قائداعظم یونیورسٹی۔کاش کوئی دودھ بیچنے والا اس کا بھی وائس چانسلر ہوتا
تحریر . ملک ابوذر منجوٹھہ
میں نے ایک نوجوان کو اسلام آباد کال کی تو پتہ چلا کہ قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبا احتجاج کر رہے ہیں وجہ پتہ چلی تو میری زبان سے نکلا کہ کاش قائداعظم یونیورسٹی کا وائس چانسلر بھی کسی دودھ بیچنے والے کا بیٹا ہوتا مجھے اس موقع پر ایک نوجوان صحافی آصف محمود صاحب کا لکھا ایک آرٹیکل یاد آرہا تھا جس میں انہوں نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر ملک معراج خالد کے بارے میں لکھا تھا ۔ چلیں کچھ ان کی باتیں ان کی زبانی آپ سے شیئر کر رہاہوں۔
ایک ریکٹر ملک معراج خالد بھی تھے۔وائس چانسلر ہی کہہ لیجیے۔میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ایم اے انگریزی کے دوسرے سمسٹر کا طالب علم تھا۔یونیورسٹی نے فیسوں میں دو سو فیصد اضافہ کر دیا۔میں نے ملک معراج خالد کے خلاف ایک مقامی روزنامے میں کالم لکھ دیا۔میں نے لکھا کہ ایک دودھ بیچنے والا ریکٹر بن جاتا ہے تو اس کی گردن میں سریا آ جاتا ہے اور وہ اپنا ماضی بھول جاتا ہے۔یاد نہیں اور کیا کچھ لکھا لیکن وہ بہت ہی نا معقول تحریر تھی۔
اگلے روز میں کلاس میں پہنچا تو ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ جناب ایس ایم رؤوف صاحب نے مجھے اپنے دفتر میں بلا کر کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ تمہیں ریکٹر صاحب نے طلب کیا ہے۔مجھے خوب یاد ہے جب میں ان کے کمرے سے نکل کر جا رہا تھا تو انہوں نے غصے سے کہا: جنٹل میں گو اینڈ فیس دی میوزک۔خیر میں ریکٹر آفس کی جانب چل پڑا اور راستے میں یہی سوچتا رہا کہ یہ تو طے ہے آج یونیورسٹی میں میرا آخری دن ہے سوال یہ ہے کہ آج یونیورسٹی سے نکالا جاؤں گا تو گھر والوں سے کیا بہانہ بناؤں گا کہ کیوں نکالا گیا۔
وہاں پہنچا تو ریکٹر کے پی ایس اسماعیل صاحب کو بتایا میرا نام آصف محمود ہے، مجھے ریکٹر صاحب نے بلایا ہے۔مجھے شدید حیرت ہوئی جب اسماعیل کے سپاٹ چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی اور کہنے لگے جائیے وہ آپ کے منتظر ہیں۔لیکن اندر داخل ہوا توحیرتوں کے جہان میرے منتظر تھے۔ملک صاحب اکیلے بیٹھے تھے۔میں نے ڈرتے ڈرتے کہا: سر میں آصف،آپ نے بلایا تھا؟
آپ ہی نے کالم لکھا تھا؟
جی سر میں نے لکھا تھا۔
تشریف رکھیے مجھے آپ سے کچھ باتیں کرنا ہیں۔۔۔۔اور میں جل تو جلال تو کا ورد کرتے ہوئے بیٹھ گیا۔
کافی دیر یونہی گزر گئی۔ملک صاحب ولز کی ڈبیا گھماتے رہے۔ایک ایک لمحہ اعصاب پر بھاری تھا۔پھر ملک صاحب نے خاموشی کو توڑا اور کہا: کالم تو آپ نے اچھا لکھا لیکن آ پ کی معلومات ناقص تھیں۔میں صر ف دودھ فروش نہیں تھا۔میرے ساتھ ایک اورمعاملہ بھی تھا۔میں نے اسی لیے آپ کو بلایا ہے کہ آپ کی معلومات درست کر دوں۔میں صرف دودھ نہیں بیچتا تھا۔میرے ساتھ یہ مسئلہ بھی تھا کہ جوتے نہیں تھے۔میں دودھ بیچ کر سکول پہنچتا اور سائیکل وہیں کھڑی کر دیتا۔گھر میں جوتوں کا ایک ہی جوڑا تھا جو والد صاحب کے زیر استعمال تھا۔اس کا حل میں اور میرے ابا جی نے مل کر نکالا۔ہمارے درمیان یہ طے ہوا کہ صبح میں یہ جوتے پہن کر جایا کروں اور جب میں واپس آ جاؤں تو یہی جوتے پہن کر ابا جی چوپال میں جا کر بیٹھا کریں۔اب ڈر تھا کہ سائیکل چلانے سے جوتا ٹوٹ نہ جائے۔اس لیے میں انہیں سائیکل کے ساتھ لٹکا لیتا تھا۔جب دودھ گھروں میں پہنچا کر کالج کے گیٹ کے پاس پہنچتا تو جوتا پہن لیتا۔واپسی پر پھر سائیکل کے ساتھ لٹکا لیتا اور ننگے پاؤں سائیکل چلاکر گھر پہنچتا۔
ملک صاحب پھر خاموش ہو گئے۔یہ دورانیہ خاصا طویل رہا۔پھر مسکرائے اور کہنے لگے: سریے والی بات تم نے ٹھیک کہی۔واقعی،اللہ نے دودھ فروش کو نوازا تو اس کی گردن میں سریا آ گیا۔بار بار دہراتے رہے: اللہ نے دودھ فروش کو نوازا لیکن اس کی گردن میں سریا آ گیا۔
پھر اسماعیل کو بلایا اور پوچھاکہ کیا قواعد و ضوابط کے مطابق میں فیس میں کیا گیا یہ اضافہ واپس لے سکتا ہوں۔اسماعیل نے کہا سر ریکٹر کے اختیار میں نہیں ہے۔کہنے لگے اختیار میں تو نہیں ہے لیکن اگر میں نوٹیفیکیش جاری کر دوں تو پھر؟ اسماعیل کہنے لگے: سر آپ نوٹی فیکیشن جاری کر دیں تو ظاہر ہے اس پر عمل ہو گا۔ملک صاحب نے کہا جلدی سے نوٹیفیکیشن بنا لاؤ،فیسوں میں اضافہ نہیں ہو گا۔میں کمرے سے باہر نکلا تو اس حکم نامے کی کاپی میرے ساتھ تھی، دل البتہ وہیں چھوڑ آیا تھا۔
ڈیپارٹمنٹ پہنچا تو ایس ایم اے رووف صاحب نے پوچھا،ہاں کیا ہوا؟ میں نے نوٹی فیکیشن آگے رکھ دیا، سر یہ ہوا۔رووف صاحب کی آنکھوں میں جو حیرت تھی،مجھے آج بھی یاد ہے۔آج اگر کوئی مجھ سے پوچھے: وائس چانسلر کیسا ہونا چاہیے؟ میں کہوں گا اسے ملک معراج خالد مرحوم جیسا ہونا چاہیے۔
یہ تحریر پڑھی تو مجھے بھی لگا کہ کاش قائداعظم یونیورسٹی کاوائس چانسلر بھی دودھ بیچنے والے ہوتا تاکہ اس کو پتہ ہوتا کہ فیس میں اضافہ سے کسی کا گھر کیسے متاثر ہوتا ہے ۔یا ان نواجوانوں کی فیس بھرنے کے لیے والدین کو کیا کچھ کرنا پڑتا ہے کیسے کیسے حیلے وسیلے کرکے یہ فیس بھرتے ہیں ۔ جب کوئی اپنی ماں کے ہاتھ کا کنگن اپنے ہاتھوں جا کر بیچتا ہے تو وہ کیسے پانی پانی ہو جاتا ہے لیکن کیا کریں کوئی گائے بیچ کر فیس ادا کرتا ہے کسی کے والد کو لون لینا پڑتا ہے کسی کو زمین بیچنی پڑتی ہے تو یہ نوجوان جا کر اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں ۔
قائد اعظم یونیورسٹی کو منی پاکستان کہا جاتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ہے پورے پاکستان کے ہر کلچر سے آئے ہوئے طلباجو کہ کونسلز کی صورت میں یونیورسٹی میں اپنی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں ۔ ان تمام کونسلز کے دو نمائندگان چیئرمین کونسل اور جنرل سیکریڑی کیو ایس ایف میں شامل ہوتے ہیں کیو ایس ایف تمام طلبا تنظیموں کی یونیورسٹی میں نمائندگی کرتی ہے ان کے مسائل اور اس کے حل کے لیے ہمیشہ کوشش کرتی ہے ۔ کچھ دنوں پہلے بلوچ کونسل کے نوجوانوں اور مہران کونسل کے نوجوانوں میں لڑائی ہوئی ۔ اس کی مثال اگر میں ایسے دوں کہ اگر ایک گھر میں رہتے ہوئے بھائیوں میں بھی لڑائی ہو جاتی ہے تو یہ نوجوان تو مختلف جگہوں مختلف مزاجوں سے لوگ ہیں ۔ اس لڑائی کو مختلف رنگ دینے کی پوری کوشش یونیورسٹی انتظامیہ نے کی کیونکہ ان کے مقاصد میں یہ بھی شامل ہے کہ ایسے تمام تنظیموں کا خاتمہ جو یونیورسٹی کے غلط اقدامات کے سامنے بات کر سکیں اس مسئلہ کا حل بھی کیو ایس ایف کے ذریعے ہی نکلا تھا اور طلبا جو کہ ایکس ہو جاتے ہیں ان کا دل بھی کیو ایس ایف کے ساتھ ہی ڈھڑکتا ہے ایک مسئلہ کے حل کے لیے بلوچستان اور سندھ سے ایکس طلبا یونیورسٹی پہنچے اور طلباکی صلح کروا دی جس مسئلہ کو یونیورسٹی انتظامیہ ہوا دینا چاہتی تھی ۔
دوسرا لینڈ مافیا جن کا بس چلے تو یہ یونیورسٹی کو ہی بیچ کھائیں ۔جو یونیورسٹی میں ڈرگز کا شوشہ چھوڑ کر یونیورسٹی کا نام خراب کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے مقاصد آسانی سے حاصل ہو جائیں ۔کچھ نوجوان سچ میں اس مافیا کے ہتھے ضرور چڑھ جاتے ہیں جن کی وجہ سے یونیورسٹی کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے ۔سرائیکی کی ایک مثال ہے (اُٹھی آپ ناں سنگھاں لعنت گوڈیاں تے ) بنے خود سے کچھ ناں اور الزام دوسروں پر ڈال دیے جاتے ہیں ۔ یہ اُصول تو پورے پاکستان میں رائج ہے یونیورسٹی انتظامیہ بھی اپنا سارا نزلہ طلبا پر گرا دیتی ہے ۔طلبا جو ان کے خلاف بات کریں ان کو یونیورسٹی سے نکال دینا ان پر بھاری جرمانے کر دینا کاش آپ ان طلباکے مسائل بھی ایسے حل کرتے جیسے باپ اپنے گھر میں اپنے بچوں کے مسئلے حل کرتاہے سزا بھی دیتا ہے لیکن ان کو قتل نہیں کردیتا ۔کاش وائس چانسلر صاحب آپ نے بھی معراج خالد صاحب کی طرح دودھ ہی بیچا ہوتاتو آپ کے دل میں غریب طلبا کا خیال ضرور ہوتا ہے ۔میں فیس کے حوالے سے کچھ یونیورسٹیز کے لاء ڈیپارٹمنٹ تقابلی جائزہ پیش کرتا ہوں ۔
بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی 15000 فیس
ہوسٹل فیس 12000
پراسپیکٹس 1500
پنجاب یونیورسٹی 23000
ہوسٹل 12000
پراسپیکٹس 1500
گومل یونیورسٹی 23000
ہوسٹل 10000
پراسپیکٹس 1500
شاہ عبدالطیف یونیورسٹی 7000
ہوسٹل 5000
پراسپیکٹس 1000
بلوچستان یونیورسٹی 16000
ہوسٹل 4000
پراسپیکٹس 1500
قائد اعظم یونیورسٹی 64000
ہوسٹل 27000
پراسپیکٹس 1500
کیا یہ انصاف ہے؟ خدارا اسلام آباد کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں آپ بھی ایک وقت میں طالب علم ہی تھے اگر آپ لوگوں نے طلبا پر ہونے والے ظلم نہ بند کروائے تو آپ کو آنے والی نسلیںآپ کو معاف نہیں کریں گے ۔بلیغ الرحمن صاحب آپ کو ان طلباء کو انصاف دلوانا ہوگا جو کئی دنوں سے احتجاج کر کے بیٹھے ہیں جن کی کوئی نہیں سننے کو تیار ان کو دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ ان کی ڈگریاں کینسل کر دی جائیں گے ان کو جیل مین بند کروا دیا جائے گا۔کوئی تو ان طلباء کے لیے بھی آواز بلند کرے کوئی تو ان کے مطالبے بھی سن لے
ملک ابوذر منجوٹھہ