قصوروار کون ؟ انصاف کے متلاشی والدین
تحریر ۔۔ ملک ابوذر منجوٹھہ
اللہ ڈتہ ضلع لیہ کے ایک دوردراز گاؤں میں رہتا ہے اللہ پاک نے اس کو ایک بیٹا اور بیٹی سے نوازا ہے وہ گدھا گاڑی چلا کر اپنے بچوں کے پیٹ پالتا رہا بچے دن بدن بڑے ہوتے گئے گاؤں میں اور اس کی فیملی میں تعلیم کا کوئی رواج ہی نہ تھا لوگ اپنے بچوں کو اور خصوصا بچیوں کو تو پڑھاتے ہی نہیں تھے لیکن اس نے اپنی پوری فیملی کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے بچوں کو پڑھانے کی سوچ لی تھی۔غربت عروج پر تھی لیکن اس نے اس سب کی پرواہ کیے بغیر اپنے بچوں کی تعلیم کو روکنے کا کبھی نہ سوچا دن گزرتے گئے بیٹی میٹرک میں اچھے نمبر لینے کے بعد آگے بڑھتے ہوئے انٹر میڈیٹ ، گریجویشن کر گئی ۔اللہ ڈتہ اور اس کی بیگم بچوں کو پڑھتے دیکھ بہت خوش تھے گریجویشن کے بعد ماسٹر کے لیے دوستوں نے مشورہ دیا کہ پرائیویٹ کالج میں پڑھ لے فیس تھوڑی زیادہ ہوگی اس کا فاصلہ گھر سے زیادہ نہیں ہوگا سائیکل پر بھی جا کر چھوڑا جا سکتا ہے بیٹی کو بیٹے کی خیر ہے وہ پیدل جا تا رہے گا۔ پورے شہر میں ان پرائیویٹ اداروں کے بڑے بڑے ہولڈنگ لگئے ہوئے ہیں خیر بیٹی کی اچھی تعلیمی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے فیس میں رعایت بھی ملک گئی اور دیکھتے دیکھتے دو سال بھی گزر گئے غریب بندہ تھا بیٹی کی جہیز کے لیے کچھ نہ بچا سکا اور اس کی تعلیم پر خرچ کرتا رہا ۔ تعلیم مکمل ہو گئی ڈگری مل گئی ۔ محکمہ تعلیم نے ان دنوں ریکروٹمنٹ کا آغاز کیا تعلیمی کارکردگی اچھی ہونے کی وجہ سے میرٹ میں قریبی سکول اس کے حصے میں آیا آج اللہ ڈتہ بہت خوش تھا اس کی محنتوں کا صلہ ملنے کو تھا محلہ والے مبارکیں دے رہے تھے ۔گھر میں خوشی کا سماں تھا کہ جلد بیٹی ٹریننگ لے کر گھر کے نزدیک سکول میں استانی لگ جائے گی تنخواہ آئے گی تو اس کا جہیز بنا کر اس کے جلدی سے ہاتھ پیلے کر دیں گے ۔ شاید اس کی خوشیوں کی کسی کی نظر لگ گئی تھی کہ ایک دن اخبار میں سے کسی نے پڑھ کر سنایا کہ ایچ ای سی ان اداروں کی ڈگریوں کو تصدیق کرنے کو تیار نہیں ہے جتنے یہ پرائیویٹ ادارے ہیں ان سب میں پڑھنے والے طلباء کو محکمہ تعلیم نے انکار کر دیا ہے ان پرائیویٹ اداروں میں سے سیکڑوں طلباء ہر سال فارغ التحصیل ہوتے ہیں یہ خبر تو ان تمام والدین پر قہر بن کر برسی تھی اور مزید تفتیش سے پتہ چلا کہ ان طلباء کو بھی نکالا جا رہا ہے جو ان کالجزاور یونیورسٹیوں کے سب کیمپس میں ڈگری لے کر محکمہ تعلیم اور دیگر محکموں میں کام کر رہے ہیں۔یہ خبر اللہ ڈتہ کے گھر پر عذاب بن کر چھا گئی تھی گھر گیا تو بیٹی نے روتے ہوئے اس خبر کی تصدیق کی خوشی غم میں بدل چکی تھی اللہ ڈتہ اس صدمے سے بیمار ہوگیا ۔یہ کہانی کسی ایک اللہ ڈتہ کی نہیں یہ کہانوں ان تمام اداروں میں پڑھنے والے طلباء کے والدین کی ہے جنہوں نے اپنی ذات کی پرواہ کیے بغیر اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے ان پرائیویٹ اداروں کے اخراجات برداشت کیے۔ان تمام والدین کا ہماری انتظامیہ سے ایک ہی سوال ہے کہ ہمارا اور ہمارے بچوں کا کیا قصور ہے؟۔ کیا ان اداروں کی اتنی بڑی بلڈنگز ، ہولڈنگ اشتہارات انتظامیہ کو نظر نہیں آتے ؟ کیا ان اداروں نے کوئی سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے؟ یا یہ بھی کوئی مافیا ہے جو کہ انتظامیہ کے ساتھ ملی بھگت سے کام کر رہاہے اس کاروبار میں کون لوگ ملوث ہیں کتنا بڑے پیمانے کا کاروبار ہے اس سب کا اندازہ اسی بات سے لگا لیں کہ سیکڑوں طلباء ہر سال ان اداروں سے پڑھ کر نکلتے ہیں ہر سال اگر ایچ ای سی نے ان اداروں کو منظوری نہیں دی تو ان اداروں کو بند
کروانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟اور جو طلباء ان اداروں سے پڑھ چکے ہیں جنہوں نے پوری محنت سے اپنا وقت اور ماں باپ کا پیسہ ایمانداری سے اپنی تعلیم کے لیے خرچ کیا تھا ان کا کیا قصور ہے کہ اب جا کر ایچ ای سی انکار کر رہی ہے جن ان کو نوکری کے آرڈر ملنے والے تھے؟
کسی کی ماں نے کسی کی خاطر کتنے کنگن بیچے ہیں
یہ بات شاید نہ ان اداروں کو چلانے والے نہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھے لوگ جانتے ہیں ۔ان تمام وا لدین اور طلباء کی طرف سے وزیر اعلیٰ پنجاب سے التماس ہے کہ وہ نوٹس لیں اور ان طلباء کو ہر صورت انصاف دلوائیں کئی اللہ ڈتہ ہمارے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں سے انصاف کے منتظر ہیں ۔شکریہ اللہ پاک ہم سب کا آسانیاں عطا فرمائیں اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشیں ۔آمین
نوٹ :۔تمام دوست ان طلباء کو انصاف دلوانے کے لیے اس کار خیر میں حصہ لیں اور اس تحریر کو شیئر کریں تاکہ ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں تک عوام کی آواز پہنچ سکے شکریہ
اپنی رائے دینے کے لیے رابطہ نمبر 03027841579پر میسج کردیں
ملک ابوذر منجوٹھہ