شہر کے سنگین مسا ئل اور اقتدار کی فضول جنگ
تحریر ۔ محمد عمر شاکر
جنگ کوئی بھی ہو اس میں ہمیشہ نقصان ہی ہوتا ہے ہر جنگ کے بعد صلح ہی ہوتی ہے اکثر جنگوں کے ابتداء میں امن پسند صلح جو فریقین کو سمجھاتے ہیں کہ ہر معاملے کا حل لڑائی کورٹ کچہری نہیں ہوتا مذاکرات سے معاملات مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے مگر دولت طاقت کے نشے میں چور جھوٹی عناؤ کے گرداب میں پھنسے جنگ کو ہی اپنی کامیابی و کامرانی کا ذریعہ سمجھتے ہیں چوک اعظم جسے ابتدائی طور پر خونی چوک کہا جاتا ہے یہاں ہمیشہ لڑائی جھگڑوں کا ہی دور رہ رہا ہے بانیان شہر اپنی یاداشتوں میں کھو کر بتاتے ہیں کہ شہر میں ابتداء میں بھی دو غلہ منڈیاں تھیں بالاآخر کافی حالات کشیدہ ہوگے آخر کار جب دونوں فریقین تھک ہار گئے تو ایم ایم روڈ کے مشرقی سائیڈ کی غلہ منڈی مغربی سائیڈ والی غلہ منڈی میں ضم ہو گئی جنرل بس اسٹینڈ پر سہولیات کا فقدان اور اجڑ رہا ہے جبکہ ٹرانسپورٹ مافیاء کے نجی اڈے اندرون شہر جدید سہولیات سے آراستہ شہریوں کو دھوئیں اور پریشر ہارنوں سے موضی امراض میں مبتلاء کر رہیں ہیں مٹن مارکیٹ سالوں سے اجڑکر ٹھوٹ پھوٹ کا شکار ہے جبکہ قصاب مافیاء اندرون شہر براجمان ہیں قصاب اور ٹرانسپورٹ مافیاء کے سامنے ریاستی ادارے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیںآج بھی شہر میں دو غلہ منڈیاں بن رہی ہیں دھڑے بندی عروج پر ہے دونوں گروپس میں سے ایک گروپ کو مقامی ایم این اے سید ثقلین شاہ بخاری جبکہ دوسرے گروپ کو ایم پی اے سردار قیصر خان مگسی کی سپورٹ حاصل ہے جبکہ مارکیٹ چئیرمین کمیٹی ضلع لیہ چوہدری بشارت رندھاوا کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے انہی سرمایہ داروں کی آنے والی نسل آج جو نفرت منفی پراپو گنڈہ کی باتیں سن کر جوان ہو رہے ہیں کل اسی پر عمل پیرا ہو گئے اسی چپلقس کا فائدہ کئی نو سر باز اٹھا رہے ہیں جو کہ مختلف کاروائیوں سے لوٹ مار میں مصروف عمل ہیں آئے روز غلہ منڈی میں فراڈ بیوپاریوں اور آڑھتیوں کے مفرور ہونے کی خبریں منظر عام پر آ رہی ہیں فضول جنگ جس کی کوئی بھی صلح کرانے کے لئے تیار نہ ہے سیاسی جنگ ہے جس کے تانے بانے 2005کے بلدیاتی الیکشن سے ملتے ہیں جس میں میاں یسین آرائیں اور ملک ثناء اللہ کے پینل کا مقابلہ چوہدری بشارت رندھاوا اور ڈاکٹر امتیاز سہیل کے پینل سے تھا میاں یسین آرائیں اور ملک ثناء اللہ کا پینل کامیاب ہو گیا چوہدری بشارت رندھاوانے الیکشن ٹربیونل لاہور میں رٹ کر دی کیس چلا بالاآخر میاں یسین اور ملک ثناء اللہ نا اہل ہو گئے اور دوبارہ الیکشن کا اعلان ہوا ضمنی الیکشن میں چوہدری بشارت رندھاوا کا پینل کا میاب ہوا چوک اعظم رورل میں ملک امیر ڈلو اور چوہدری جاوید کے پینلز میں مقابلہ تھا ملک امیر ڈلو کامیاب ہوئے چوہدری جاوید کامیاب مد مقابل امیدوار کے خلاف عدالت میں گئے امن پسند صلح جو بزرگ لوگ میدان میں آئے دونوں سیاسی مخالفین میں صلح کرا دی اور بعد آزاں ملک امیر ڈلو نائب ضلع ناظم منتخب ہوئے اور انہوں نے اپنی یونین کونسل میں بلا امتیاز ترقیاتی کام کرائے 2015کے بلدیاتی الیکشن میں نئے سیاسی پینل بنے ماضی کے سیاسی مخالف اکھٹے ہو گئے ملک ثناء اللہ بشارت رندھاوا نے تحریک انصاف صابری گروپ کے مشترکہ پینل سے الیکشن میں اپنے امیدوار کھڑے کیے جبکہ میاں یسین آرائیں اور چوہدری اعجازگل نے پاکستان مسلم لیگ اور نظریاتی گروپ کے پینل سے امیدوار کھڑے کیے الیکشن میں مسلم لیگی قیادت کی دو رنگی کی وجہ سے مینڈیٹ تحریک انصاف صابری گروپ کے پاس چلا گیا الیکشن میں تحریک انصاف کے چھ امید وار کامیاب ہوئے تین پاکستان مسلم لیگ اور دو نظریاتی گروپ کے امیدوار جبکہ ایک آزاد امیدوار کامیاب ہوئے پاکستان مسلم لیگ نظریاتی گروپ نے ملک ریاض گرواں اور تحریک انصاف صابری گروپ نے چوہدری خالد آرائیں چئیرمین میونسپل کمیٹی نامزد کیا نظریاتی گروپ سے کامیاب ہونے والے ایک امیدوار نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر دیا جسکی شمولیت کا اسٹام پیپر اور ویڈیو فیس بک شوشل میڈیا پر بھی شئیر کر دی گئی مگر بعد آزاں تخت نواں کوٹ اور تخت واڑہ سہیڑاں کے جانشیں حرکت میں آئے اور امن صلح جوئی سے حل ہونے والے جھوٹی اناؤں میں گھیرکر دو وارڈز سے کامیاب ہونے والے امیدواروں کے خلاف الیکشن ٹربیونل میں اپیلیں دائر کرادی وہ معاملہ جو اپنے شہر میں حل ہو سکتا تھا اسے الیکشن ٹربیونل ڈیرہ غازیخان اور لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ میں پہنچا دیا گیا عدالتوں کے فیصلے کیا آتے ہیں معاملہ یہیں ختم ہو جائے گا یا سپریم کورٹ آف پاکستان تک جائے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر جس طرح 2005کے بلدیاتی الیکشن کے بعد شہر کے مسائل حل کرنے کی بجائے شہریوں میں نفرتیں بڑھائیں گئی اسی طرح 2015کے بلدیاتی الیکشن میں تاریخ کو دہرایا جا رہا ہے شہر سنگین مسائل میں الجھتا جا رہا ہے زیر زمین پانی روز بروز آلودہ ہو رہا ہے جس کے پینے سے ہیپاٹائٹس سی سمیت شہری موذی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں تحصیل لیول ہسپتال میں ادویات اور مریضوں کے لئے بیڈز نہیں ہیں تعلیمی اداروں میں ٹیوشن مافیاء کی مناپلی ہے عملہ صفائی سکون آور ادویات کھا کر سو رہا ہے معمولی بارش سے بھی شہر کی سڑکیں اور گلیاں تالاب کا منظر پیش کر تی ہیں جنرل بس اسٹینڈ اجڑ رہا ہے مٹن مارکیٹ اور مذبحہ خانہ ویران ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے 15کی عمارت کھنڈرات میں تبدیل ہو رہی ہے نادر�آفس میں عملہ اور عمارت کی وجہ سے باعصمت پردہ دار خواتین بے پردہ ہو رہی ہیں بلا لائسنس رکشہ ڈرائیوروں کی بھرمار ہے الغرض مسائل کی بھرمار ہے اور شہر کے فرزندان اپنی اناؤوں کی فضول جنگ میں مصروف ہیں کاش انہیں کوئی سمجھائے کہ ماضی میں جیسے ملک امیر ڈلو اور چوہدری جاوید نے آپس میں صلح کر کے عدالتی جنگ میں مصروفیت کی بجائے عوامی خدمت کی اسی طرح چوک اعظم کے مسائل حل کرنے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل بنایا جائے اب نفرتوں لڑائی جھگڑوں کے سبب اقتدار پر فائز رہنا ممکن نہیں ہے پوری دنیا گلوبل ویلج میں تبدیل ہو چکی ہے پل بھر خبر شوسل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے ماضی کے سیاسی مخالفوں کی طرح آج کے سیاسی مخالف مستقبل میں اکھٹے ہونگے مگر شہر کے مسائل کا ذمہ دار کون ہو گا کوئی نہیں ہے جو بارش کا پہلا قطرہ بنے گروپ لیڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر بلائے شہر کا ایم پی اے اور شہر کو تحصیل کا درجہ دلوانے کے اعلانات کرنے والوں کی یہ ذمہ داری ہے دیکھتے ہیں کون یہ ذمہ داری ادا کرتا ہے