بدمعاشی کا سنہری دور
مقبول جنجو عہ
آج کل بدمعاشی پر بہت بری طرح زوال آیا ھوا ھے میں نے بدمعاشی کا سنہری دور آپنی آنکھوں سے دیکھا ھے، مجھے یاد ھے علاقے کا جو چوٹی کا بدمعاش ھوتا تھا، اس کے پاس صرف "گراری والا چاقو” ھوتا تھا جس کے لیور کو انگوٹھے سے دبانے سے چاقو "کرکرکرکر” کی خوفناک آواز سے کھلتا تھا اور اس کی دھشت سے مقابل دم دبا کر بھاگ اٹھتا تھا اور یوں مقابلے کی نوبت ھی بہت کم آتی تھی_ شریف لوگ اپنے بچوں کو، ان بدمعاشوں کی صحبت سے دور رکھتے تھے. بلکہ خود ان کے گھر والے بھی انہیں اپنانے سے گریز کرتے تھے_ اسکے باوجود اگر کسی محلے میں بدمعاش کا گھر ھوتا تو لوگوں کو تحفظ کا احساس بھی ھوتا، وہ نہ صرف خود محلے میں نظریں جھکا کے چلتا تھا بلکہ کسی اور کو بھی جرا”ت نہیں ھوتی تھی کہ کسی کی عزت و ناموس کو میلی آنکھ سے دیکھ سکے.اب جہاں تک موجودہ زمانے کا تعلق ھے، میرے نزدیک یہ بدماشی کے زوال کا زمانہ ھے…. بدمعاشی کی کچھ اپنی اخلاقیات ھوتی تھیں، آج کا بدمعاش ان سے بھی محروم ھو گیا ھے.اب بدمعاش کی زد میں اسکا حریف ھی نہیں، وہ لوگ بھی آتے ھیں جن سے ان کا کسی قسم کا تصادم نہیں ھوتا… اب گراری والے چاقو کی جگہ کلاشنکوف استعمال ھوتی ھے، جسکی زد میں ایک نہیں، کئی گھرانے آتے ھیں…. آج کا بدمعاش شرفاء کے گھروں میں دندناتا ھوا داخل ھوتا ھے اور عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو بھی تشدد کا نشانا بناتا ھے_ جو بدمعاش، بدمعاشی کے سنہری دور میں خواتین کی عزت و ناموس کا محافظ ھوتا تھا.آج وہ عزت و ناموس کے لٹیرے کے طور پر سامنے آیا ھے. پہلے بدمعاش طاقت اور جیداری کے بل بوتے پر بدمعاش کہلاتا تھا، آج وہ آپنی بزدلی اور کم ہمتی کو کلاشنکوف کے برسٹ میں چھپانے کی کوشش کرتا ھے بدمعاشی کے کے زوال کی بدترین صورت یہ ھے کہ گزرے زمانے میں بدمعاش، بدمعاش ھی کے روپ میں آتے تھے آج کے بدمعاش شرفاء کی صورت میں، ھمارے درمیان موجود رھتے ھیں چنانچہ انہیں گرفتار کرنا تو کجا، انہیں اپنے درمیان تلاش کرنا بھی آسان نہیں رھا….؟ گزشتہ ستاسٹھ برس میں جہاں دوسرے قومی اداروں پر زوال آیا ھے، وھاں بدمعاشی کا ادارہ بھی زوال کی زد میں ھے کیا پڑھے لکھے سیاسی اور غیر سیاسی بدمعاش اس صورت_حال پر غور کرنے کی زحمت نہیں فرمائیں گے…..؟؟؟