سپریم کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر 6 ہفتے کے لیے ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواستِ ضمانت کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے 50 لاکھ روپے کے مچلکے کے عوض نواز شریف کی 6 ہفتوں کے لیے ضمانت منظور کرلی، تاہم انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں ہوگی، نواز شریف سزامعطلی کے دوران مرضی کے ڈاکٹر اور اسپتال سے علاج کراسکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے نواز شریف کو 2 ضمانتی بھی دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ انہیں چھ ہفتے بعد خود گرفتاری دینی ہوگی، اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو انہیں گرفتارکرکے پیش کیاجائے۔
عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کہا کہ اگر نواز شریف کو دوبارہ ضمانت درکار ہو تو اس کے لئے انہیں دوبارہ درخواست دیناہوگی، تاہم ان کی ضمانت اسلام آباد ہائی کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوگی۔
قبل ازیں آج سماعت شروع ہوئی نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 5 میڈیکل بورڈز نے نواز شریف کی طبیعت کا جائزہ لیا اور ہر میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کو اسپتال منتقل کرنے کی سفارش کی، نواز شریف کو ہائپر ٹینشن، دل، گردے اور شوگر کے امراض ہیں جن میں سے گردوں کا مرض انجیو گرافی میں پیچیدگیوں کا باعث ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جس بنیاد پر کیس بنا رہے ہیں وہ ایک خط ہے، آپ کا کیس ہی یہی ہے صحت دن بدن گر رہی ہے، صحت اور مرض بگڑنے کے شواہد پر ہی سزا معطلی کا کیس بنتا ہے، آپ کا سارا انحصار صرف ڈاکٹر لارنس کے خط پر ہے، ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ڈاکٹر لارنس زندہ بھی ہے یا نہیں، فوجداری کیس میں خط پر انحصار نہیں کیا جاتا۔
فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ججز نے باہمی مشاورت کی اور چیف جسٹس نے فیصلہ تحریر کیا۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواستِ ضمانت 6 ہفتوں کے لیے منظور کرلی۔
سابق وزیراعظم نوازشریف نے سزا معطلی کیس میں مزید دستاویزات جمع کرائی تھیں جن میں ایک خط بھی شامل ہے جو ڈاکٹر لارنس کی جانب سے نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کے نام لکھا گیا ہے۔ خط میں نوازشریف کی 2003 سے 2019 تک کی میڈیکل رپورٹس شامل ہیں۔
واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطل کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ نوازشریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 برس کی سزا سنائی گئی تھی اور لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید رکھا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں ایون فیلڈ ریفرنس میں بھی سزا ہوئی ہے جو کہ عدالت نے معطل کررکھی ہے۔