• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

تنہائی کے سوسال ..خضرکلاسرا

webmaster by webmaster
مارچ 3, 2019
in کالم
0
تنہائی کے سوسال ..خضرکلاسرا

ڈاکٹر جاوید کنجال کا فروری میں فون آنے کا مقصد اب تو سمجھ ہی گیاہوں۔ وہ سال بھر فون کریں یا نہ کریں لیکن فروری میں فون کرنا ازحد ضرور سمجھتے ہیں۔ اور پھرمحبت بھرے انداز میں یاددلاتے ہیں کہ خضر بھائی، ڈاکٹر صاحب کی برسی بھی آنیوالی ہے۔اور اس بار بھی ان کے ایصال ثواب کیلئے فری میڈیکل کیمپ کرینگے۔ جس میں پہلے کی طرح مریضوں کے ٹیسٹ،چیک اپ اور خاص طورپر ادویات مفت ہونگی ۔میں بولناچاہ رہاتھا لیکن انہوں نے کہا کہ خضر بھائی فری میڈیکل کیمپ میں مریضوں کی زیادہ شرکت کیلئے مسجدوں میں اعلان زیادہ سے زیادہ کرواناہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ضرورت مند لوگ اس سے سہولت سے استفادہ کرسکیں۔ہو یوں رہاہے کہ ہر سال فری میڈیکل کیمپ میں مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر کنجال کی خواہش ہوتی ہے کہ جتنا ممکن ہو، زیادہ سے زیادہ لوگ اس سہولت سے استفادہ کرسکیں ۔میں نے ان کی اجازت سے عرض کیا ڈاکٹر صاحب میں بھی اسی سلسلے میں آپ سے بات کرنا چاہ رہا تھالیکن پہلے کی طرح اس سال بھی آپ نے کیمپ کے بارے میں آگاہ کرنے میں پہل کرلی ہے۔نعیم بھائی کی برسی پر فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد ماڈل ویلیج جیصل کلاسرا میں کرتے ہیں لیکن اس بارڈاکٹر صاحب سے طے ہوا کہ برسی سے قبل جو اتوار 17 فروری کو آرہاہے اس دن فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کریں گے۔اس بات کے پیچھے مقصد یہ تھاکہ برسی کے دن خیرات اور دعا کی جاسکے اور مل بیٹھ کر نعیم بھائی کو یادکیاجاسکے۔ ڈاکٹر نعیم کلاسرا( نعیم بھائی) جوکہ 21 فروری 2013 میں ہم سے بچھڑے گئے تھے،وہ اسلام آباد میں ہم سے ملنے آئے ہوئے تھے اور پھر 21 فروری کو ان کو صبح سویرے دل کی تکلیف ہوئی تو میرے ساتھ ہسپتال گئے اور پولی کلینک کے ایمرجنسی میں ان کو فوری طورپردل کی تکلیف سے نکالنے کیلئے ڈاکٹروں نے کوشش کی اور ان کو ریلیف بھی ملا ۔ اور ان کی طبیعت اتنی بہتر ہوگئی کہ ڈاکٹروں نے کہاکہ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر صاحب جاسکتے ہیں لیکن ایسا شاید تقدیر کو منظور نہیں تھا اور پھرنعیم بھائی کی سانسیں ایسی ٹوٹیں کہ وہ ہمیشہ کیلئے چلے گئے ۔یہ لمحہ ہم سب کیلئے ایسا تھاجس کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔وہ ہماری زندگی تھے،ہماری زندگی کی خوشیاں انہی کی گردگھومتی تھیں۔راقم الحروف کو انہوں نے چھوٹا بھائی ہونے کی بدولت خاص پیار کا کوٹہ دیاہواتھا اور دلچسپ صورتھال یوں تھی کہ ہم سب بہن بھائی یہی سمجھتے تھے کہ وہ مجھ سے زیادہ پیارکرتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس محبتوں کا ڈھیر ہی اتنا تھاکہ سب پر نچھاور کرتے ھے اور سب کو احساس رہتاتھاکہ وہ اس کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔اماں اور بابا کے دنیا سے جانے کے بعد نعیم بھائی نے اپنی زندگی کو ایک خاص سمت میں اس طرح موڑ دیاکہ وہ ہماری خوشیوں اور خاص طورپر تعلیم کیلئے سب کچھ قربان کرتے گئے ۔ہماری زندگیوں میں ہمہ وقت خوشیاں لانے کے متمنی رہتے تھے ۔انہوں نے ہمیں اتنا اپنے قریب کرلیاکہ ہم بابا اور اماں کا پیار ان سے حاصل کرنے لگے اور پھر ایک اورانمول رشتہ انہوں نے یوں بھی دیاکہ ہم کو دوست بنالیا۔ہم ان سے ہر بات کرسکتے تھے، وہ پورا موقع دیتے کہ ہم زندگی کو بھرپور انداز میں انجوائے کر سکیں ۔نعیم بھائی کی زندگی کا بڑا مقصد یہی تھاکہ ہم پڑھیں اور اچھی تعلیم حاصل کریں مطلب اچھے انسان بنیں ۔وہ کتاب سے دور نہیں رہ سکتے تھے۔وہ ہمیں پڑھانے کے علاوہ اپنے شعبہ میں اعلی تعلیم حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے،یوں انہوں نے پرائیوٹ پریکٹس کی اپنے اوپر پابندی لگائی ہوئی تھی،وہ اپنے شعبہ سے جہاں بے پناہ پیار کرتے تھے، وہاں پر ان مریضوں کیلئے وہ ہمہ وقت موجود ہوتے تھے جوکہ اتنی سکت نہیں رکھتے کہ اپنا علاج کرواسکیں۔ گاوں آتے تھے تو وہ ان افراد کیلئے ہر وقت موجود ہوتے تھے جوکہ عام حالات میں توجہ حاصل نہیں کرپاتے ہٰیں اور پھر ان کو بہاول وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور پہنچنے کی پرچی مل جاتی اور اس میں سارا پیکج ہوتاتھا مطلب ان کا کام صرف پہنچناہے باقی وہ خود کرتے تھے۔ انکی ایک اور بڑی خوبی تھی وہ دکھ بھری کہانیاں سن سکتے تھے اور دکھوں کے مدوا کیلئے جتنا کرسکتے تھے ،وہ کرگزرتے تھے ۔وہ محنت پر یقین رکھتے تھے، وہ ناکامیوں سے گھبراتے نہیں تھے اور یہی سبق ان کی طرف سے ہمارے لیے تھا۔ان کے پاس بہاولپور جب بھی ہوتے تھے، جہاں زندگی کی اور بہت باتیں ہوتی تھیں وہاں زیادہ وقت کتابوں کے اردگرد گزرتاتھا ۔نعیم بھائی کا میڈیکل کالج بہاولپور میں داخلہ ہواتو وہ ہم بہن ،بھائیوں کیلئے ایک بڑی مثال بن گئے۔انکی زندگی کا اثاثہ ہم بہن ،بھائی تھے، بابا اوراماں کے بعد انہوں نے بہاولپور کو ہمارے دوسرے گھر کی شکل دیدی تھی ۔ان کو ملکر جب بہاولپور سے نکلتے تھے تو زندگی نکھر کر ساتھ ہوتی تھی ،نعیم بھائی میڈیکل کالج بہاولپور کے گریجوایٹ تھے اور پھر وہیں بہاول وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور میں شعبہ آنکھوں میں ہاوس جاب کے بعد بحیثت میڈیکل آفسیر کی حیثت میں منسلک ہوگئے تھے اور اعلی تعلیم کے حصول کیلئے آخری لمحہ تک کوشاں رہے،ڈاکٹر جاوید کنجال ان کیساتھ ہی میڈیکل کالج میں تھے۔ڈاکٹر جاوید کنجال قائد اعظم میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد لیہ چلے آئے تھے اور یہاں انسایت کی خدمت شروع کردی تھی ۔لیکن یہ محبتوں کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی یہاں ضروری ہے کہ انکی محبتوں اور پیار کارشتہ صرف بہن ،بھائیوں، بھانجوں ، بھتیجوں تک محدود نہیں تھا بلکہ انسایت کیلئے تھا ۔دوستوں کے بغیر زندگی کو ادھوراسمجھتے تھے۔اوردوستوں کیلئے معاملے میں ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ دوستوں میں چھوٹے بڑے کا فرق نہیں سمجھتے تھے بلکہ سب کیلئے وہ احترام اورمحبت رکھتے تھے ۔نعیم بھائی جیسے اوپر بتایاہے کہ آنکھوں کے ڈاکٹر تھے۔یوں ہمارے بھتیجے احمد حسین نعیم بھائی کی زندگی میں خوش قسمتی سے قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور سے گریجوایشن کے بعد بہاول وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور کے آنکھوں کے شعبہ میں ان کیساتھ آگئے تھے۔ اور نعیم بھائی کے چلے جانے کے بعد انکی سنہری یادوں کو بحیثت ڈاکٹر خوبصورت کررہے ہیں۔ ڈاکٹر احمدحسین نے پچھلی بار بھی فری میڈیکل کیمپ میں حصہ لیاتھا لیکن اس بار پچھلی بار زیادہ تیاری سے آئے۔ادھر ڈاکٹر منصور نے ڈاکٹر نعیم کلاسرا فاونڈیشن کی ٹیم کے ارکان قاسم اور تصور سمیت دیگر نے فری میڈیکل کیمپ سمیت دیگر انتظامات میں اپنی خدمات پیش کی ہوئیں تھیں، اسی طرح بھانجے راشد اقبال، طیب نے کھانے پینے اور وزیرمہمانداری کیلئے اپنے آپ کو وقف کیاہواتھا۔پھر دلچسپ صورتحال یوں تھی کہ فری میڈیکل کیمپ میں شامل افراد بھی ایکدوسرے کی مدد کیلئے انتظامی امور کا حصہ بنے ہوئے تھے جوکہ ہمارے لیے خوشی کا سبب یوں تھی کہ نعیم بھائی اس طرح کے موقع پر ہر ایک کو اپنا اپنا کردار اداکرتے ہوئے خوش ہوتے تھے۔نعیم بھائی نے گیبریل گارشیا مارکیز کے نوبل انعام یافتہ ناول (one hundered years of solitude) کا اردو ترجمہ ’’تنہائی کے سوسال‘‘ کیاتھا۔اسوقت جب نعیم بھائی اس گبیریل گارشیا مارکیز کے ناول تنہائی کے سوسال کا ترجمہ کررہے تھے تو ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن یہ بھی آئیگا کہ ان کے اور ہمارے درمیان ’’تنہائی کے سوسال‘‘ کاسفر شروع ہوجائیگا۔ آپ سب احباب سے اپنے انسان دوست بھائی کے درجات کی بلندی کیلئے دعاؤں کی درخواست ہے۔

 

Tags: column by khizar klasra
Previous Post

پاک فوج کے حوالدار عبدالرب شہید کی نماز جنازہ تونسہ شریف کے نواحی علاقے نتکانی میں ادا

Next Post

صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی کا ایل او سی پر شہیدہونے والے جوانوں کے اہلخانہ سے ٹیلی فونک رابطہ، شہدا کی بلندی درجات اور اہلخانہ کیلئے صبر جمیل کی دعا

Next Post
صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی کا ایل او سی پر شہیدہونے والے جوانوں کے اہلخانہ سے ٹیلی فونک رابطہ، شہدا کی بلندی درجات اور اہلخانہ کیلئے صبر جمیل کی دعا

صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی کا ایل او سی پر شہیدہونے والے جوانوں کے اہلخانہ سے ٹیلی فونک رابطہ، شہدا کی بلندی درجات اور اہلخانہ کیلئے صبر جمیل کی دعا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
ڈاکٹر جاوید کنجال کا فروری میں فون آنے کا مقصد اب تو سمجھ ہی گیاہوں۔ وہ سال بھر فون کریں یا نہ کریں لیکن فروری میں فون کرنا ازحد ضرور سمجھتے ہیں۔ اور پھرمحبت بھرے انداز میں یاددلاتے ہیں کہ خضر بھائی، ڈاکٹر صاحب کی برسی بھی آنیوالی ہے۔اور اس بار بھی ان کے ایصال ثواب کیلئے فری میڈیکل کیمپ کرینگے۔ جس میں پہلے کی طرح مریضوں کے ٹیسٹ،چیک اپ اور خاص طورپر ادویات مفت ہونگی ۔میں بولناچاہ رہاتھا لیکن انہوں نے کہا کہ خضر بھائی فری میڈیکل کیمپ میں مریضوں کی زیادہ شرکت کیلئے مسجدوں میں اعلان زیادہ سے زیادہ کرواناہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ضرورت مند لوگ اس سے سہولت سے استفادہ کرسکیں۔ہو یوں رہاہے کہ ہر سال فری میڈیکل کیمپ میں مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر کنجال کی خواہش ہوتی ہے کہ جتنا ممکن ہو، زیادہ سے زیادہ لوگ اس سہولت سے استفادہ کرسکیں ۔میں نے ان کی اجازت سے عرض کیا ڈاکٹر صاحب میں بھی اسی سلسلے میں آپ سے بات کرنا چاہ رہا تھالیکن پہلے کی طرح اس سال بھی آپ نے کیمپ کے بارے میں آگاہ کرنے میں پہل کرلی ہے۔نعیم بھائی کی برسی پر فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد ماڈل ویلیج جیصل کلاسرا میں کرتے ہیں لیکن اس بارڈاکٹر صاحب سے طے ہوا کہ برسی سے قبل جو اتوار 17 فروری کو آرہاہے اس دن فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کریں گے۔اس بات کے پیچھے مقصد یہ تھاکہ برسی کے دن خیرات اور دعا کی جاسکے اور مل بیٹھ کر نعیم بھائی کو یادکیاجاسکے۔ ڈاکٹر نعیم کلاسرا( نعیم بھائی) جوکہ 21 فروری 2013 میں ہم سے بچھڑے گئے تھے،وہ اسلام آباد میں ہم سے ملنے آئے ہوئے تھے اور پھر 21 فروری کو ان کو صبح سویرے دل کی تکلیف ہوئی تو میرے ساتھ ہسپتال گئے اور پولی کلینک کے ایمرجنسی میں ان کو فوری طورپردل کی تکلیف سے نکالنے کیلئے ڈاکٹروں نے کوشش کی اور ان کو ریلیف بھی ملا ۔ اور ان کی طبیعت اتنی بہتر ہوگئی کہ ڈاکٹروں نے کہاکہ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر صاحب جاسکتے ہیں لیکن ایسا شاید تقدیر کو منظور نہیں تھا اور پھرنعیم بھائی کی سانسیں ایسی ٹوٹیں کہ وہ ہمیشہ کیلئے چلے گئے ۔یہ لمحہ ہم سب کیلئے ایسا تھاجس کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔وہ ہماری زندگی تھے،ہماری زندگی کی خوشیاں انہی کی گردگھومتی تھیں۔راقم الحروف کو انہوں نے چھوٹا بھائی ہونے کی بدولت خاص پیار کا کوٹہ دیاہواتھا اور دلچسپ صورتھال یوں تھی کہ ہم سب بہن بھائی یہی سمجھتے تھے کہ وہ مجھ سے زیادہ پیارکرتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس محبتوں کا ڈھیر ہی اتنا تھاکہ سب پر نچھاور کرتے ھے اور سب کو احساس رہتاتھاکہ وہ اس کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔اماں اور بابا کے دنیا سے جانے کے بعد نعیم بھائی نے اپنی زندگی کو ایک خاص سمت میں اس طرح موڑ دیاکہ وہ ہماری خوشیوں اور خاص طورپر تعلیم کیلئے سب کچھ قربان کرتے گئے ۔ہماری زندگیوں میں ہمہ وقت خوشیاں لانے کے متمنی رہتے تھے ۔انہوں نے ہمیں اتنا اپنے قریب کرلیاکہ ہم بابا اور اماں کا پیار ان سے حاصل کرنے لگے اور پھر ایک اورانمول رشتہ انہوں نے یوں بھی دیاکہ ہم کو دوست بنالیا۔ہم ان سے ہر بات کرسکتے تھے، وہ پورا موقع دیتے کہ ہم زندگی کو بھرپور انداز میں انجوائے کر سکیں ۔نعیم بھائی کی زندگی کا بڑا مقصد یہی تھاکہ ہم پڑھیں اور اچھی تعلیم حاصل کریں مطلب اچھے انسان بنیں ۔وہ کتاب سے دور نہیں رہ سکتے تھے۔وہ ہمیں پڑھانے کے علاوہ اپنے شعبہ میں اعلی تعلیم حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے،یوں انہوں نے پرائیوٹ پریکٹس کی اپنے اوپر پابندی لگائی ہوئی تھی،وہ اپنے شعبہ سے جہاں بے پناہ پیار کرتے تھے، وہاں پر ان مریضوں کیلئے وہ ہمہ وقت موجود ہوتے تھے جوکہ اتنی سکت نہیں رکھتے کہ اپنا علاج کرواسکیں۔ گاوں آتے تھے تو وہ ان افراد کیلئے ہر وقت موجود ہوتے تھے جوکہ عام حالات میں توجہ حاصل نہیں کرپاتے ہٰیں اور پھر ان کو بہاول وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور پہنچنے کی پرچی مل جاتی اور اس میں سارا پیکج ہوتاتھا مطلب ان کا کام صرف پہنچناہے باقی وہ خود کرتے تھے۔ انکی ایک اور بڑی خوبی تھی وہ دکھ بھری کہانیاں سن سکتے تھے اور دکھوں کے مدوا کیلئے جتنا کرسکتے تھے ،وہ کرگزرتے تھے ۔وہ محنت پر یقین رکھتے تھے، وہ ناکامیوں سے گھبراتے نہیں تھے اور یہی سبق ان کی طرف سے ہمارے لیے تھا۔ان کے پاس بہاولپور جب بھی ہوتے تھے، جہاں زندگی کی اور بہت باتیں ہوتی تھیں وہاں زیادہ وقت کتابوں کے اردگرد گزرتاتھا ۔نعیم بھائی کا میڈیکل کالج بہاولپور میں داخلہ ہواتو وہ ہم بہن ،بھائیوں کیلئے ایک بڑی مثال بن گئے۔انکی زندگی کا اثاثہ ہم بہن ،بھائی تھے، بابا اوراماں کے بعد انہوں نے بہاولپور کو ہمارے دوسرے گھر کی شکل دیدی تھی ۔ان کو ملکر جب بہاولپور سے نکلتے تھے تو زندگی نکھر کر ساتھ ہوتی تھی ،نعیم بھائی میڈیکل کالج بہاولپور کے گریجوایٹ تھے اور پھر وہیں بہاول وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور میں شعبہ آنکھوں میں ہاوس جاب کے بعد بحیثت میڈیکل آفسیر کی حیثت میں منسلک ہوگئے تھے اور اعلی تعلیم کے حصول کیلئے آخری لمحہ تک کوشاں رہے،ڈاکٹر جاوید کنجال ان کیساتھ ہی میڈیکل کالج میں تھے۔ڈاکٹر جاوید کنجال قائد اعظم میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد لیہ چلے آئے تھے اور یہاں انسایت کی خدمت شروع کردی تھی ۔لیکن یہ محبتوں کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی یہاں ضروری ہے کہ انکی محبتوں اور پیار کارشتہ صرف بہن ،بھائیوں، بھانجوں ، بھتیجوں تک محدود نہیں تھا بلکہ انسایت کیلئے تھا ۔دوستوں کے بغیر زندگی کو ادھوراسمجھتے تھے۔اوردوستوں کیلئے معاملے میں ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ دوستوں میں چھوٹے بڑے کا فرق نہیں سمجھتے تھے بلکہ سب کیلئے وہ احترام اورمحبت رکھتے تھے ۔نعیم بھائی جیسے اوپر بتایاہے کہ آنکھوں کے ڈاکٹر تھے۔یوں ہمارے بھتیجے احمد حسین نعیم بھائی کی زندگی میں خوش قسمتی سے قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور سے گریجوایشن کے بعد بہاول وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور کے آنکھوں کے شعبہ میں ان کیساتھ آگئے تھے۔ اور نعیم بھائی کے چلے جانے کے بعد انکی سنہری یادوں کو بحیثت ڈاکٹر خوبصورت کررہے ہیں۔ ڈاکٹر احمدحسین نے پچھلی بار بھی فری میڈیکل کیمپ میں حصہ لیاتھا لیکن اس بار پچھلی بار زیادہ تیاری سے آئے۔ادھر ڈاکٹر منصور نے ڈاکٹر نعیم کلاسرا فاونڈیشن کی ٹیم کے ارکان قاسم اور تصور سمیت دیگر نے فری میڈیکل کیمپ سمیت دیگر انتظامات میں اپنی خدمات پیش کی ہوئیں تھیں، اسی طرح بھانجے راشد اقبال، طیب نے کھانے پینے اور وزیرمہمانداری کیلئے اپنے آپ کو وقف کیاہواتھا۔پھر دلچسپ صورتحال یوں تھی کہ فری میڈیکل کیمپ میں شامل افراد بھی ایکدوسرے کی مدد کیلئے انتظامی امور کا حصہ بنے ہوئے تھے جوکہ ہمارے لیے خوشی کا سبب یوں تھی کہ نعیم بھائی اس طرح کے موقع پر ہر ایک کو اپنا اپنا کردار اداکرتے ہوئے خوش ہوتے تھے۔نعیم بھائی نے گیبریل گارشیا مارکیز کے نوبل انعام یافتہ ناول (one hundered years of solitude) کا اردو ترجمہ ’’تنہائی کے سوسال‘‘ کیاتھا۔اسوقت جب نعیم بھائی اس گبیریل گارشیا مارکیز کے ناول تنہائی کے سوسال کا ترجمہ کررہے تھے تو ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن یہ بھی آئیگا کہ ان کے اور ہمارے درمیان ’’تنہائی کے سوسال‘‘ کاسفر شروع ہوجائیگا۔ آپ سب احباب سے اپنے انسان دوست بھائی کے درجات کی بلندی کیلئے دعاؤں کی درخواست ہے۔  
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.