قصاب مافیا بمقابلہ ڈی سی او لیہ اور اجڑتی مٹن مارکیٹ
تحریر۔۔ محمد عمر شاکر
لالو کھیت مارکیٹ کراچی کا مشہور کاروباری مرکز ہے دنیا بھر کی ہر چیز اس مارکیٹ میں دستیاب ہوتی ہے کراچی کا یہ واحد کاروباری مرکز ہے جہاں نہ صرف پاکستان بلکہ دوسرے ممالک کے افراد بھی تجارت کرتے ہیں کراچی کے افراد کی کثرت خریداری کے لئے اس مارکیٹ کا رخ کرتی ہے اس مارکیٹ کا تذکرہ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ خونی چوک سے چوک اعظم بننے والا شہر جسے اب منی کراچی کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے بڑ ے شہر کراچی کے بڑے تجارتی مرکز لالو کھیت کی مٹن مارکیٹ اور چوک اعظم میں پندرہ سال قبل بنائی جانے والی مٹن مارکیٹ کا ڈیزائن ایک ہے وہ مٹن مارکیٹ آباد اور یہ ویران ہے اس ڈیزائن پر صرف یہی نہیں اور بھی مٹن مارکٹیں ہونگی اور روز بروزٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہے جبکہ سالانہ اس کی تزین و آرائش کا فنڈ بھی سرکاری خزانے سے جاری ہوتا ہے جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب ضلعی حکومتوں کا عروج تھا اس وقت لیہ روڈ پر اندرون شہر ٹاون کمیٹی سے ملحقہ آراضی پر مٹن مارکیٹ تیار کی گئی مٹن مارکیٹ کا ڈیزائن اسوقت کے تحصیل میونسپل آفیسر نے پنجاب کی مختلف مٹن مارکیٹوں سے جدید ڈیزائن منگوا کر ان میں سے ایک ڈیزائن پر یہ مٹن مارکیٹ تیار کرائی چوک اعظم شہر جب آباد ہو رہا تھا 70ء کی دہائی میں تو اس وقت سبز منڈی اندرون شہر لیہ اور ملتان روڈ کی نکڑ پر لگتی تھی بعد آزاں آبادی بڑھی تو یہ منڈی لیہ روڈ پر میونسپل کمیٹی کی بلڈنگ کے سامنے کرائے کے خالی پلاٹ میں منتقل ہو گئی پھر جب آبادی بڑھی تو یہ سبز منڈی شہر سے باہر شفٹ ہو گئی اسی طر ح غلہ منڈی اور مویشی منڈی بھی تبدیل ہوتی رہی تمام تر ریاستی مشینری قصاب مافیاء پر قانون کا عمل درآمد نہ کرا سکی پرویز مشرف پاکستان مسلم لیگ (ق)پاکستان پپلزپارٹی اور اب مسلم لیگ (ن)کادور گزر رہا ہے ڈی جاوید اقبال مشتاق انجم ندیم الرحمن اور اب رانا گلزار اپنے تمام تر اختیارات کے باوجود قصاب مافیا کو مٹن مارکیٹ میں منتقل نہیں کر سکے لاکھوں روپے کے سرکاری فنڈ سے قرضوں میں ڈوبی ہوئی قوم کے سرمائے سے بننے والی مٹن مارکیٹ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہے مٹن مارکیٹ کو آباد نہ کرنے سے شہر کے بڑھتے ہوئے سنگین مسائل کی طرف میں اربا ب اختیار کی توجہ دلاوں گا اندرون شہر قصاب مختلف جگہ پر پھٹے لگا کر گوشت فروٖخت کر رہے ہیں جس سے ناجائز تجاوزات میں اضافہ ہو رہا ہے گوشت کو دھونے کے لئے پانی پھینکا جاتا ہے وہ پانی روڈ پر کھڑا رہتا ہے جس سے تعفن پھیلتا اوربیماریاں جنم لیتی ہیں آوارہ کتے گوشت کے پھٹوں کے ار گرد دن کو اپنی خوراک کی تلاش میں منڈلاتے نظر آتے ہیں ان میں سے باولے کتے کئی دفعہ شہریوں بچوں اور عورتوں کا کاٹ لیتے ہیں اورپر سے ستم ظریفی کہ کتے کے کاٹے کی ویکسین بھی اکثر تحصیل لیول ہسپتال چوک اعظم میں نہیں ملتی سارادن گاڑیاں موٹررکشوں کا دھواں اور ان کے چلنے سے اڑنے والی گرد سے گوشت زہر آلود ہو جاتا ہے گوشت کھانے سے صحت مند ہونے کی بجائے اکثر لوگ بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اکثر قصاب برلب سڑک یا اپنے گھروں میں جانور ذبح کرتے ہیں جس سے فضلے سے آئے روز سیوریج بند ہو جاتی ہے کڑوروں روپے کا سیوریج منصوبہ بھی اسی مافیاء کی وجہ سے اور چند وجوہات کی بناء پر زمین برد ہو رہا ہے
کئی دفعہ انتظامیہ کی جانب سے قصابوں کو مٹن مارکیٹ میں شفٹ کرنے کی تیاریاں کی گئی مگر بلدیہ میں قصابوں کے ہمدرد سرکاری آفیسران ملازمین اور یونین چند با اثر سیاسی شخصیات کی پشت پناہی سے ہمیشہ ضلعی انتظامیہ اور چوک اعظم کے شہری شکست کھا جاتے ہیں مگر قصاب مافیا جیت جاتا ہے چند روز قبل اے ڈی ایل جی ڈاکٹر لبنی نذیر نے اس ضمن میں کچھ کر گزرنے کا تہیہ کیا تو اس مافیاء کے ایجنٹوں نے ڈاکٹر صاحبہ کو مشورہ دیا کہ ایم ایم روڈ پر ہسپتال کے باالمقابل پیر خورشید سپورٹس کمپلیکس کی ساتھ قصابوں کو شفٹ کر دیا جائے اس سے لاکھوں روپے کی لگائی جانے والی ٹف ٹائل اکھڑ گئی وکلا اور ڈاکڑصاحبہ تنازعہ کی آڑ میں قصاب واپس اندرون شہر چلے گے مگر ان قصابوں کے ہمراہ جو آوارہ کتوں کی ٹولیاں آئی انہوں نے ہسپتال کو ابھی تک اپنا مستقل مسکن بنایا ہوا ہے
مٹن مارکیٹ کے ساتھ مذبحہ خانہ بھی تیار ہو گیا ہے دونوں کام ایک ساتھ ہو جائیں گے مٹن مارکیٹ کے ساتھ کافی وسیع جگہ موجود ہے جہاں مرغی فروشوں مچھلی فروشوں اور سبزی فروٹ فروشوں کے لیے جگہ بن سکتی ہیں
کسی بھی ریاست میں تین مثلثیں ہوتی ہیں 1ریاستی ادارے 2عوام 3مافیا
ریاستی ادارے اور عوام ایک ہو جائیں تو مافیا کو شکست ہوتی ہے اسی طرح عوام اور مافیا ایک ہو جائے تو ریاستی ادارے ناکام ہوتے ہیں اور اگر مافیا اور ریاستی ادارے ایک ہو جائے تو عوام کا جینا محال ہو جاتا ہے ڈی سی او لیہ رانا گلزار صاحب عوام کو ساتھ ملائیں روپ بدل کر ایک دن چوک اعظم کا وزٹ کریں اور جو مسائل میں نے ضبط تحریر میں لائے ہیں اگر اس سے بھی سنگین مسائل ہوں تو اپنی آئینی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری جو کہ قبل ازیں ضلع لیہ میں تعینات رہنے والے تین ڈی سی اوز جاوید اقبال مشتاق انجم ندیم الرحمن پوری نہیں کر سکے کر کے سابق ڈی ایس پی روبینہ عباس کی طرح اہلیان چوک اعظم کا دیرینہ مسئلہ حل کرا جائیں جنرل بس اسٹینڈ لیہ ملتان روڈ
بائی پاس اور مٹن مارکیٹ یہ تینوں منصوبے ایک ہی وقت میں تعمیر ہوئے تھے ٹرانسپورٹ مافیا اپنی گاڑیاں اندرون شہر میں ہی کھڑی کرتے تھے جن کے زہریلے دھوئیں پریشر ہارنوں سے شہری موذی امراض میں مبتلا ہو رہے تھے ذرائع ابلاغ کے ساتھ ایک میٹنگ میں جب زبیر وٹو سابق ٹی ایم او لیہ اور دوسرے آفیسران ان کیساتھ موجود تھے راقم نے انکی توجہ جنرل بس اسٹینڈ کے مسائل اور شہریوں کی تکالیف کی طرف دلائی تو انہوں نے مکمل وزٹ کیے صرف ایک ہفتے میں بائی پاس اور جنرل بس اسٹینڈ چالو ہو گئے شہریوں کا سالوں پرانا مسئلہ حل ہو گیا ڈی سی او لیہ رانا گلزار بھی عوام کو ساتھ ملائیں ریاست کے قانون پر عمل درآمد کرائیں قصابوں کو مٹن مارکیٹ میں شفٹ کیا جائے اس ضمن میں بلا امتیاز کاروائی کی جائے مٹن مارکیٹ آباد ہونے سے جہاں چوک اعظم میں ناجائز تجاوزات کا خاتمہ شہریوں کو فضائی آلودگی سے پاک صحت مند گوشت ملے گا وہیں پر ریاست کا اثاثہ ضائع ہونے سے بچ جانے کیساتھ ساتھ ریوینوسے بھی ریاست کو فائدہ ہوگا اہلیان چوک اعظم کی نظریں ڈی سی او لیہ رانا گلزار کی طرف مرتکز ہیں اب یہ کا م ڈی سی او یا اے ڈی ایل جی ڈاکٹر لبنی نذیر کرتیں ہیں یا روبینہ عباس جیسا اور کوئی آفیسر اپنی تعیناتی کے دور میں کرئے گا۔۔