شب و روز زند گی قسط 13
تحریر : انجم صحرائی
بھٹو مخالف تحریک کے دوران مجھے کارکنوں کے ساتھ مسلم لیگ ہائوس لاہور میں ایک جلسہ عام میں شرکت کا مو قع ملا۔ وہ ایک بڑا جلسہ عام تھا سٹیج پر تقریبا سبھی اپو زیشن جماعتوں کی لیڈر شپ موجود تھی وہاں میں نے پیر صاحب پگاڑا اور چوہدری ظہور الہی کو دیکھا اس جلسے میں ایک شاعر مشیر کاظمی نے سقو ط ڈھاکہ پر جب اپنی یہ نظم پڑھی تو پورا پنڈال سوگوار ہو گیا تھا میں نے لو گوں کو روتے اور سسکتے دیکھا نظم کے چند اشعار یہ تھے ؛
پھول لے کر گیا آ یا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آ رہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آ دھا گوارہ نہیں
انہی دنوں ہو نے والے ایک واقعہ نے مجھے جماعت اسلامی سے دور کر دیا۔ ہوا یوں کہ ایک دن پہاڑ پور سے چند دوست میرے پا س آئے اور انہوں نے کہا کہ ہم اپنے دوستوں سمیت جما عت اسلا می شامل ہونا چاہتے ہیں آپ کبھی جماعت کے سینئر را ہنمائوں کو پہاڑ پور لے آئیں میں ان دنوں حلقہ متفقین جماعت اسلا می کو ٹ سلطان کا نا ظم تھا میں نے ملک غلام محمد اعوان کو اس دعوت بارے بتا یا تو انہوں نے کہا کہ اگلے ہفتے ضلعی جزل سیکریٹری لیہ آ رہے ہیں پرو گرام بنا لیتے ہیں ہمارے ضلعی جزل سیکر یٹری لعل خان کا تعلق دا ئرہ دین پناہ سے تھا مو صوف محکمہ ڈاک سے ریٹا ئرڈ تھے میں نے ملک صاحب کی اجا زت سے پرو گرام فا ئینل کر لیا طے پا یا کہ لعل خان دائرہ دین پناہ سے اور ہم لوگ لیہ سے پہا ڑ پور کے ڈاکٹر اسلم کے ہاں اکٹھے ہو ں گے۔
ڈاکٹر اسلم سا نپوں والے ڈاکٹر کے نام سے معروف تھے اس زمانے میںپیر مہتاب شاہ ایم پی اے ہوا کرتے تھے اور ڈاکٹر صاحب اپنے علا قے میں ایم پی اے کے خاص بندوں میں سے ایک تھے پیر مہتاب شاہ نے جمیعت العلماء پا کستان کے ٹکٹ پر کا میاب ہو نے کے بعد پی پی پی حکو مت کو جوائن کر لیا تھا ایک طرف ڈاکٹر صاحب پی پی پی کے ایم پی اے کے حواری تھے دو سری جانب مو صوف نے جما عت اسلا می کے حلقہ متفقین کی ذمہ داریاں بھی سنبھا لی ہو ئی تھیں ، دیگر علا قا ئی سیا سی دھڑوں سے بھی ڈاکٹر کی خوب بنتی تھی سو ڈاکٹر صاحب پہاڑ پور میں سیا سی گھنٹہ گھر بنے ہو ئے تھے قصہ مختصر جب ہم مقررہ وقت پر ڈاکٹر صاحب کے کلینک پر پہنچے تب لعل خان بھی آ ئے ہو ئے تھے چا ئے وغیرہ پی کر میں نے کہا چلیں دوست ہما را انتظار کر رہے ہوں گے یہ سن کر جزل سیکٹری صاحب نے فر ما یا نہیں ہم کہیں نہیں جا رہے یہاں پہا ڑ پور میں شیعہ سنی کا بڑا مسئلہ ہے ڈا کٹر اسلم کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم وہاں گئے تو جماعت کی سا کھ متا ثر ہو گی میں یہ بتا تاچلوں کہ ہمیں جن دو ستوں نے دعوت دی تھی وہ سید تھے اور شیعہ تھے ۔ میں نے ان کی بات سن کر عرض کیا کہ یہ کیا بات ہو ئی جماعت تو فر قہ بندی پر یقین نہیں رکھتی ان دوستوں نے ہمیں دعوت دی ہے ہم ان کی دعوت قبول کر کے یہاں آ ئے ہیں اب وہ لوگ ہمارا انتظار کر رہے ہیں ہمیں وہاں جا نا چا ہیئے۔
میری بات سن کر ڈاکٹر بو لے یار تمہیں کیا پتہ ہے تم ایسے ہی ضد کر رہے ہو میں نے کہا اچھا آپ ایسا کریں کہ ہمیں لکھ دیں کہ آپ کا جما عت اسلا می کے علا وہ کسی دوسرے سیا سی دھڑے سے کو ئی تعلق نہیں ہے ہم نہیں جا ئیں گے میں نے کہا کہ آپ صرف اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے ایسا کر رہے ہیں وگر نہ آپ جما عت سے جتنے مخلص ہیں مجھے پتہ ہے یہ کہتے ہو ئے میں نے ملک غلام محمد اعوان سے کہا کہ جناب آپ چلتے ہیں یا پھر ہم جا ئیں ۔ ابھی یہ الفاظ میری زبان سے نکلے ہی تھے کہ ڈاکٹر اپنی کر سی سے اٹھے اور میرے گریبان سے پکڑ کر مجھے نیچے گرایا اور مجھ پہ چڑھ بیٹھے لعل خان ہکا بکا چپ چاپ یہ منظر دیکھتے رہے اور ملک صاحب مجھے چھڑانے کے لئے آ گے بڑھے مگر ڈاکٹر مجھے نیچے گرا ئے اور دبو چے ایسے رگڑ ے لگا رہا تھا جیسے فری سٹائل کشتی کرتے ہو ئے پہلوان اپنے مخا لف پہلوان کو چت کر کے رگڑتے ہیں میرے سا تھ ایک اور میرے دوست بھی تھے نام ہے ان کا با قر رضوی ان کے والدہا شم رضوی اس زما نے میں کوٹ سلطان سٹیشن ما سٹر ہو کرتے تھے۔
با قر میرے کچھے کا یار ہے اس نے جب ڈاکٹر کو مجھے رگڑے لگاتے دیکھا اور دیکھا کہ ڈاکٹر کسی کی بات سننے ، ما ننے اور مجھے چھوڑ نے پر تیار نہیں تب باقررضوی نے بڑے سکون اور آرام سے اپنی کر سی چھوڑی آ گے بڑ ھا اور پھر وہ سب کچھ ہو گیا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا با قر خا صا صحت مند تھا اس نے مجھ پر بیٹھے اور مجھے رگڑے مارتے ڈاکٹر کو گردن سے پکڑ کے ایسے اوپر اٹھا یا جیسے کسی حلال بکرے کو قصا ئی اٹھا تا ہے اور جھٹکے سے اسی کلینک کے ایک کو نے میں پھینک دیا شو ر شرابا سن کر آس پڑوس سے کئی بوڑھے اور بچے یہ تما شہ دیکھنے آ ئے بھی مگر کو ئی کچھ نہ بو لا ایسا لگتا تھا کہ ڈاکٹر کے کلینک میں ایسے واقعات روز ہی ہو تے ہیں اسی لئے کسی نے بھی نہ کو ئی تعجب کیا اور نہ ہی کچھ اعتراض۔ جو نہی میری گردن ڈاکٹر کے شکنجے سے آزاد ہو ئی میں اٹھا گردن سہلا ئی ، کپڑے جھا ڑے اور با قر رضوی کا ہا تھ تھا مے ا پنے میز با نوں کے گھرپہنچ گیا جنہوں نے میرے قا ئدین کے لئے کھا نے میں بہت تکلف کر رکھا تھا ۔ استفسار پر انہیں کہا کہ جنہوں نے آ نا تھا ان کی فو تیدگی ہو گئی ہے اس لئے وہ نہیں آ سکے ۔باقررضوی آ ج کل لو دھراں میں سیٹل ہیں اور ان کا شمار لو دھراں کے سینئر جر نلسٹ میں ہو تا ہے ان کی اور میری سنگت نصف صدی سے زیادہ پر محیط ہے وہ آج بھی میرا سب سے پیارا اور منہ چڑھا دوست ہے۔
جماعت اسلامی کے اس دور وابستگی کے دوران مجھے تین اور دوست ملے ان میں لیہ کے عبد السمیع اعوان ، کوٹ سلطان کے محمد جا وید اور موڑ جھنگی کے غلام شبیر ۔ جاوید کے والد سعید احمد عربی ٹیچر تھے جو جتو ئی سے ٹرانسفر ہو کر کوٹ سلطان ہا ئی سکول میں آ ئے تھے جماعت کے نظریا تی کارکن تھے اسی نا طے جا وید جنون کی حد تک جما عتیہ تھا ۔ جا وید کی دونوں ٹا نگین شا ئد بچپن میں کسی بیماری کے سبب کمزور رہ گئیں تھیں مگر وہ اس کمزوری کو اپنے ارادے میں آ ڑے نہ آ نے دیتا ۔ اس کی کو شش ہو تی کہ وہ زیادہ سے زیا دہ وقت جما عتی سر گر میوں میں صرف کرے اگر اسے اس ذمہ داری کی ادا ئیگی کے لئے سارادن بھی سا ئیکلنگ کر نا پڑتی تب بھی وہ نہ تھکتا ۔ بے شک وہ ایک بڑا کا رکن اور اچھا دوست تھا۔
اللہ بخشے عین جوانی میں ہی داغ مفارقت دے گیا ۔ عربی ما سٹر سعید احمد کے ایک بیٹے الطاف لیہ میں انکم ٹیکس کی پریکٹس کرتے تھے ان کی بیٹی نیلو سیال سرا ئیکی کی مشہور گیت نگار ہیں ۔ غلام شبیر کا تعلق موڑ جھنگی تو نسہ سے ہے کوٹ سلطان مین اس کی عزیز داری ہے میری جب ان سے ملا قات ہو ئی وہ رکن جما عت تھے اس زما نے میں رکن جما عت بننا بڑا مشکل اور کٹھن ہو تا تھا لیکن وہ میرے ہی ہم عمر تھے اور رکن جما عت تھے ۔جب میں نے جماعت سے علیحدگی کے بعد کوٹ سلطان سے ضلع کو نسل کا الیکشن لڑا ۔ غلام شبیر نے موڑ جھنگی سے کوٹ سلطان آ کر دن رات میری انتخابی مہم میں حصہ لیا ۔شبیر ایک مخلص ، نظریا تی اور صابر کارکن ہے کچھ عر صہ کے بعد وہ مستقل طور پر لیہ شفٹ ہو گئے ۔ بہت پہلے کی بات ہے ملے تو بتایاکہ وہ آ ج کل دفتر جما عت اسلا می میں بطور ناظم دفتر ڈیو ٹی ادا کر رہے ہیں میں نے پو چھا کتنی تنخواہ ملتی ہے بو لے ڈھائی ہزار میںنے کہاکہ گذارہ کیسے ہو تا ہے کہنے لگے کہ عید گاہ میں 500 روپے ما ہوار کرایہ پر مکان لیا ہوا ہے سو پچاس روپے بجلی کا بل ادا ہو جا تا ہے کچھ پیسے ایمر جنسی میں اور کچھ مہمانداری میں ، با قی بچت ہی بچت ہے میں بیوی اور بیٹی ہم تین بندے ہیں چودہ پندہ سو ختم ہی نہیں ہو تے۔
غلام شبر آج بھی ملتا ہے حالات اور وقت کے تقا ضوں کے اثرات اب اس کے چہرے بشرے سے ظاہر تو ہو تے ہیں مگر توکل اور صبر کی رو شنی اسے مزید خو بصورت بنا ئے ہو ئے ہے ۔ لیہ میں میرا سب سے خوبصورت اور بصد افتخار دوست عبد السمیع اعوان بنا جس نے انتہا ئی برے وقتوں میں مجھے قدم قدم پر سہا را دیا ایک سچے دوست اور بھا ئی کی طرح مجھے عزیز رکھا ۔سمیع اعوان ان دنوں اپنا تخلص شمش رکھتے تھے ۔ اماں کی جدا ئی کے بعد جب مجھے لیہ میں رہا ئش کا مسئلہ پیش آ یا تب انہوں نے تحصیل روڈ پر واقع اپنے مکان کی چا بیاں مجھے تھما دیں ۔ سمیع کی ابھی شادی نہیں ہو ئی تھی اور یہ مکان خا لی تھا ۔ یہ مکان بر سوں میرے استعمال میں رہا سمیع نے کبھی ایک ٹکہ کرایہ نہیں لیا ۔ بہت بندے آ ئے کہ مکان کرایہ پر دے دیں سمیع نے انہیں جواب میں یہی کہا کہ مکان خالی نہیں ہے۔ میں نے اس مکان میں ایک فری کو چنگ سنٹر کھول لیا دن میں صحا فت اور سیا ست گردی کر تا اور سہہ پہر میں بچوں کو پڑھا تا۔ ہمارے پڑوس میں بسنے والے الوری خاندان کے بہت سے بچے میرے پاس ٹیوشن پڑ ھنے آ تے تھے بعض اوقات جب وہ محسوس کر تا کہ میری جیب خالی ہے تب وہ اپنا کھا نا لے کر میرے پاس آ جا تا اور اپنے ساتھ مجھے بھی کھا نا کھلا تا میں آ ج تک یہ نہیں جان سکا کہ سمیع کو کیسے خبر ہو جا تی تھی کہ میں نے کھا نا نہیں کھا یا۔
سمیع ایک سادہ اور پر خلوص انسان ہے ایک دن وہ مجھے پہاڑ پور نشیب میں اپنی زمینوں پر لے گیا وہاں اس کا چھوٹا بھا ئی عبد العزیز ہمارے لئے چا ئے اور انڈے ابال کر لا یا ۔ میں نے عزیز سے پو چھا کہ کو نسی کلاس میں پڑھ رہے ہو اس نے بتا یا کہ میں نے مڈل کیا ہے اور پڑ ھا ئی چھوڑ دی ہے بس کنویں پر ہی ہو تا ہوںجا نوروں کو پٹھے وٹھے ڈالتا ہوں اور کھیتی باڑی کر تا ہوں ، مجھے یہ سن کر افسوس ہوا میں نے کہا کہ عزیز یہ تو اچھا نہیں ہو رہا تم اپنی تعلیم دوبارہ شروع کرو ۔ عزیز میری باتیں بڑے غور اور خا مو شی سے سنتا رہا سے کچھ مہینوںبعد مجھے پتہ چلا کہ عزیز نے میٹرک کا امتحان دیا ہے یہ سن کر بہت خو شی ہو ئی اور پھر ایک دن عزیز نے مجھے بتا یا کہ بھا ئی جان میں نے لیہ ڈسٹرکٹ کورٹس میں اپنا چیمبر بنا یا ہے ملک عبد العزیز اعوان ایڈ وو کیٹ لاء چیمبر ۔ ملک عزیز اعوان ایڈ وو کیٹ نے بہت مختصر سے عر صہ میں بڑا نام کما یا وہ ایک ما ہر قا نون دان تھے بہت سے جو نیئر وکیل ان کے چیمبر سے وابستہ رہے ۔ مگر قدرت کے کھیل بھی نرا لے ہو تے ہیں وہ کا میاب وکیل بھی عین شباب میں چل بسا ، جب عزیزاعوان ایڈووکیٹ مر حوم کے انتقال کی خبر مجھے ملی وہ سارا منظر آ نکھوں کے سا منے گھوم گیا ۔ وہ ہمارا پہاڑ پور جا نا ، ایک لو نگی با ندھے سادہ سے بچے کا چا ئے اور ابلے ہو ئے انڈے لا نا ۔ وہ با تیں اور پھر یہ کا میا بیاں اور پھر یہ واپسی ۔ یہ سب یا دیں مجھے بہت اداس کر گئیں۔
با لوں کی سفیدی سے سہم جا تا ہوں
زند گی تیری رفتار سے ڈر لگتا ہے
سمیع اعوان محکمہ تعلیم سے ریٹا ئرڈ ہوئے ۔ آج کل صاحب فراش ہیں پچھلے کئی سا لوں پہلے فالج کے حملے کا شکار ہو ئے خاصی تکلیف دہ صورت حال رہی مگر اب بہتر ہیں بیٹھ بھی جاتے ہیں اور سہا را لے کر چل بھی لیتے ہیں میں جب بھی ملنے جا تا ہوں دیکھ کر بہت خوش ہو تے ہیں بات کر تا ہوں تو جواب کم بچوں کی طرح کلکا ریاں زیا دہ ما تے ہیں سمیع کی خو شی دید نی ہو تی ہے اتنی کہ اس کی آ نکھیں کی نمی میری آ نکھوں میں آ بستی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ تا کہ میں اپنے اس محسن دوست کا دکھ کیسے شیئر کروں۔ سمیع کی محبتوں کا قرض یقینا میں نہیں اتار سکتا ۔با قی اگلی قسط میں۔۔۔
انجم صحرائی