یوم پا کستان23مارچ۔ایک تاریخ ساز دن
اسد ملک
اسد ملک
سال 1906ء میں مسلم لیگ کے قیام کے بعد باقاعدہ تحریک کا آغاز کرنے والے مسلمانوں نے بہت جلد قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں دنیا والوں کو یہ باور کرا دیا کہ برصغیر پاک وہند میں دو بڑی قومیں آباد ہیں جن کی نظریاتی اساس یکسر مختلف ہے۔ ان دو بڑی قوموں میں ایک مسلمان اور دوسری ہندو مت سے تعلق رکھتی ہے۔ دونوں کے عقائد و رسومات میں ایک بڑا واضح فرق تھا۔ جو کسی طور بھی ایک قطعہ زمین پر ایک ہی نظریے کی پاسداری کرتے ہوئے اکٹھے نہیں رہ سکتے تھے۔ اس بنیادی نقطے نے برصغیر میں دو قومی نظریے کی اساس کی بنیادوں کو مضبوط کیا اور پھر برطانوی راج کو بر صغر کو دو نظریاتی حصوں میں تقسیم کرنا پڑا۔ قائداعظم نے ایک جلسہ میں
خطاب کے دوران بڑے واضح الفاظ میں فرمایا: ’’مسلمان موحد ہیں۔ ان کی ایک مجلس ‘ان کا ایک جھنڈا‘ ان کاایک راہ نما اور ان کاایک ہی قسم کا سوراج ہونا چاہئے۔ ان کو ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہنا چاہئے تاکہ ان کو نہ انگلستان پیس سکے اور نہ ہندو دبا سکے۔‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ اس قافلے نے بہت سی قربانیاں دیں تب جا کر لوگوں کا ایک جم غفیر بنا اور 23مارچ 1940ء کے موقع پر ایک تاریخ ساز قرارداد پیش کر دی گئی جسے قرارداد پاکستان کہا گیا۔ یہ وہ موقع تھا جب باقاعدہ تحریری طور پر ایک قرارداد کے ذریعے آزاد ریاست پاکستان کا مطالبہ کیا گیا۔ ایسی کامیاب قرارداد کے پیش کرنے پر خود قائداعظم فرماتے ہیں:’’مجھے اعتماد ہے کہ ہندوستان بھر کے مسلمان اس قرارداد کی علت و اہمیت کا یہ خوبی احساس کرتے ہیں کہ جو آل انڈیا مسلم لیگ کے پورے سیشن میں منظور ہوئی۔وہ دن اسلامی ہند اور ہندوستان کی آئندہ تاریخ میں ایک یادگار دن تھا۔ قرارداد لاہور جو پورے غور و خوض کے بعد منظور کی گئی تھی صاف اور غیرمجسم طورپر ہمارے منتہائے مقصود کی وضاحت کرتی ہے۔‘‘
اس کامیاب قرارداد نے بہت جلد عملی اقدامات کا روپ اختیار کیا اور یوں 14اگست 1947ء کو ہمارا پیارا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ آج ہم تاریخ کے ان سنہری صفحات کا مطالعہ کرتے ہوئے اشک بار ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے سینہ فخر سے تن جاتے ہیں کہ کس طرح ہمارے اسلاف نے اپنی یکجہتی کی قوت کو دنیا سے منوایا اور ایک جمہوری مملکت کا حصول ممکن ہوا۔ لیکن تاریخ کے صفحات کو پلٹ کر دور حاضر میں نگاہ ڈالیں تو کیا دکھائی دیتا ہے : بقول اقبال
میرسپاہ نا سزا‘ لشکریاں شکستہ صف
آہ! وہ تیر نیم کش‘ جس کا نہ کوئی ہدف
تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج دکھ چکا صدف صدف!
وطنِ عزیز نے بہت سی سیاہ راتوں کے پردے سے چاک سفیدی کی چمک دیکھی ہے لیکن اس روشنی کو شمع راہ بنا کر مستقبل کی راہوں کو روشن نہیں کیا ہے۔ انتشار ، لاقانونیت ، انفاق جیسی کئی بیماریاں ہمارے اندر اکٹھی ہو چکی ہیں جو ہمارے اس پیارے وطن کے وجود کو چاٹنے لگی ہیں۔ ہم نے مغربی تعلیم کو اپنانے میں بڑی فراخدلی دکھائی لیکن اس فراخ دلی میں اپنے افکار کو بھی بھولا دیا۔ جدید تعلیمات کی اساس ہمارے اسلاف کے علم و قلم سے لکھی ہوئی ہے لیکن ہم اسی اساس کو بدل کر ان اطوار کو اپنانے اور منانے میں جت گئے کہ جن سے مغربی ترقی والوں نے انحراف کیا تب جا کر مریخ و مشتری پر گھر بنانے کا سوچا جائے۔
تاریخ کا ہر دور اس دور کے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ نوجوان وہ اثاثہ ہیں جو کسی بھی دور کی سنہری تاریخ کے اوراق کو بناتے اور سنوارتے ہیں۔ آج کا دور بھی میرے وطن کے ان نوجوانوں کا ہے جو اپنے اسلاف کی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے نئی منزل کی راہ متعین کرنے میں مگن ہیں۔ ہماری روشن روایات کے امین نوجوان ثریا تک راہیں بناتے ہیں۔ اس تاریخی دن کو مناتے ہوئے ہمیں اس عہد کی تجدید کرنے کا موقع میسر آیا ہے۔ کہ جس کی تلقین ہمارے قائداعظم نے کی تھی۔ جس کی تشریح ہمارے اقبال نے فرمائی تھی۔ ہمیں علم و ہنر کو اپنانا ہے لیکن اس علم و ہنر کا پرچار کرنا ہے جس میں جدیدیت تو ہو لیکن
روایات سے انحراف نہ ہو۔ اور یہ سب تبھی ممکن ہے جب ہم ایمان‘ اتحاد اور یقین محکم کی لازوال طاقت سے خود کو آراستہ کر لیں گے اس قوت کے استعمال سے دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نیچا نہیں دکھا سکے گی۔اقبال کے اس خوب صورت خیال کے ساتھ:
مثل کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی
اب بھی درخت طور سے آتی ہے بانگ لاتخف
مشکلات کس قوم پر نہیں آتیں لیکن کامیاب قومیں وہی ہیں جو ان مشکلات سے نبردآزما ہو کر کامیابی سے اپنا راستہ خود بناتی ہوئے منزل کی جانب رواں دواں رہتی ہیں۔گزشتہ چند سالوں میں مجموعی طور پر پورے ملک اور خصوصی طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی نے فضا کو یکسر غیرمحفوظ بنائے رکھا جس کا لامحالہ براہ راست صوبے کی ترقی اور دیگر کئی منصوبوں پر بھی پڑا۔پورے ملک کے حالات کیوں خراب رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ جڑی ہوئی کئی باتیں ہیں جن میں سے ایک بیرونی عناصر کی مداخلت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ ان بیرونی عناصر کا مقصد صوبے میں عدم تحفظ کی فضا کو برقرار رکھنا اور یہاں موجود نام نہاد قومیت کے پرچار کرنے والے ’’بے قومے‘‘افراد کو استعمال کرتے ہوئے درپردہ اپنے گھناؤنے عزائم تک رسائی حاصل کرنا شامل ہے۔ موجودہ صورت حال کو نظر میں رکھیں تو پورے ملک میں دہشت گردی کی فضا ایک نے غیریقینی کی سی صورت حال قائم کر رکھی تھی۔ ان غیریقینی حالات نے ترقی کی پیش رفت کو بھی متاثر کیا ہے۔ جو رفتہ رفتہ اعتدال کی جانب آ چکی ہے اور بہت جلد مکمل طور پر حالات پرامن اور معاون ترقی کی راہ پر چل نکلیں گے۔ ایسے میں نوجوان نسل سے امید قوی کی جا سکتی ہے کہ وہ حالات کی باگ دوڑ کو مثبت ہاتھوں میں تھمانے کا کام کریں گے۔ علم ، ایمان، اتحاد اور تنظیم کے نعرے کو بلند کریں گے اور وطن عزیز کو ترقی کی نئی منزل کی جانب لے جانے میں اہم اقداما ت کی جانب پیش رفت کریں گے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اس قافلے نے بہت سی قربانیاں دیں تب جا کر لوگوں کا ایک جم غفیر بنا اور 23مارچ 1940ء کے موقع پر ایک تاریخ ساز قرارداد پیش کر دی گئی جسے قرارداد پاکستان کہا گیا۔ یہ وہ موقع تھا جب باقاعدہ تحریری طور پر ایک قرارداد کے ذریعے آزاد ریاست پاکستان کا مطالبہ کیا گیا۔ ایسی کامیاب قرارداد کے پیش کرنے پر خود قائداعظم فرماتے ہیں:’’مجھے اعتماد ہے کہ ہندوستان بھر کے مسلمان اس قرارداد کی علت و اہمیت کا یہ خوبی احساس کرتے ہیں کہ جو آل انڈیا مسلم لیگ کے پورے سیشن میں منظور ہوئی۔وہ دن اسلامی ہند اور ہندوستان کی آئندہ تاریخ میں ایک یادگار دن تھا۔ قرارداد لاہور جو پورے غور و خوض کے بعد منظور کی گئی تھی صاف اور غیرمجسم طورپر ہمارے منتہائے مقصود کی وضاحت کرتی ہے۔‘‘
اس کامیاب قرارداد نے بہت جلد عملی اقدامات کا روپ اختیار کیا اور یوں 14اگست 1947ء کو ہمارا پیارا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ آج ہم تاریخ کے ان سنہری صفحات کا مطالعہ کرتے ہوئے اشک بار ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے سینہ فخر سے تن جاتے ہیں کہ کس طرح ہمارے اسلاف نے اپنی یکجہتی کی قوت کو دنیا سے منوایا اور ایک جمہوری مملکت کا حصول ممکن ہوا۔ لیکن تاریخ کے صفحات کو پلٹ کر دور حاضر میں نگاہ ڈالیں تو کیا دکھائی دیتا ہے : بقول اقبال
میرسپاہ نا سزا‘ لشکریاں شکستہ صف
آہ! وہ تیر نیم کش‘ جس کا نہ کوئی ہدف
تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج دکھ چکا صدف صدف!
وطنِ عزیز نے بہت سی سیاہ راتوں کے پردے سے چاک سفیدی کی چمک دیکھی ہے لیکن اس روشنی کو شمع راہ بنا کر مستقبل کی راہوں کو روشن نہیں کیا ہے۔ انتشار ، لاقانونیت ، انفاق جیسی کئی بیماریاں ہمارے اندر اکٹھی ہو چکی ہیں جو ہمارے اس پیارے وطن کے وجود کو چاٹنے لگی ہیں۔ ہم نے مغربی تعلیم کو اپنانے میں بڑی فراخدلی دکھائی لیکن اس فراخ دلی میں اپنے افکار کو بھی بھولا دیا۔ جدید تعلیمات کی اساس ہمارے اسلاف کے علم و قلم سے لکھی ہوئی ہے لیکن ہم اسی اساس کو بدل کر ان اطوار کو اپنانے اور منانے میں جت گئے کہ جن سے مغربی ترقی والوں نے انحراف کیا تب جا کر مریخ و مشتری پر گھر بنانے کا سوچا جائے۔
تاریخ کا ہر دور اس دور کے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ نوجوان وہ اثاثہ ہیں جو کسی بھی دور کی سنہری تاریخ کے اوراق کو بناتے اور سنوارتے ہیں۔ آج کا دور بھی میرے وطن کے ان نوجوانوں کا ہے جو اپنے اسلاف کی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے نئی منزل کی راہ متعین کرنے میں مگن ہیں۔ ہماری روشن روایات کے امین نوجوان ثریا تک راہیں بناتے ہیں۔ اس تاریخی دن کو مناتے ہوئے ہمیں اس عہد کی تجدید کرنے کا موقع میسر آیا ہے۔ کہ جس کی تلقین ہمارے قائداعظم نے کی تھی۔ جس کی تشریح ہمارے اقبال نے فرمائی تھی۔ ہمیں علم و ہنر کو اپنانا ہے لیکن اس علم و ہنر کا پرچار کرنا ہے جس میں جدیدیت تو ہو لیکن
روایات سے انحراف نہ ہو۔ اور یہ سب تبھی ممکن ہے جب ہم ایمان‘ اتحاد اور یقین محکم کی لازوال طاقت سے خود کو آراستہ کر لیں گے اس قوت کے استعمال سے دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نیچا نہیں دکھا سکے گی۔اقبال کے اس خوب صورت خیال کے ساتھ:
مثل کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی
اب بھی درخت طور سے آتی ہے بانگ لاتخف
مشکلات کس قوم پر نہیں آتیں لیکن کامیاب قومیں وہی ہیں جو ان مشکلات سے نبردآزما ہو کر کامیابی سے اپنا راستہ خود بناتی ہوئے منزل کی جانب رواں دواں رہتی ہیں۔گزشتہ چند سالوں میں مجموعی طور پر پورے ملک اور خصوصی طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی نے فضا کو یکسر غیرمحفوظ بنائے رکھا جس کا لامحالہ براہ راست صوبے کی ترقی اور دیگر کئی منصوبوں پر بھی پڑا۔پورے ملک کے حالات کیوں خراب رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ جڑی ہوئی کئی باتیں ہیں جن میں سے ایک بیرونی عناصر کی مداخلت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ ان بیرونی عناصر کا مقصد صوبے میں عدم تحفظ کی فضا کو برقرار رکھنا اور یہاں موجود نام نہاد قومیت کے پرچار کرنے والے ’’بے قومے‘‘افراد کو استعمال کرتے ہوئے درپردہ اپنے گھناؤنے عزائم تک رسائی حاصل کرنا شامل ہے۔ موجودہ صورت حال کو نظر میں رکھیں تو پورے ملک میں دہشت گردی کی فضا ایک نے غیریقینی کی سی صورت حال قائم کر رکھی تھی۔ ان غیریقینی حالات نے ترقی کی پیش رفت کو بھی متاثر کیا ہے۔ جو رفتہ رفتہ اعتدال کی جانب آ چکی ہے اور بہت جلد مکمل طور پر حالات پرامن اور معاون ترقی کی راہ پر چل نکلیں گے۔ ایسے میں نوجوان نسل سے امید قوی کی جا سکتی ہے کہ وہ حالات کی باگ دوڑ کو مثبت ہاتھوں میں تھمانے کا کام کریں گے۔ علم ، ایمان، اتحاد اور تنظیم کے نعرے کو بلند کریں گے اور وطن عزیز کو ترقی کی نئی منزل کی جانب لے جانے میں اہم اقداما ت کی جانب پیش رفت کریں گے۔