اسلام آباد: چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جج کی زندگی میں ڈرکی کوئی گنجائش نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار آج ریٹائر ہورہے ہیں، ان کے اعزاز میں سپریم کورٹ میں ریفرنس منعقد کیا گیا۔ اس موقع پر سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان، اٹارنی جنرل آف پاکستان، وکلا تنظیموں کے نمائندگان موجود ہیں تاہم جسٹس منصورعلی شاہ نے ریفرنس میں شرکت نہیں کی۔
پسے ہوئے لوگوں کے لئے کام کیا، چیف جسٹس
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مجھے لوگوں نے جو عزت دی اس کو لوٹانے کی کوشش کی، اس کے لئے سپریم کورٹ کے ججز،ملازمین اورسٹاف کا شکر گزار ہوں۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جج کی زندگی میں ڈرکی کوئی گنجائش نہیں، اس عدالت نے کئی معرکتہ الآراء فیصلے دیئے، سب سے پہلے گلگت بلتستان کا فیصلہ ہے، دوسرا مسئلہ عدالت نے آبادی میں اضافے کا اٹھایا، پسے ہوئے لوگوں کے حقوق کے لئے کام کیا، ہر شخص کو عزت سے زندگی گزارنے کا حق دیا، خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا نوٹس لیا، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا ملک میں پانی کی کمی کا نوٹس لیا، پوری قوم نے پانی کے لئے عطیات دیئے۔
چیف جسٹس کی طرح ملک کا قرض اتارنا چاہتا ہوں، جسٹس کھوسہ
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فل کورٹ ریفرنس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم دونوں ایک ساتھ جڑے ہوئے بچوں کی طرح ہیں جو آج الگ ہو جائیں گے، چیف جسٹس ثاقب نثار نے بہت مشکل حالات میں عدالت چلائی، انہوں نے سیاسی، سماجی ، معاشرتی اور آئینی سمیت کئی مشکلات کا سامنا کیا، ان کی انسانی حقوق کے حوالے سے خدمات یاد رکھی جائیں گی.
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ میں بھی چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرح ملک کا قرضہ اتارنا چاہتا ہوں، 3 ہزار ججز 19 لاکھ مقدمات نہیں نمٹا سکتے بطور چیف جسٹس انصاف کی فراہمی میں تعطل کو دورکرنے کی کوشش کروں گا، ماتحت عدلیہ میں برسوں سے زیرالتواء مقدمات کے جلد تصفیہ کی کوشش کی جائے گی، غیر ضروری التواء کو روکنے کے لئے جدید آلات کا استعمال کیا جائے گا، مقدمات کی تاخیر کے خلاف ڈیم بناؤں گا، عرصہ دراز سے زیر التواء مقدمات کا قرض اتاروں گا۔
چیف جسٹس کے تعلیم اور پانی پر شاندار فیصلے دیئے،اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل نے ریفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے 20 سال تک بطورجج خدمات سر انجام دیں، فراہمی انصاف میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی خدمات کو یاد رکھا جائے گا، چیف جسٹس کو از خود نوٹسز پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن انہوں نے صحت، تعلیم اور پانی کے معاملات پر شاندار فیصلے دیئے۔
ججز کی تقرری کا طریقہ درست نہیں،صدرسپریم کورٹ بار
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ کچھ عرصے سے ججز کے لہجےمیں ترشی بڑھ جاتی ہے،ججز کےلہجے میں ترشی عدالت اور وکیل کو بنیادی مقصد سے ہٹا دیتی ہے، وکلاء اور ججوں کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ سائلین کے ذہنوں کو متاثر کرتا ہے۔ وکیل کو حقائق بیان کرنے اور دلائل دینے کا موقع نہیں دیا جاتا، عدلیہ اور بار ایک گاڑی کے پہیے لیکن اب ایک پہیہ صرف اضافی ہے۔ حکومتی اور انتظامی امور میں بے جا مداخلت سے ادارے کمزور ہوتے ہیں، ازخود نوٹس کی کثیر تعداد سے عام مقدمات میں تاخیر ہوتی ہے۔ ازخود فیصلے پر نظر ثانی یا اپیل کا حق دیا جانا چاہیے۔
صدرسپریم کورٹ بار نے کہا کہ ججز کی تقرری کا طریقہ درست نہیں، ججز کو ہٹانے کے طریقہ کار میں بھی بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ خلفاء کا احتساب سر عام ہو سکتا ہے تو قاضی کا کیوں نہیں؟، دوسرے ممالک میں ججز کا محاسبہ پارلیمنٹ کرتی ہے، کئی ججز سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلوں کےبعد چلے گئے جب کہ اسلام آباد اور لاہورہائیکورٹ کے ایک ،ایک جج کو الزامات سے مبرا قرار دیا گیا، اس عمل سے سپریم جوڈیشل کونسل کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔