے ہاتھوں میں قلم کتاب کاندھوں پر بکس کے بیگ ہونے چاہیے تھے ان کے ہاتھوں میں استرو رینچ پیچ کس مختلف اوزار کپ پلیٹیں اور کاندھوں پر جوتے کرنے والی پالش کے بیگ میں کمی تو لائی جا سکتی ہے کبھی بغیر پروٹوکول حفاظتی حصار کے روپ بدل کر ڈی سی او لیہ رانا گلزار اپنے آفس اپنے گھر ڈی سی او ہاؤس میں زیر تعمیر مسجد جس کی انکے دور تعیناتی میں تعمیر شروع ہوئی سے نکل کر دیکھیں تو سہی ہمسائیہ ماں جائیہ ہوتا ہے اپنے ہمسائیگی میں معصوم پھول بچوں کیساتھ کیا ظلم روا رکھا جا رہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے ؟؟؟ کیا مخیر حضرات سماجی ۔مذہبی ۔سیاسی تنظیموں کیساتھ ملکر کوئی ایسی ریاستی پالیسی نہیں بنائی جاسکتی کہ ان معصوم بچوں کی تعلیم و تربیت بھی ہو جائے اور انکے گھر کے چولہے بھی نا بجھیں ۔۔۔۔ صرف لیہ ہی نہیں میرے آبائی شہر چوک اعظم سمیت فتح پور کروڑ اور نواحی کاروباری اڈوں پر بچوں کیساتھ یہ ظلم ہو رہا ہے ۔۔۔۔ ریاستی متعلقہ ادارے کہاں غائب ہیں ۔۔۔۔۔۔ کیاں انکے بچے نہیں ہیں ۔۔۔۔۔ اگر مغلیہ شہزادوں ۔۔۔ عراقی صدر صدام حسین ۔۔۔ لیبائی صدر معمر قزافی سمیت دنیا کے طاقتور ترین حکمرانوں پر برے دن آسکتے ہیں تو ان آفیسران پر کیاں نہیں ۔۔۔ ان کے بچے بھی تو گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان ہی ہیں ۔۔۔ کیا وہ بھی پھر ان آفیسران کی چشم پوشی کا کفارہ ایسے ہی ۔۔ ۔۔۔ ورکشاپس ۔۔۔ہوٹلز ۔۔۔۔۔ کارخانوں ۔۔۔۔۔۔ جاگیرادوں کی فصلوں ۔۔۔۔۔دکانوں ۔۔۔ پر کام کر کے ادا کریں گئے ڈی سی او ہاؤس کے سامنے چائلڈ لیبرپربات چیت ہو رہی تھی کہ ایک ایک دوست آگئے انہوں نے ڈی سی او ہاؤس سے مشرق کی طرف ضلعی گورنمنٹ کے تعلیمی ادارے لیہ پبلک سکول میں کرپشن بے ضابطگیوں کے جو قصے سنائے وہ آئندہ تحریر میں قارئین کی نظر کیے جائیں گے ٹیوٹا کے ذریعے ہنر سکھائے جا رہا ہیں مختلف این جی اوز بھی بیرونی ممالک سے فنڈ لیکر اس پر کام کر رہی جوکاغذی کاروائی تک محدود ہے عام آدمی تک اس کے ثمرات نہیں پہنچ رہے۔۔۔۔