تبدیلی کے نعرے کیساتھ قومی اسمبلی میں پہنچنے والے تھل (خوشاب، میانوالی، بھکر ،لیہ،مظفرگڑھ جھنگ ، چینوٹ) کے ارکان اسمبلی کی دھیمی، میٹھی اور جوشیلی آواز میں ان کے اپنے حلقوں کے عوامی ایشوز کے بارے میں تقریریں اور اسمبلی کے فلور پر سوال کرنے کا بے چینی سے انتظار تھا ، امید تھی اب کی بار پرانا سیلبس نہیں چلیگا بلکہ تبدیلی کے نعرے میں نئی شروعات ہونگی لیکن حکومت کو چھ ماہ کی مدت گزرنے کے بعد اتنا اندازہ تو ہوچلاہے کہ پچھلے ادوار کی طرح اس بار بھی تھل کے ارکان اسمبلی خاموشی کے روزہ کو توڑنے پر تیار نہیں ہیں۔ادھرایسا بھی نہیں ہے کہ تھل کے سات اضلاع سے منتخب ارکان اسمبلی سیاسی طورپرگونگے اور بہرے ہیں، سارے ارکان اسمبلی مکمل بولنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، سیاسی میدان میں بھی خاصا تجربہ بھی رکھتے ہیں، تھل کے ارکان اسمبلی میں سے اکثریت اس بات پر فخر بھی کرتی ہے کہ یہ ان کے آبائی حلقے ہیں، مطلب وہ سب جانتے ہیں، وغیرہ وغیرہ ۔ جیسے راقم الحروف نے پہلے تصدیق کی ہے کہ تھل کے ارکان اسمبلی سیاست کے نشیب وفراز کو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں لیکن بولتے اسوقت ہیں، جب اشارہ ملے یا ذاتی وسیاسی مفاد دروازے پر دستک دے رہاہو، پھر خوب بولتے ہیں اور پانی میں ایسی مدھانی مارتے ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔ یاد رہے کہ قومی اسمبلی کے فلور پر کی گئی اپنی تقریروں میں تھل کے ارکان اسمبلی اس بات کا بطور خاص خیال رکھتے ہیں کہ کہیں زبان پھسل کر بھی عوامی ایشوز کی طرف نہ چلی جائے اور وفاقی دارلحکومت اسلام آباد بالخصوص ملک بھر سے منتخب ہوکرآنیوالے ارکان اسمبلی کو اس راز کا پتہ نہ چل جائے کہ جس تھل کے سات اضلاع خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ ، مظفرگڑھ، جھنگ اور چینوٹ سے یہ ارکان اسمبلی منتخب ہوکر آئے ہیں،وہاں پرقیام پاکستان کو 71سال گزرنے کے باوجود تھل میں ایک ایئر پورٹ نہیں ہے، ایک میڈیکل کالج نہیں ہے،ایک ڈینٹل کالج نہیں ہے، ایک وویمن یونیورسٹی نہیں ہے،ایک یو ای ٹی لاہور اور ٹیکسلا کی طرح انجیرنگ یونیورسٹی نہیں ہے،لہور ،ملتان کی طرح ایک ٹیکنالوجی کالج نہیں ہے، ایک موٹروے تو درکنار ایک ایسا روڈ بھی نہیں ہے، جوکہ پرسکون سفر کا ضامن ہو ، ادھرپنجاب یونیورسٹی لاہور اور بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان جیسی ایک یونیورسٹی نہیں ہے، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد اورپیر مہرعلی شاہ (ایرڈ) یونیورسٹی راولپنڈی کی طرح ایک زرعی یونیورسٹی نہیں ہے، نشتر ہسپتال ملتان اور وکٹوریہ ہپستال بہاولپور کی طرح کوئی ایک ٹیچنگ ہسپتال نہیں ہے،ایک نرسنگ کالج نہیں ہے،ایک ٹراما سنٹر نہیں ہے، ایک ہائی کورٹ کا بنچ نہیں ہے،ایک چلڈرن ہسپتال نہیں ہے،تھل کے اضلاع پر مشتمل ایک ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر نہیں ہے،ایک کرکٹ اسٹیڈیم نہیں ہے،ایک ہاکی اسٹیڈیم نہیں ہے،ادھر تھل کے ضلعی ہسپتالوں کی حالت زار کا اندازہ اس ایک مثال سے لگایاجاسکتاہے کہ لیہ کا ضلعی ہسپتال تحصیل ہیڈکوارٹر کی عمارت میں کام کررہاہے اور اس کیلئے مختص اراضی پر آفیسر کالونی بنانے کی آوازیں آرہی ہیں۔ یوں تحصیل ہیڈکوارٹر لیہ کی عمارت میں ضلعی ہسپتال کو ٹھونسے کا نتیجہ یہ سامنے آیاتھاکہ علاج معالج کی ضلعی ہسپتال میں اتنی سہولتیں تھیں کہ معدہ صاف کرنے کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے نواز لیگی دور میں زہریلی مٹھائی کھانے کی وجہ سے 32معصوم بچے موت کے منہ میں چلے گئے تھے اور ایک ہی جھٹکے میں اتنے خاندان اجڑ گئے کہ نیا قبرستان بسانا پڑا لیکن ریاست اور حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی تھی۔ادھر خادم اعلی پنجاب شہبازشریف نے اس بدقسمت گاوں میں ڈسپنری بنانے کا اعلان کیاتھا لیکن آج تک اس اعلان کو حقیقی شکل میں نہیں ملی ہے۔ ساتھ آج بھی ضلعی ہپستال لیہ اسی تحصل ہیڈ کوارٹر لیہ کی عمارت میں اسی جگہ اور انہی حالات میں ہے،جو پہلے سے چل رہے تھے، مطلب سیلبس وہی چل رہاہے کہ عوام کیلئے لیہ کے ضلعی ہسپتال میں معدہ صاف کرنے کی سہولت نہ کل تھی اور نہ اب ہے اور نہ ہی ضلعی ہسپتال لیہ کو اس کیلئے مختص اراضی پر منتقل کرنے کیلئے کوئی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔پچھلے دنوں لیہ میں ایک قومی اخبار میں لیہ کے تحقیقاتی رپورٹر محسن عدیل چودھری کی خبر پڑھی تو چونک ہی گیاکہ حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں ۔اور کوئی رکن قومی اسمبلی اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہاہے اور نہ ہی قومی اسمبلی کے فلور پر آواز اٹھارہاہے کہ وفاقی حکومت نوٹس لے کہ لیہ بالخصوص تھل کے اضلاع میں خواتین کی تعلیم کیلئے اساتذہ آٹے میں نمک کے برابر رہ گئے ہیں۔ خبر یوں تھی کہ لیہ میں خواتین کی10 تعلیمی درسگاہوں میں زیر طالبات کی تعداد 10623ہے، جن کو پڑھانے کیلئے صرف 71 اساتذہ پر مشتمل تدریسی سٹاف ہے۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق لیہ کے گرلز کالج میں 3090طالبات جبکہ چوک اعظم کالج میں 1988،فتح پور گرلز کالج میں 1753، وویمن کالج کروڑ میں 1302،گرلز کالج کوٹ سلطان میں 1067،وویمن کالج مرہان میں 406طالبات زیرتعلیم ہیں۔ تھل کیساتھ تخت اسلام آباد اور لہور کی طرف سے جاری سلوک قابل مذمت ہے، وفاقی وصوبائی حکومت کی طرف سے اس خطے کو قیام پاکستان سے لیکر آج تک نظرانداز کیجارہاہے۔ افسوس ناک پہلویہ ہے جیسے کہ اوپر بتایاہے کہ تھل کے ارکان اسمبلیجنہوں نے ایوانوں میں تھل کے عوام کیساتھ سلوک پر آواز اٹھانی تھی وہ چپ کا روزہ توڑنے پر تیارنہیں ہیں۔اس صورتحال میں وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار تھل کیساتھ جاری امتیازی سلوک کے خاتمہ کیلئے کوئی عملی اقدامات کریں، گپ شپ سے تھل کے عوام کے زخموں پر نمک پاشی نہ کریں اور اس بات کو غلط ثابت کریں کہ وہ بھی تھل کے سات اضلاع(خوشاب،میانوالی،بھکر، لیہ ، مظفرگڑھ ، جھنگ ، چینوٹ) کو اسی طرح رکھنا چاہتے ہیں جیسا کہ پچھلے ادوار میں اس کو رکھاگیاتھا۔