ضلع لیہ کے علاقہ نشیب میں دریائے سندھ کی تباہ کاریوں کی داستان بڑی طویل ہے با با رحمتا سے پہلے جب وطن عزیز میں پانی کی کمی کو ئی اہم موضع نہیں تھا اس وقت ہر سال دریائے سندھ کی جو لانیاں سیلاب کی شکل میں نشیب میں بسنے والے لوگ سہتے تھے دریائے سندھ میں معمول کے مطا بق آ نے والا سیلاب تھوڑے بہت نقصان کے ساتھ سا تھ نشیب کی دھرتی کو نئی زندگی دیتا لیکن بعض اوقات سندھ دریا جب ناراض ہو جاتا تب اس کا غضب دیدنی ہو تا پا نی اتنا زیادہ ہو تا کہ اپنے راستے میں آ نے والا سب کچھ تاراج کر دیتا ۔
میری زند گی کے گذرے چھ عشروں میں میں نے دو بار دریائے سندھ کو حالت غضب میں دیکھا ایک بار ستر کی دہائی میں اور دوسرا بیس کی دہائی میں ۔ دو ہزار دس میں آ نے والا سیلاب بہت خو فناک تھا سندھ کی بپھر ی او نچی لہروں میں نشیب کی سینکڑوں چھوٹی بڑی بستیوں کی بسیاں اور کئی مواضعات صفحہ ہستی سے مٹا دیئے ۔ نشیب میں ساری کچی پکی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئیں راستے مسدود ہو گئے مکانات گر گئے اور ہزاروں انسان بے گھر ہو گئے ۔
کہتے ہیں اگر کا لا باغ ڈیم بن جاتا تو نہ صرف نشیب میں رہنے والے لوگ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچ جا تے بلکہ شیر دریا کا ہر سال جو 32 سے 40 ملین ایکڑ فٹ پا نی جو سمندر میں گر کر ضا ئع ہو رہا ہے اسے بھی استعمال میں لا یا جا سکتا ہے ما ہرین کہتے ہیں کہ سمندر میں گر کر ضا ئع ہو نے اس پا نی کے صرف ایک چو تھا ئی سے چار ملین بنجر اور بے آ باد زمین کو قا بل کا شت بنا یا جا سکتا ہے اور دریا ئے سندھ پر صرف ایک کا لا باغ ڈیم کی تعمیر سے 3600 میگا واٹ سے زائد بجلی حا صل کی جا سکتی ہے وقت گذر گیا مگر ہم کچھ نہ کر سکے نہ جمہوری حکو متیں اور نہ ہی اسلام اور جمہوریت کے نام پر آ نے والے ڈکٹیٹر ۔۔ اور ہوا یہ ہے کہ بجلی کی کمی اور لوڈ شیڈ نگ نے اند ھیرے کر دیئے ۔ صنعتیں بند ہو گئیں اور بے روزگاری کا عفریت سر چڑھ کر نا چنے لگا ۔ رہی سہی کسر وطن عزیز میں کرپشن ، جھوٹ اور ہو نے والی دہشت گردی نے پوری کر دی ۔
خیر ذکر ہو رہا تھا جنوبی پنجاب کے نشیبی وسیب میں دریائے سندھ کی تباہ کاریوں کا ۔ جب سیلاب آ یا کرتے تھے تو با قتدار و با اختیار سیاسی شہزادوں نے اپنے رقبوں کو بچا نے کے لئے ڈنگ ٹپاؤ سکیم کے تحت شیر دریا کی آ بی گذر گاہ کو روکنے کے لئے سٹڈ اور سپر بند بنا نے شروع کر دیئے بے ترتیب و بے ہنگم ذاتی پسند و نا پسند بنیادوں پر بننے والے ان سپر اور سٹڈ بندوں نے شیر دریا کو اپنا رخ موڑنے پر مجبور کر دیا ،
اب اس کا ٹارگٹ عام بستیاں اور شہری علاقے بن گئے شیر دریا کی سر کش لہریں نصف صدی قبل قبل بنے مٹی کے بندوں سے ٹکرانے لگیں اب پانی کی کمی کے باعث سیلاب تو کم ہو گئے مگر نشیب کے علا قوں میں آ وارہ پا نی نے اپنی منزل تلاش کر نے کے لئے آ با دیوں اور حفاظتی بندوں کا کٹا ؤ شروع کر دیا ، اور دیکھتے ہی دیکھتے دریائے سندھ کے کٹاؤ نے کئی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹا ڈالیں سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا اور ہزاروں فراد در بدر ہو گئے ۔ ضلع لیہ کے نشیب میں دریائے سندھ کا کٹاؤ برسوں سے جا ری ہے ڈھول والی کوٹ سلطان سے لے کر کروڑ نشیب میں مو ضع واڑہ سیہڑاں کی تباہ حال بستیاں اس تباہ کاری کی منہ بو لتا ثبوت ہیں ۔ مسلم لیگ ن کی حکو مت کے زمانے میں بھی دریائی کٹاؤ کا یہ عفریت بے قا بو تھا اور آ ج بھی بیٹ گجی کے مکیں اس دریائی کٹاؤ کے متا ثرین کئی دنوں سے سینہ کو بی میں مصروف ہیں ۔
سنا ہے کہ اب ان کی سنی گئی ہے خبروں کے مطا بق حکو مت پنجاب نے بیٹ گجی حفا ظتی بند پر گذ شتہ بیس پچیس دنوں سے جاری دریائے سندھ کے کٹاؤ کے مسئلہ کی اہمیت تسلیم کرتے ہو ئے ایمر جنسی اقدا مات کئے ہیں ، خبر کے مطا بق ایم این ملک نیاز جکھڑ اور ڈپٹی کمشنر کی کو ششیں رنگ لا ئی ہیں اور وزیر اعلی پنجاب نے "کمال شفقت "کرتے ہو ئے 22 کروڑ کی گرانٹ جاری کر نے کی منظوری دے دی ہے ۔
ضلعی انتظا میہ نے ہنگا می بنیادوں پر ٹھیکیدار بہادر کی خدمات حا صل کر لی ہیں اور بیٹ گجی میں در یا ئی کٹاؤ کا معا ئینہ کر تے ہو ئے ڈپٹی کمشنر نے احکامات جاری کئے ہیں کہ پتھر ڈالنے کے کام کو بلا تعطل جاری رکھا جا ئے ۔ تفصیل کے مطا بق اب وہاں پتھر اور مٹی ڈال کر حفا ظتی بند کو محفوظ بنا نے کا کام تیزی سے ہو رہا ہے علاقہ میں دو سٹڈ بھی تعمیر کئے جا ئیں گے اور یوں بیٹ گجی محفوظ ہو جا ئے گا ۔ لیکن شیر دریا کا سفر تو جاری رہے گا ایک راستہ بند ہو نے کے بعد شیر دریا پھر کسی اور کمزور پوائینٹ سے انسانی بستیوں کو نشا نہ بنا ئے گا ۔۔ خوف اور دہشت کے مارے لوگ پھر کئی ہفتوں سینہ کو بی کریں گے ایک بار پھر اقتدار کا ہماء پتھر اور مٹی ڈالنے کے لئے” کمال شفقت "کرتے ہو ئے کروڑوں کے فنڈز دریا برد کر نے کے لئے احسان کرے گا ۔۔ اور یوں یہ سلسلہ جو برسوں سے جاری ہے بر سوں جاری رہے گا ۔ نشیب کے بے بس بے حال عوام کو کچھ ملے نہ ملے ان کی حفا ظت کے لنام پرکروڑوں کے پتھر ہر سال دریا برد ہو تے رہیں گے ۔۔ اور میرا نقطہ نظر ہے کہ دریا برد ہو نے والے یہ کروڑوں کے پتھر بھی کسی کے کمال شفقت کا عطیہ نہیں بلکہ عوامی احتجاج وسینہ کو بی کا کمال ہو تا ہے ۔۔
اور مزید یہ کہ اگر گذشتہ دس بر سوں میں کٹاؤ کے نام پر دریا برد کئے جانے والے پتھروں کا حساب کیا جا ئے تو شا ئد حکومت ایک ڈیم کی تعمیر کا بجٹ تو ضرور پا نی میں بہا چکی ہو گی ۔۔مگر مسئلہ جوں کا توں ۔۔۔ کو ئی ہے حساب لینے والا ؟